لندن میں داعش کی دہشت گردی ۔۔۔ طاہر یاسین طاہر

دہشت گردوں کے اہداف طے ہیں، انسانیت ان کا ہدف ہے۔  داعش نے پھر سے لندن  اپنی بربریت کا مظاہرہ کرے 29 افراد کو ہدف بنایا ہے۔اپنی فکر اور اپنے فہم کو ساری دنیا پہ مسلط کرنے والے جہاں کہیں بھی موقع پاتے ہیں انسانوں کو موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔بے شک دہشت گردی کبھی بھی کسی ایک خطے یا ملک کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ اب یہ ایک خوفناک عالمی حقیقت بن چکی ہے۔دہشت گردی کی بہت ساری، مذہبی، مسلکی، علاقائی،نسلی، بین المذہبی ، نفسیاتی ،عالمی ومعاشی ا ور اقتصادی  وجوھات موجود ہیں۔لیکن تمام برائیوں کی جڑ امریکہ و یورپ کو قرار دینا اور وہاں کے باشندوں،مقامات اور اداروں کو نشانہ بنانا کسی بھی طرح انسانیت اور مسلمانوں کے حق میں نہیں۔ یہ کوئی دلیل نہیں کہ ہر جگہ مسلمان پس رہے ہیں، اقتصادی و سماجی لحاظ سے پسماندہ ہیں اور یہ کہ دنیا کے فیصلہ ساز ممالک اپنا اسلحہ بیچنے کے لیے مسلمانوں کو آپس میں لڑاتے ہیں۔لہٰذا ان سے بدلہ ضروری ہے۔یہ ایک لغو اور غیر ضروری سوچ و ردعمل ہے جس کا خمیازہ سارے مسلمان بھگت رہے ہیں۔
ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد،سب سے زیادہ مسلمانوں کا ہی نقصان ہوا۔ضمنی طور یہ بھی یاد رکھا جائے کہ نائن الیون واقعہ پہ جشن منانے والے بھی مسلمان ہی تھے۔امریکہ تو آج بھی اسی طاقت کے ساتھ دنیا کا فیصلہ ساز ہے۔ اسامہ بن لادن اور اس کی القاعدہ کہاں گئی؟ ملا عمر کے طالبان کدھر ہیں؟چیزوں کو ان کے تسلسل سے کاٹ کر دیکھا جائے گا تو معاملہ سمجھ نہیں آئے گا۔ مسلمانوں کو یہ فکری مغالطہ لاحق ہو چکا ہے کہ ساری دنیا انھیں شکست دینے کے لیے یکجان ہے۔سارا عالم ِ کفر مسلمانوں سے خوف زدہ ہے،اور اسی خوف کا نتیجہ ہے کہ عالم کفر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتا رہتا ہے۔تاریخ کے اوراق کی اگر ورق گردانی کی جائے تو یہ ملتا ہے کہ روس جب افغانوں کی دعوت پہ اپنی فوجوں سمیت آیا تو اسے روکنے کے لیے امریکہ نے ڈالرز اور اسلحہ کے ذریعے نئی جہادی” تراکیب اور کھیپ “تیار کی۔اس تیاری میں پاکستان بالکل شامل تھا اور اس شمولیت کی قیمت وصول کی جا رہی تھی۔اس وقت اہل کتاب کا یکجا ہونا ضروری قرار پایا تھا۔ اسامہ بن لادن جیسے فہم کا بندہ بھی عالم اسلام کی نمائندگی کرنے لگا۔
یہ اسی تکلیف دہ نمائندگی کا ہی نتیجہ فکر تھا کہ نائن الیون ہوا،اور پھر اسامہ کی تلاش میں امریکہ افغانستان میں آکر بیٹھ گیا۔ اسامہ ملِا کہاں سے؟ ایبٹ آباد سے، یعنی جو ٹارگٹ امریکہ کا تھا وہ حاصل ہو گیا تھا، امریکہ کو چلے جانا چاہیے تھا۔اس پہ کسی اور وقت بحث کریں گے کہ امریکہ اسامہ کو مارنے کے بعد بھی کیوں نہیں گیا۔یہی القاعدہ، اس کی شاخ النصرہ اور پھر انہی کی” کزن” داعش،دنیا کے لیے ایک نیا خطرہ ہیں۔جس طرح داعش کی تخلیق میں امریکہ و یورپ کے ساتھ چند عرب اور ایک مزید مسلم ملک نے تعاون کیا،یہ بجائے خود ایک حیرت انگیز اور خطرناک پہلو ہے۔مسئلہ اب کہاں ہے؟ پہلے القاعدہ دنیا کے لیے خطرہ تھی، اب داعش ہے۔داعش ایک بلند تریب خطرہ ہے ، جبکہ القاعدہ ،النصرہ،طالبان کے مختلف فکری و عسکری دھڑے، بوکو حرام ،الشباب، یہ سب ایک ہی فکری رویے سے” نشہ “لینے والی تنظیمیں ہیں۔افغانستان، شام،عراق،یمن اور پاکستان میں انھیں شکست ہو رہی ہے۔اپنی بربریت کا رخ داعش نے بالخصوص یورپ کی طرف موڑ دیا ہے۔گذشتہ دنوں بھی یورپ میں ،ہجوم پر ٹرک چڑھانے کے واقعات سامنے آ چکے ہیں، جبکہ چاقو مار گروپ بھی اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔۔۔یورپی باشندوں کی قابل ذکر تعداد ترکی کے راستے داعش کے ساتھ جا ملی تھی۔۔۔اب مگر کیا ہو گا؟؟ وہ لوگ جو شام میں  داعش سے جا ملے تھے واپس آ رہے ہیں،یا داعش سے خاص اہداف لے کر آ رہے ہیں، وہ خاموش نہیں بیٹھیں گے۔۔
وہ مسلمانوں کی مظلومیت کا رونا روئیں گے۔ تازہ ہتھیار ان کے پاس روہنگیا مسلمانوں کی بے بسی ہے۔وہ میانمار یا بنگلہ دیش جانے کے بجائے لندن اور یورپ میں خونریزی کریں گے۔اس سے جو تکلیف ہو گی وہ عام یورپی مسلمان کو ہوگی، خواہ ان کا تعلق پاکستان سے ہو، یادنیا کے کسی اور ملک یاخطے سے۔کیا نام نہاد جہادیوں کے پالیسی سازوں نے سوچا کہ اگر، یورپ میں روزگار کے لیے جانے والوں کو یورپی ممالک واپس اپنے اپنے ملکوں میں بھیج دیں تو مسلم ممالک کے سماج کی ہیئت اور ترقی کا زاویہ کیا ہو گا؟ایک ڈرائونی تصویر کے سوا کچھ بھی نہیں ابھرتا۔مسلمانوں کی غالب تعداد امن پسند اور صلح جو ہے،مگر اس وقت دنیا میں مسلمان کی جو پہچان کرائی جا رہی ہے وہ متشدد شخص اور دہشت گرد کی ہے۔مسلمانوں کے ساتھ یہ ظلم کرنے میں امریکہ و یورپ کے بجائے خود مسلمانوں کے کم فکر حکمرانوں اور فتویٰ گر علما کا کردار زیادہ ہے، جن کی کج فکری کے باعث مسلمان ترقی کرنے کے بجائے نفسیاتی و سماجی مسائل میں الجھ کر رہ گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

حیرت انگیز طور پہ اب تو پڑھے لکھے مسلم نوجوانوں کی ہمدردیاں  مرحوم اسامہ اور داعش کے ساتھ ہوتی جا رہی ہیں۔یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ،غیر مسلم کمیونٹی کے ساتھ مل کر متشدد اور دہشت گرد ،رویوں کے حامل افراد سے بیزاری کا ظہار کریں۔ اب وہاں مسجدوں کے لیے چندہ لینے کے بجائے ایسے سیمینارز کے انعقاد کے لیے اقدامات کیے جائیں جو بین المذاہب مکالمے کو فروغ دیں تا کہ دنیا عام مسلمان اور دہشت گرد میں فرق کر سکے۔ بلاشبہ یورپ و امریکہ میں بسنے والے عام مسلمان خوفزدہ ہیں۔ ان بچاروں کی نفسیاتی الجھنیں بڑھانے میں مسلمانوں کا ہی ہاتھ ہے۔اب تک کی اطلاعات ہیں کہ لندن میں زیر زمین میٹرو اسٹیشن میں دھماکے کے نتیجے میں 29 افراد جھلس کر زخمی ہوگئے۔داعش کے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ امریکہ میں نائن الیون کی ذمہ داری القاعدہ نے قبول کی تھی،اس کے بعد دنیا کا منظر نامہ تبدیل ہو گیا۔اب مشرق ِ وسطیٰ کے ساتھ ساتھ یورپ و لندن داعش کے نشانے پر ہے۔کیا اس فتنے سے دنیا کے نقشے پر سرخ رنگ نہیں ابھرے گا؟ ضرور ابھرے گا۔

 

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply