• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بجلی کے پری پیڈ میٹرز اور قیمتوں میں شدید اضافہ کا حکومتی منصوبہ۔۔ غیور ترمذی

بجلی کے پری پیڈ میٹرز اور قیمتوں میں شدید اضافہ کا حکومتی منصوبہ۔۔ غیور ترمذی

مشتری ہوشیار باش ۔ عامۃ الناس کو خبر ہو کہ اس تحریر کے ساتھ دکھائی دینے والے میٹرز وہ ہیں جنہیں بجلی کے پری پیڈ میٹرز کہا جاتا ہے، یعنی ان میٹرز میں موبائل کے پری پیڈ پیکیجز کی طرح جتنے پیسے ڈالیں گے، بس اتنی ہی بجلی استعمال کریں گے- ابھی آپ نے مگر گبھرانا نہیں ہے کیونکہ ان میٹرز کی ملک بھر میں بہت جلد تنصیب شروع ہونے کے ساتھ ساتھ اہم ترین نقطہ یہ ہے کہ ان پری پیڈ میٹرز کے ذریعہ ملنے والی بجلی کے نرخ وہ ہوں گے جن کی ہدایت آئی ایم ایف کرے گی- یعنی پہلے 300 یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو ملنے والی حکومتی سب سڈی بھی بند اور سب صارفین 24/25 روپے فی یونٹ کم از کم کی ایک ہی لاٹھی سے ہانکیں جائیں گے- ایک اور جھٹکے والی خبر یہ بھی ہے کہ واپڈا گرڈ سٹیشن سے صارفین کے گھر تک پہنچنے والی بجلی میں گھٹیا کوالٹی کی ٹرانسمیشن لائنز سے ہونے والے نقصانات کی ویلیو بھی صارفین کو بھرنی پڑے گی- ٹرانسمیشن لائنز سے ہونے والے   ان لائن لاسز کی ویلیو 1٪ سے 2٪ نہیں بلکہ کئی جگہ 12٪ سے 14٪ اور بعض مقامات میں تو 35٪ سے 40٪ تک بھی ہو چکی ہے-

واپڈا کی انرجی ڈسٹری بیوشن کمپنیز نے مخصوص سرکاری دفاتر اورمقامی ادارہ جات میں پری پیڈ بجلی کے میٹر کے تجرباتی پروجیکٹ کی کامیابی کے بعد تمام ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو پری پیڈ بجلی کے میٹر نصب کرنے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔ اگلے مرحلہ میں تمام سرکاری دفاتر میں پری پیڈ میٹرز نصب کرنے اور دیگر تمام صارفین کے یہاں میٹر ریڈنگ اور بل کولیکشن کا کام آؤٹ سورس کرنے کے عمل کو ترجیحی بنیادوں پر انجام دیا جائے گا- پری پیڈ میٹرز میں ایڈوانس پیمنٹ کرتے وقت جو پیسے جمع کروائے جائیں گے ان میں کئی ٹیکسز، لائن لاسز، فیول سرچارجز اور ایڈیشنل فیول سرچارجز کے پیسے کاٹ کر باقی ماندہ پیسوں کا کریڈٹ میٹر میں کر دیا جائے گا- یعنی جیسے موبائل لوڈ کرواتے وقت 100 روپے جمع کروائیں تو مختلف موبائل کمپنیوں کی جانب سے  76 روپے تک کا لوڈ دیا جاتا ہے، ٹھیک اسی طرح بجلی کے پری پیڈ میٹروں میں پیسے جمع کرواتے وقت بھی کئی طرح کے   لوڈ میں 24٪ سے 25٪ تک کی کٹوتی کی جائے گی-

پری پیڈ میٹرز کی تنصیب اور صارفین کو کند چھری سے ذبح کرنے کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ گردشی قرضوں میں شدید ترین اضافہ ہے جسے یہ حکومت کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے- جب جنرل مشرف نے سنہ 2008ء میں اقتدار چھوڑا تو گردشی قرضے 500 ارب روپے تک تھے- پیپلز پارٹی حکومت نے جب سنہ 2013ء میں اقتدار چھوڑا تو بھی یہ قرضے 500 ارب روپے ہی تھے- اس کے بعد مسلم لیگ نون نے سنہ 2018ء میں اقتدار چھوڑا تو یہ قرضے 1300 ارب روپے تک بڑھ چکے تھے- پھر تبدیلی سرکار نے اقتدار سنبھالا اور صرف پونے 3 سال کی قلیل مدت میں ہی یہ قرضے 2300 ارب روپے کی حد سے آگے گزر چکے ہیں اور ابھی اس حکومت کے تقریباً سوا 2 سال باقی ہیں- ایک طرف حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ کوئی فضول خرچی نہیں کرتی اور روزانہ کروڑوں، اربوں روپے کی بچت کرتی ہے تو دوسری طرف ہر جگہ سے قرضوں پر قرضے لئے جا رہی ہے- یہ قرضے آخر جا کہاں رہے ہیں، اس کی کسی کو خبر نہیں ہے-

ویسے تو برسراقتدار مہاشوں نے کبھی پہلے بھی کسی ماہر کی نہیں سنی اور اپنی ہی ہانکی مگر پھر بھی اپنا فرض ادا کرتے ہوئے عرض ہے کہ گردشی قرضوں میں کمی اور صارفین کو مہنگی ترین بجلی فروخت کر کے پیسہ اکٹھا کرنے کی بجائے متبادل طریقوں پر غور کیا جائے تو وہ زیادہ بہتر بھی ہو گا اور اس سے عامۃ الناس کو بھی سکون حاصل ہو گا- پاور سیکٹر میں ٹریڈ یونین پر پابندی عائد کرنے، نجی شعبے کو بل کو لیکشن کا کام دینے، غیر مؤثر پاور پلانٹس کو مستقل بند کرنے اور نان الیکٹرسٹی ٹیکسیشن کا بوجھ صارفین پر ختم کرنے سے بھی واضح بہتری لائی جا سکتی ہے- یاد رہے کہ گردشی قرضوں میں ایک سال پہلے تک 325؍ ارب روپے وہ بھی شامل ہیں جو پاور کمپنیوں کی نا اہلی کی وجہ سے تھے۔ انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ان کمپنیوں کی نااہلی کی سزا عام صارفین کو دینا سخت ظلم اور نا انصافی ہے جو خود کو انصافی کہنے والی حکومت کو زیب نہیں دیتا- خیبر پختونخوا ، پنجاب اور آزاد کشمیر میں ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کو طویل مدتی بنیادوں پر فروغ دیا جائے اور نقصان کرنے والی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نجکاری کر دی جائے-

تحریک انصاف حکومت کو چاہیے کہ سرکاری شعبہ کے پاور پلانٹس کا سالانہ 40؍ ارب روپے کا منافع اور ریٹرن کمپوننٹ (Return Component) اور صارفین سے جمع کیا جانے والا 35؍ ارب روپے کا خالص ہائیڈل (پانی سے بننے والی بجلی) منافع جو صوبوں کو دیا جاتا ہے، ان سب کو بجٹ میں منتقل کرے اور غیر فعال جنریشن پلانٹس کو فوراً بند کرے- ماہرین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کی مدد سے اچھی خاصی رقم بچائی جا سکتی ہے۔ نیلم جہلم سرچارج کے نام پر صارفین سے ہر سال 10؍ ارب روپے جمع کیے جاتے ہیں، اس سرچارج کو ختم کیا جائے۔ نان الیکٹرسٹی ٹیکسیشن کے 250؍ ارب روپے ہوتے ہیں جن میں سے 175؍ ارب روپے گردشی قرضوں میں چلے جاتے ہیں، اسے بھی ختم کیا جائے۔ان اقدامات کے نتیجے میں 100؍ ارب روپے سے بجلی کا فی یونٹ 2.72؍ روپے بغیر ٹیکس حاصل کیا جا سکتا ہے اور 3.43؍ روپے فی یونٹ ٹیکسز کے ساتھ، جس سے گھریلو صارفین کو 300؍ یونٹ دیے جا سکتے ہیں- صنعتوں کے لئے یہ اسکیم 3.87؍ روپے فی یونٹ بغیر ٹیکس اور 4.87؍ فی یونٹ ٹیکس کے ساتھ لائی جا سکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مزید اہم ترین اقدامات کرتے ہوئے حکومت فوری طور پر پاور سیکٹر میں لیبر یونینز پر پابندی عائد کرے، ڈسٹری بیوشن کمپنیوں سے اور انہیں کی جانے والی ادائیگیوں کا نظام بہتر بنائے اور اس شعبے میں درآمد شدہ ایندھن کی مدد سے بجلی کی پیداوار پر پابندی عائد کرے- اس کمی کو پورا کرنے کے لئے متبادل ذرائع مثلاً سولر انرجی سسٹم، ونڈ انرجی سسٹم، اور بائیو ڈیزل وغیرہ سے بجلی پیدا کرنے کی پالیسی پر عمل درآمد تیز تر کیا جائے- سولر انرجی سسٹم اور ونڈ انرجی سسٹم میں نیٹ میٹرنگ لگوانے کے سسٹم کو آسان کیا جائے اور اس واپڈا و کے الیکٹرک وغیرہ کو سختی سے ہدایت کی جائے کہ جو صارفین نیٹ میٹرنگ لگوانا چاہتے ہیں، انہیں ون ونڈو آپریشن مہیا کیا جائے- اس عمل کے دوران واپڈا اور کے الیکٹرک کے ملازمین کی رشوت ستانی بند کی جائے- سولر انرجی سسٹم اور ونڈ انرجی سسٹم لگوانے والے صارفین کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اور انہیں واپڈا ملازمین کی جانب سے  تنگ کرنے کا سلسلہ بند کیا جانا چاہیے- متبادل انرجی سسٹم کو بھرپور تقویت دئیے بغیر مہنگی بجلی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply