یہودی سازشیں اور کینسر کا علاج۔۔۔۔حسن رضا چنگیزی/قسط 2

سازشی تھیوری اور پراسرار تنظیموں کے ضمن میں ایک اور تنظیم کا بھی نام بکثرت لیا جاتا ہے جسے فری میسن کہتے ہیں۔ فری میسن کے بارے میں ایک عام تصور یہ ہے کہ یہ دراصل ایلومیناٹی کا ہی دوسرا نام ہے جب کہ بعض لوگوں کے خیال میں ایک ہی نوعیت کے تصورات رکھنے کے باوجود یہ دو مختلف تنظیمیں ہیں۔ فری میسن کی تاریخ سے متعلق مختلف آراء وجود رکھتی ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ فری میسن کی تشکیل1717 میں لندن میں ہوئی جبکہ بعض روایات کے مطابق اس کی بنیاد امریکہ کی جنگ آزادی Revolutionary War 1775-1783))  کے دوران رکھی گئی۔ یہ وہی وقت تھا جب بویریہ (جو اب جرمنی کا حصہ ہے) میں ایلومیناٹی کی تشکیل ہو رہی تھی۔ فری میسن کی تاریخ سے متعلق متضاد آراء ہونے کے باوجود اس بات پر عمومی اتفاق پایا جاتا ہے کہ ایلومیناٹی کی طرح اس تنظیم کا سلسلہ بھی نائٹس ٹیمپلر سے ہی جا ملتا ہے جس سے اس نظریے کو تقویت ملتی ہے کہ ایلومیناٹی اور فری میسن ایک ہی پراسرار تنظیم کے مختلف نام ہو سکتے ہیں۔ فری میسن دراصل فرانسیسی الفاظ Frere Mason کا ماخذ ہے جس کا مطلب ہے راج برادری یا راج بھائی چارہ۔  کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی جنگ آزادی سے قبل وہاں تعمیرات کے شعبے سے تعلق رکھنے والے فرانسیسی مزدوروں کی ایک بڑی تعداد آباد تھی ۔ ان کا آپس میں بہت منظم رابطہ تھا اور وہ وقت آنے پر ایک دوسرے کی کھل کر مدد کرتے تھے۔ ان کا ایک خفیہ نیٹ ورک بھی تھا جو  بہت وسیع، منظم اور دور دراز علاقوں تک پھیلا ہوا تھا جس کی بدولت انہوں نے وہاں کے سیاسی اور معاشی معاملات میں ایک اہم مقام حاصل کرلیا تھا۔ ان کے اثرو نفوذ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ علاقے کے بینکوں سے قرضہ لینے یا کسی قسم کی نوکری کے حصول کے لئے فری میسن کے کسی رکن کی ضمانت لازمی ہوتی تھی۔ وہ اپنے خفیہ اجلاس زیر تعمیر عمارتوں میں منعقد کرتے جنہیں میسن لاج کہا جاتا تھا۔ میسن لاج کی یہ اصطلاح ان کے ابتدائی تنظیمی ڈھانچے کے لئے بھی استعمال ہوتی تھی۔ سازشی تھیوری پر یقین رکھنے والوں کے مطابق امریکہ کی جنگ آزادی کے دروان فری میسن اتنے طاقتور ہو چکے تھے کہ کئی مالیاتی اداروں اور بینکوں پر ان کا قبضہ ہو چکا تھا اور وہ وہاں کے نظام سیاست میں اتنی سرایت کر چکے تھے کہ امریکہ کے اعلان آزادی پر دستخط کرنے والے ستاون رہنماؤں میں سے پچاس کا تعلق فری میسن سے تھا۔ جن میں جیمز فرینکلن، جان ہینکاک اور جارج واشنگٹن جیسے بڑے نام بھی شامل تھے۔

ایلومیناٹی اور فری میسن دو مختلف تنظیموں کے نام ہوں یا ایک ہی تنظیم کے دو مختلف نام، سازشی تھیوری پر یقین رکھنے والے اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ ان تنظیموں کا ایک ہی ایجنڈا ہے یعنی تمام انسانوں کو ٖغلام بنانے کے بعد “دنیائے واحد پر فرد واحد کی حکمرانی”۔ سازشی تھیوری کے موجد اور پرچارک زیادہ تر مغربی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں جن میں مذہبی رہنما،  صحافی، دانشور، کتابوں کے مصنفین اور شو بز  سے تعلق رکھنے والے بے شمار افراد شامل ہیں۔ مذہبی پیشواؤں اور سکالرز کی اکثریت کا تعلق مسیحی عقیدے سے ہے جن میں شامل بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ایلومیناٹی در حقیقت شیطان کے پجاری ہیں اور وہ تمام مذاہب کا خاتمہ کر کے دنیا پر اپنا شیطانی نظام مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ اس بات کے ثبوت کے طور پر تکون (Pyramid)  کے اوپر بنی اس “شیطانی” آنکھ کی مثال دی جاتی ہے جسے ایلومیناٹی کی علامت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ مذہبی افراد کی ایک بڑی تعداد ان افراد پر مشتمل ہے جنہیں اس بات کا مکمل یقین ہے کہ ایلو میناٹی یا اس جیسی دیگر خفیہ سوسائٹیز کے پیچھے یہودیوں کا دماغ کارفرما ہے جو دنیا سے تمام حکومتوں اور صیہونیت کے علاوہ تمام مذاہب (بالخصوص مسیحیت) کا خاتمہ کر کے دنیا پر فرد واحد کی حکمرانی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے اس خدشے کو درست ثابت کرنے کے لیے ان مسیحی دانشوروں کے پاس بے شمار دلائل ہیں۔ مثلاً وہ یہودیوں کی مقدس کتاب“تالمود”  کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ یہودی دیگر مذاہب خصوصاً مسیحیت کے ماننے والوں کو اتنا حقیر جانتے ہیں کہ انہیں اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ اگر کبھی انہیں زندہ رہنے کے لئے کسی انسانی جگر کی ضرورت پڑے تو وہ کسی غیر یہودی کو قتل کر کے اس کا جگر حاصل کر سکتے ہیں۔ تالمود کے مطابق  یہودیوں کی تخلیق اسی لئے کی گئی ہے کہ وہ زمین پر حکمرانی کریں جبکہ غیر یہودی ناقص اور شیطانی خصلتوں کے حامل ہوتے ہیں جنہیں صرف اس لئے خلق کیا گیا ہے کہ وہ  آل یہود کی خدمت کریں۔ اسی طرح مسیحیوں کو اس بات کا بھی رنج ہے کہ تالمود میں حضرت عیسیٰ کی نہ صرف جگہ جگہ توہین کی گئی ہے بلکہ حضرت مریم کی شان میں بھی گستاخانہ کلمات کہے گئے ہیں۔ مسیحی دانشوروں کو اس بات کا یقین ہے کہ ایلومیناٹی تالمود کی تعلیمات کے مطابق دنیا پر یہودیت کی حکمرانی قائم کرنا چاہتے ہیں جس کا مطلب مسیحیت کا مکمل خاتمہ ہے۔ ان مذہبی دانشوروں کا یہ بھی خیال ہے کہ ایلومیناٹی سے وابستہ افراد بڑی تعداد میں مسیحی مذہبی اداروں میں گھس گئے ہیں۔ یہ افراد حضرت عیسیٰ کی تعلیمات کی غلط تشریح کرتے ہیں تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں مذہب کا غلط تصور بٹھایا جائے۔

ایلومیناٹی کی سازشی تھیوری پر یقین رکھنے والا دوسرا طبقہ غیر مذہبی افراد کا ہے جس میں بیسٹ سیلر کتابوں کے مصنفین، ٹیلی ویژن اور فلم کے اداکار، صحافی، دانشور اور محققین شامل ہیں۔ ان کا بھی یہی خیال ہے کہ اعلیٰ یہودی دماغوں کے زیر نگرانی  چلنے والی یہ خفیہ سوسائٹی دنیا پر قبضے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے جسے ون ورلڈ آرڈر کہا جاتا ہے۔ تکون کے اوپر بنی آنکھ کی شبیہ سے متعلق ان کا ماننا ہے کہ اس سے مراد دنیا پر اعلیٰ ترین دماغوں کی حکمرانی ہے۔ انہیں یقین ہے کہ دنیا بھر میں جتنی بھی بڑی تحریکیں اٹھی ہیں ان کے پیچھے ایلومیناٹی کا ہاتھ رہا ہے جس کا مقصد انسانوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرنا ہے تاکہ وہ آپس میں لڑ کر ایک دوسرے کو قتل کرتے رہیں۔ ان کے خیال میں جنگ برائے امن کا نعرہ بھی دراصل اسی پراسرار سوسائٹی کی ایجاد ہے جس کے پیچھے یہ بنیادی سوچ کارفرما ہے کہ جہاں جتنی شدید جنگ ہو گی وہاں لوگ امن کے لئے اتنا ہی زیادہ ترسیں گے۔ اسی لئے دنیا بھر میں خونریز جنگیں برپا کی جاتی ہیں تاکہ لوگ امن کی بھیک مانگنے لگیں۔ جنگ زدہ ملکوں سے بھاگ نکلنے والوں کے لئے پرامن اور ترقی یافتہ ملکوں کے دروازے کھول دینے کا ایک مقصد بھی یہی ہے کہ مختلف ثقافتوں کے ملاپ سے ان کے درمیان موجود خلیج کو کم کیا جائے جو جہان واحد کی تشکیل کے لئے بے حد لازمی ہے۔ اقوام متحدہ کی تشکیل کو ایلومیناٹی کے ون ورلڈ ایجنڈے کا ہی حصہ سمجھا جاتا ہے جبکہ دنیا کے مختلف ممالک کے درمیان  تشکیل پانے والی علاقائی تنظیموں کے بارے میں بھی یہی تصور کیا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی باور کیا جاتا ہے کہ امریکی اور برطانوی پارلیمنٹ میں مضبوط ترین لابیوں کا تعلق ایلومیناٹی سے ہے جو مخصوص ایجنڈوں کی تکمیل کے لئے سر گرم عمل رہتے ہیں۔ سازشی نظریہ دانوں کے مطابق دنیا بھر میں ہونے والے تمام بڑے واقعات، حکومتوں کی اکھاڑ بچھاڑ حتیٰ کہ مشہور شخصیات کے قتل کے پیچھے بھی ایلومیناٹی کا ہاتھ ہوتا ہے۔  امریکہ سمیت دنیا بھر کے اکثر مالیاتی اداروں، بڑی سرمایہ دار کمپنیوں، بینکوں حتیٰ کہ امریکی فیڈرل ریزرو بینک، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے بین الاقوامی اداروں پر بھی ایلومیناٹی کا تسلط قائم ہے۔ اسی طرح دنیا بھر کی اکثر بڑی فاماسیوٹیکل کمپنیاں، بڑے تحقیقی و صنعتی ادارے اور ہیوی ٹیکنالوجیکل انڈسٹریز ایلومیناٹی سے منسلک  یہودیوں کے سرمائے سے چلتے ہیں۔ دنیا کے اکثر بڑے میڈیا گروپس، اخبارات، ٹی وی، ریڈیو، فلم انڈسٹری اور سوشل میڈیا بھی ایلومیناٹی سے وابستہ یہودیوں کے مکمل کنٹرول میں ہیں جن کے ذریعے غیر محسوس طریقوں سے دنیا بھر کے لوگوں کی برین واشنگ کی جاتی ہے اور ان کی رائے تبدیل کر کے ان کے دماغوں میں اپنا ایجنڈا ٹھونسا جاتا ہے۔ سکالر شپس کے نام پر دنیا بھر کے باصلاحیت اور روشن دماغ طالب علموں اور سکالرز کو امریکہ اور یورپ کی بہترین یونیورسٹیوں میں اس لئے داخلہ دیا جاتا ہے تاکہ ان کی ذہنی تربیت کر کے انہیں مستقبل کے ایجنڈوں کی تکمیل کے لئے تیار کیا جائے۔ نت نئی ایجادات اور ٹیکنالوجی کی ترقی پر خصوصی توجہ دینے کی وجہ بھی یہی ہے کہ انسان کو مشینوں کا مکمل محتاج بنا کر انہیں آزادانہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا جائے۔

امریکی صدر روزویلٹ نے کہا تھا کہ “سیاست میں کوئی بھی واقعہ اتفاقی رونما نہیں ہوتا، اگر کوئی واقعہ رونما ہو جائے  تو جان لیں کہ اس کے لئے ایسی ہی منصوبہ بندی کی گئی تھی”۔ یاد رہے کہ یہ وہی فرینکلن ڈیلانو روزویلٹ ہے جن کے بارے تصور کیا جاتا ہے کہ وہ ایلومیناٹی کے ایک اہم رکن تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ؛ تین حصوں پر مشتمل مضمون کا یہ دوسرا حصہ ہے۔ پہلا حصہ یہاں ملاحظہ کریں۔

Facebook Comments

حسن رضا چنگیزی
بلوچستان سے تعلق رکھنے والا ایک بلاگر جنہیں سیاسی اور سماجی موضوعات سے متعلق لکھنے میں دلچسپی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply