• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • خطہ عرب میں جاری امریکی و اسرائیلی کھیل کا پس منظر اور متوقع نتائج ۔۔ بلال شوکت آزاد

خطہ عرب میں جاری امریکی و اسرائیلی کھیل کا پس منظر اور متوقع نتائج ۔۔ بلال شوکت آزاد

یوں تو مسلمان ایک عرصہ ہوا کسی مسئلے کے حل کے لیے باہم سنجیدہ اور متحد ہوئے ہوں لیکن حالیہ کچھ سالوں سے مسلمانوں کی ترجیحات اور پالیسیاں ان کے آپس میں مختلف ہونے اور ذاتی مفادات پر سخت پہریداری کی صاف چغلی کھاتی ہیں۔

کیا مشرق وسطی کے طاقتور عرب ممالک ہوں, کیا وسط ایشیاء کی مسلمان ریاستیں ہوں اور کیا جنوبی ایشیاء کی مخلوط مسلمان ریاستیں ۔۔غرض دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود مسلمان ملک اور اسکی عوام کی ترجیحات ہر دوسرے اسلامی ملک سے متصادم اور مخالف ہیں۔

لیکن دنیا کو چونکہ نیو ورلڈ آرڈر, گریٹ گیم اور حتمی جنگوں کا سٹیج بنانے کی کوششیں طاغوت کی جانب سے جاری ہیں تو ایسے میں امت مسلمہ کو باہم متحد اور متفق ہوکر ایک ہی مسلم امہ بلاک بنانے پر ناصرف غور و فکر کرنے کی اشد ضرورت ہے بلکہ تمام مسلم بلاکس کو توڑ کر ایک ہی مسلم امہ بلاک کو فعل اور متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔

لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایسا ہونہیں رہا بلکہ اس کے بالکل متضاد مسلمان ممالک الگ الگ بلاکس کی تشکیل اور ذاتی ریاستی مفادات کے تحفظ میں اپنی تمام تر توانائیاں اور وسائل خرچ کررہے ہیں۔

میں آپ تک اس بابت جو بھی خبر اور تجزیہ لاتا اور لارہا ہوں الحمدللہ اس کی مکمل چھان بین اور تصدیق کی جاتی ہے تاکہ مسلمان ممالک کے آپسی سیاسی و سفارتی تعلقات پر ہماری وجہ سے بُرا اثر قطعی نہ پڑے بلکہ اگر کوئی ہمارے باخبر کرنے اور تجزیات کو سن سمجھ کر کسی طرح مثبت کردار ادا کرنے کی سعی کرسکتا ہے تو ضرور کرے۔

حالیہ کچھ عرصے سے بین الاقوامی میڈیا اور مشرق وسطی کے فعل میڈیا پر جو خبریں اور چہ مگوئیاں تواتر سے زیر بحث ہیں ان میں عرب ریاستوں اور اسرائیل کے مابین پس پردہ تعلقات اور تعاون کے علاوہ الاعلان سفارتی تعلقات کے قیام کے حوالے سے خبریں سرفہرست ہیں۔

سلطنت عثمانیہ کے سقوط کے بعد اسرائیل کا قیام وہ بھی عین ان عرب ریاستوں کے سر پر واضح طور پر ایک لٹکتی تلوار اور مستقل خطرناک سازش تھی یہ بات اب جوں جوں حالات و واقعات تیزی سے بدل رہے ہیں بالکل واضح ہوتی جارہی ہے۔

اسرائیل کے سامنے جن جن عرب مسلمان ریاستوں نے پیار سے گھٹنے نہیں ٹیکے ان کی ہستی کا بیڑا غرق کردیا گیا اور جن جن عرب مسلمان ریاستوں میں لچک نظر آئی یا آرہی ہے ان کو امریکہ اور برطانیہ کی مدد سے اپنی مرضی کے میدان پر لایا جارہا ہے۔

گزشتہ سال اکتوبر سے اب تک ہم دیکھ رہے ہیں اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس سے سفارتی تعلقات قائم کرنے میں جو بسم اللہ عمان سے ہوئی تھی وہ اب تک جاری و ساری ہے اور اس میں شدت اس وقت دیکھنے کو ملی جب عرب امارات نے الاعلان اور سامنے سے بڑھ چڑھ کر اسرائیل سے ہاتھ ملایا اور عرب ریاستوں کا اسرائیل کے سامنے کمزور ہونے اور بیٹھ جانے کا باقاعدہ عندیہ دیا۔

اس کے فوراً بعد امریکہ اور دیگر مغربی ذرائع ابلاغ سے یہ چہ مگوئیاں تواتر سے زیر بحث رہیں کہ اگلا کون؟

کچھ نے برملا اور واضح طور پر سعودیہ عرب کا نام لے لے کر آسمان سرپر اٹھایا کہ یقیناً اگلی عرب ریاست جو اسرائیل کو تسلیم کرے گی اور باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کرے گی وہ سعودیہ عرب ہے اور یہی نہیں بلکہ سعودیہ عرب کا نام خود سابقہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی لیا کہ میری خواہش ہے کہ سعودیہ عرب بھی عرب امارات کی طرح اعلی ظرفی اور وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کرے اور سفارتی و تجارتی تعلقات کی داغ بیل ڈالے۔

لیکن ٹھہریئے۔ ۔ ۔

کیا یہ سب گزشتہ سال شروع ہوا ہے؟

نہیں نہیں, بالکل نہیں۔ ۔ ۔ بلکہ ان سب کا سلسلہ تو دیدہ و نادیدہ طور پر ایک لمبے عرصے سے جاری و ساری ہے لیکن اس بابت باقاعدہ بات چیت سن 2017 میں منظر پر آئی۔

“New allies: Israel and Saudi Arabia?” (7 Nov 2017, The Jerusalem Post).

“The Israeli-Saudi alliance beating the drum of war?” (7 Nov 2017, Middle East Eye).

“Are we entering a new stage of the Saudi-Israeli Relationship?” (7 Nov 2017, The Algemeiner).

“سنی عرب ریاستوں اور اسرائیل کو ایک جیسے مسائل اور تحفظات کا سامنا ہے خطے میں ایرانی جوہری تنصیبات سے اور ایران کی بڑھتی ہوئی جنگی طاقت سے :سابق وزیر دفاع موشے یالون، اسرائیل” (دی یروشلم پوسٹ، 7 نومبر 2017)

اوپر درج سب جلی حروف پر مبنی مشرق وسطیٰ کے نامور اخباروں کی سرخیاں ہیں جو مورخہ 7 نومبر 2017 کو شائع ہی نہیں ہوئی بلکہ عرب دنیا میں بہت زیادہ وائرل بھی ہوئیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ سب آخر ایک ایسے وقت میں کیوں شروع کیا گیا جب عالم اسلام بالخصوص عرب دنیا متنزل سیاسی حالات کا شکار ہے اور امریکی اثرو رسوخ کی لپیٹ میں بری طرح پھنس رہی بلکہ پھنس چکی ہے؟

سعودی عرب کی ہی بات کریں تو گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے دنیا کو کافی کچھ دیکھنے اور سننے کو مل رہا ہے جیسے شاہی خاندان کے مقتدر افراد بشمول شہزادہ ولید بن طلال کو کرپشن چارجز کی بدولت حراست میں لینا اور دو شہزادوں کی دو الگ الگ حادثات میں موت کی خبر۔

دوسری طرف سعودی شاہ سلمان بن عبد العزیز کے صاحبزادے، ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان کے ہنگامی نوعیت کے فیصلے اور ان کا ستمبر 2017 میں مبینہ خفیہ دورہ اسرائیل (میمو یعنی مڈل ایسٹ مانیٹر کی 21 اکتوبر 2017 کی خبر کے مطابق) کافی بحث و مباحثے کی وجہ بنا ہوا ہے۔

پھر عرب دنیا میں ایک اور اہم تبدیلی لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری کا سعودی عرب میں پناہ لے کر استعفیٰ دینا بھی ہے۔ ان سب باتوں کا تجزیہ کیا جائے تو کروٹ لیتی دشمنیوں اور دوستیوں کی بساط پر بہت ہی سنگین حالات نظر آتے ہیں۔

اس کہانی کا باقاعدہ آغاز تب ہوا جب اس سال ریاض میں منعقدہ مسلم سربراہی کانفرنس میں نئے نامزد امریکی صدر جناب ڈونلڈ ٹرمپ بطور مہمان خصوصی شامل ہوئے اور نہ صرف محفل بلکہ عربوں کی حمیّت اور غیرت بمع بھاری منافع بھی لوٹ گئے۔ یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کا یہ پہلا اہم سرکاری اور غیر ملکی دورہ بھی تھا بطور صدر امریکہ اور یہاں سے بیک ٹو بیک دوسرا اہم سرکاری دورہ اسرائیل کا کیا تھا اور یوں جناب نے اور تاریخ رقم کی تھی قیام اسرائیل کے بعد پہلی بار ریاض-تل ابیب فضائی پٹی استعمال کرکے۔

اسی سفر کو جواز بناکر تب اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا بیان کافی قابل غور ہے۔

“مجھے امید ہے کہ ایک دن ایسا بھی ممکن ہوگا کہ اسرائیلی وزیراعظم تل ابیب سے ریاض پرواز کرکے جاسکے گا۔” (الجزیرہ, مئی 2017)

کیا یہ سب بیانات اور خبریں محض باتیں اور پروپیگنڈا ہی ہیں؟

کیا اسرائیل کے ایسے بیانات اور خواہشات صرف دیوانے کی بڑ ہیں یا واقعی حالات اتنی تیزی سے وقوع پذیر ہورہے ہیں؟

اسرائیلی اور غیر جانبدار عالمی میڈیا پر زور شور اور تواتر سے سعودیہ-اسرائیل و دیگر عرب ریاستوں سے معاشی اور اقتصادی اتحاد کی خبریں کیوں پھیلائی جارہی ہے؟

سعودی میڈیا اور سرکاری اطلاعات و نشریات سے تب سے اب تک ان متضاد اور ناخوشگوار خبروں کی کوئی باقاعدہ تردید یا تصدیق شائع نہیں ہوسکی کہ آیا واقعی شہزادہ محمد بن سلمان نے کوئی خفیہ اسرائیلی دورہ ستمبر 2017 میں کیا ہے کہ نہیں؟

جبکہ دوسری جانب اسرائیلی اور غیر جانبدار عرب میڈیا اس خبر کو جواز بناکر بار بار یہ بات اچھال رہا ہے کہ سعودیہ-اسرائیل اتحاد ایران کی جوہری طاقت کے حصول اور شام کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر بننے جارہا ہے، جس کو اولاً اقتصادی اور معاشی اتحاد کے طور پر شروع کیا جائے گا۔

اسرائیل اس اتحاد کو قائم کرنے میں شدید دلچسپی رکھتا ہے تو قرین قیاس اور زمینی حقائق کی روشنی میں جو نظر آرہا ہے کہ سعودیہ عرب بھی اس مبینہ و ممکنہ تعلق سے انکاری نظر نہیں آتا۔

لیکن راقم کی اصل پریشانی، پاکستانی معتدل عوام کی طرح، یہ ہے کہ اگر واقع کوئی ایسا اتحاد بنا تو پاکستان کا مقام خطہ عرب میں کیا ہوگا؟

تب جب پاکستان کی دو ڈویژن ایکٹو فورس بھی وہاں موجود ہے اور عالم اسلام کے مایہ ناز جرنیل راحیل شریف جو کہ عالم اسلام کی متحدہ افواج کے سربراہ بھی ہیں اور پاکستان کے غیر سرکاری نمائندہ بھی۔

مزے کی بات یہ ہے کہ مؤقر افراد جو شہزادہ محمد بن سلمان کے اردگرد ہیں، یہ مانتے اور کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ راحیل شریف صاحب کا اثرو رسوخ کسی بھی عربی شاہی فرد کی بانسبت بطور عجمی شہزادہ محمد اور شاہ سلمان پر بہت زیادہ ہے۔

اگر ہم دھویں کا پیچھا کریں تو جو آگ لگی اور پھیل رہی ہے، خطہ عرب سے نکل کر عالم اسلام اور اقوام عالم میں وہ یہی ثابت کرتی ہے کہ واقعی سعودیہ-اسرائیل اتحاد عنقریب اپنے جوبن پر آنے والا ہے اندھیرے کی چادر پھاڑ کر۔

چلیں ہم تھوڑی دیر کو مان لیتے ہیں کہ سعودیہ-اسرائیل اتحاد محض تجارتی اور اقتصادی افعال کو منظم اور اہم بنانے کی نیّت سے ہورہا ہے تو اس اتحاد پر فلسطین کا مسئلہ کیا اثرات مرتب کرےگا؟

آیا عربوں کے لیے اب مسئلہ فلسطین واقعی کوئی اہمیت رکھتا ہے یا اب اس کا بھی وہی حال ہوگا جو مسئلہ کشمیر کا پاکستان نے کیا ہے؟

جیسےپاک بھارت تجارتی تعلقات اور ہمارے حکمرانوں کے ذاتی تعلقات نے مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈالا ہے کیا اب اس متوقع اتحاد سے فلسطین کا مسئلہ بھی پس پشت چلا جائے گا؟

سیانے کہتے ہیں دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں آگ لگی ہو۔

اگر اس بزرگانہ اصول کو تسلیم کرکے ہم موجودہ عرب اور اسرائیلی میڈیا کی ایسی خبروں کواہمیت دیں جو سعودیہ عرب اسرائیل اتحاد پر مبنی ہیں تو وہ قطعی جھوٹ یا پروپیگنڈا نہیں لگتیں۔

چلیں ذرا ریاض کانفرنس مئی دوہزار سترہ کا جائزہ لیتے ہیں اور اس بات کو مزید بہتر طریقے سے سمجھتے ہیں کہ یہ جو عرب اسرائیل اتحاد کی خبریں پھیلی یا پھیلائی جارہی ہیں مسلسل تین چار سال سے ان کی اصل وجہ کیا ہے؟

ریاض میں ہونے والے اجلاس کے بہانے عرب-امریکا تعلقات میں جو گرمجوشی دیکھنے کو ملی، وہ سخت بے چین کرنے والی تھی۔

مجھ جیسے صحافت کے طالب علم اس وجہ سے خاصے تذبذب کا شکار تھے کہ ریاض اجلاس 2017 میں عربوں نے پاکستان، یا دوسرے لفظوں میں عجم، کو کیوں بری طرح نظر انداز کیا؟

لیکن اس عمل میں اللہ کی جانب سے جو حکمت و مصلحت پوشیدہ تھی، اس سے اب سمجھ آ گئی ہے کہ ذات باری تعالیٰ نے پاکستان کو ایک بہت بڑی آزمائش اور فتنے سے فی الوقت محفوظ کرلیا تھا۔

لیکن مستقبل قریب میں خطرہ اب بھی موجود ہے جس کے تدارک کے لیے پاکستانی عوام، فوج اور حکومت کو ایک صفحے پر آنا ہوگا۔

گزشتہ دو دہائیوں سے ایران اور ایران نواز پڑوسی ریاستوں کے مقابلے میں سعودی عرب کا ایک نادیدہ جھکاؤ اسرائیل کی جانب رہا ہے۔ (مادوی الرشید کے مڈل ایسٹ آئی میں شائع شدہ اکتوبر 2020 کے بلاگ سے ماخوذ)

یہ بات اس ریاض اجلاس میں امریکی مداخلت اور پھر امریکی شہ پر اٹھائے گئے اقدامات سے کھل کر سامنے آچکی ہے۔

امریکی صدر کی ریاض اجلاس میں پرجوش شرکت، جو ان کا پہلا بین الاقوامی دورہ تھا، اور اس کے بعد ریاض سے تل ابیب روانگی کے لیے پہلی بار سعودی فضائی حدود استعمال محض اتفاق نہیں۔

پھر اسرائیلی زعماء اور وزیراعظم تک کے عرب بالخصوص سعودی عرب کے حوالے سے نرم اور مثبت بیانات عقل مندوں کے لیے واضح اشارہ ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کے دل میں دبی ایک خواہش یوں زبان پر آئی کہ “مجھے امید ہے کہ ایک دن اسرائیلی وزیراعظم تل ابیب سے ریاض پرواز کر کے جا سکے گا۔ “یعنی جب عرب ممالک ریاض کانفرنس 2017 میں قطر کے زمینی و فضائی راستے بند کرنے کی باتیں کر رہے تھے تو یہ مسلمان و انسانیت دشمن اسرائیلی وزیرآعظم ریاض اور تل ابیب کے درمیان امن و دوستی کی شمعیں روشن کر رہا تھا۔

سعودی عرب کی شہ پر مصر، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے قطر کا مشترکہ بائیکاٹ کیا تھا جبکہ ایران کی قطر کو مکمل مدد اور حمایت نے خطے میں بڑھتے انتشار و خلفشار کی منظر کشی کی۔

یہاں ایک بات واضح ہوچکی تھی کہ سعودی عرب نے امت واحدہ کا نظریہ رد کر کے نسلی و مسلکی نظریے کو پروان چڑھانے کی خاطر دشمن کے دشمن کو دوست سمجھ اور مان لیا ہے, خاص کر جب امریکا کی مکمل پردہ درپردہ حمایت میں بھی کوئی شک نہیں رہ گیا۔ (ٹرمپ کی طرح بائیڈن نے مشرق وسطی میں سابقہ پالیسی کو جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے)۔

اس خیال کو تب مزید تقویت پہنچی جب اسرائیل کے مقبوضہ عرب علاقوں میں سالگرہ نما جشن کے موقع پر سابق اسرائیلی وزیر دفاع اور معروف سیاست دان موشے یالون نے کہا کہ

” قطر کے علاوہ زیادہ تر عرب ریاستیں اور ہم ایک ہی کشتی کے سوار ہیں کیونکہ ہم سب ایٹمی ایران کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ ”

اور اسی طرح عرب ممالک کی جانب سے قطر کے مقاطعے پر اسرائیلی وزیر دفاع لائبرمین کا تبصرہ تھا کہ

“یہ بحران اسرائیل اور “چند” عرب ریاستوں کے درمیان تعاون کے مواقع لے کر آیا ہے ”

جبکہ اسرائیل کے ڈپٹی منسٹر برائے سفارتکاری مائیکل اورین نے اپنے ٹویٹر پیغام میں دعویٰ کیا کہ

“مشرقِ وسطیٰ کی ریت پر نئی لکیر کھنچ گئی ہے۔ ”

یہ اسرائیلی زعماء کے بیانات مختصر مگر جامع تبصروں اور مقاصد کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اگر کوئی سمجھنا چاہے۔

اور عربوں کی پراسرار خاموشی کے ساتھ ساتھ امریکی مداخلت اس پر مہر ثبت کررہی ہے کہ ایران کے خلاف بہت جلد عرب اسرائیل اتحاد قائم ہونے والا ہے۔ خواہ اس اتحاد کی حدود و قیود مشروط ہی کیوں نہ ہوں، خواہ وہ اتحاد پوشیدہ سفارتی ذرائع پر ہی کیوں مشتمل نہ ہو مگر ایسا ہونا ممکن ہے اور اب ہم دیکھ رہے ہیں بحرین, عمان اور عرب امارات نے باقاعدہ سفارتی تعلقات کا آغاز کرکے ماضی کے خدشات کو حقیقت کا روپ دے دیا ہے۔

سعودی گزٹ و دیگر “غیر جانبدار” ذرائع ابلاغ اور حکومتی ترجمان و اہل کار جو اسلامی سمٹ اور امریکی دوستی کی تجدید سے پہلے کسی بھی اسرائیلی بیان پر کچھ نہ کچھ ڈھکے چھپے انداز میں تردید یا تنقید کردیا کرتے تھے، تب سے بالکل خاموش ہیں, جس کا مطلب ہے کہ دال میں کالا نہیں بلکہ پوری دال کالی ہے۔

سعودی عرب نے قطر سے بائیکاٹ کے لیے جو الزامات عائد کیے تھے وہ بھی سراسر خطے میں براہ راست اسرائیلی و امریکی مفادات کے تحفظ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جیسے اخوان المسلمین اور حماس جیسی اسرائیل مخالف تنظیموں کی پشت پناہی کی آڑ میں دہشت گردوں کی عملاً معاونت پر الزامات کی فہرست میں سعودی اعتراض سب سے اوپر تھا۔

ٹرمپ کے سعودی دورہ خاص سے تل ابیب پرواز کے بعد امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل کی وہ رپورٹ جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ

سعودی عرب سمیت بحرین، مصراورعرب امارات کے سربراہان نے ایک مشترکہ تجاویز پر مشتمل لائحہ عمل ٹرمپ کے ساتھ طے کیا ہے جس میں وہ یعنی عرب ریاستیں اسرائیل کو مشروط سفارتی تعلقات کے ساتھ قبول کرنے کو تیار ہیں۔”

یہ ساری باتیں اس بات کو تقویت دیتی ہیں کہ “کہیں پہ نگاہیں، کہیں پر نشانہ” کے مصداق قطر بائیکاٹ کی آڑ میں سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستیں اسرائیلی اور امریکی خوشنودی و مدد حاصل کر کے ایران کے خلاف مبینہ حتمی جنگ چھیڑنے کے فراق میں ہیں۔

اور بیشک 2017 میں شروع ہوا یہ کھیل ٹرمپ کے الوداعی دنوں میں عروج کی جانب رواں دواں ہے اور یہ بات بھی روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ریاض کانفرنس میں عرب ریاستوں کے زعماء نے ٹرمپ یعنی امریکہ سے جو وعدے وعید کیے اور مشاورت کی تھی اس پر من وعن عمل پیرا ہیں۔

یہ سب باتیں اور منصوبے کوئی راتوں رات تیار نہیں ہوئے بلکہ یمن-سعودی تنازع کے آغاز اور بعد میں حوثی باغیوں کی ایرانی و قطری پشت پناہی نے سعودی عرب و دیگر سعودی نواز ریاستوں کو مل بیٹھ کر یہ کرنے پر مجبور کیا۔

چونکہ یمن جنگ میں پاکستان نے سعودی عرب کو فقط ثالثی کردار ادا کرنے کے علاوہ اور سارے معاملات سے ہاتھ کھینچ لیا تھا، تو اسی کا غصہ ریاض اجلاس میں پاکستان کو ہر معاملے میں پیچھے رکھ کر اتارا گیا اور آج تک مختلف حیلے بہانوں سے سعودیہ پاکستان کو سفارتی اور نظریاتی سرپرائز دے رہا ہے جبکہ دوسری بڑی وجہ پاکستان کو سعودیہ-اسرائیل مبینہ تعلقات کی بھنک سے دور رکھنے یہ ہے کہ پاکستان کی اس پر متوقع شدید مخالفت ہو سکتی تھی جو عرب-اسرائیل اتحاد کو بھانپ کر پاکستان نے کرنی تھی۔

البتہ خطے میں عرب خارجہ پالیسی کا یہ ‘یوٹرن’ بہت ہی خطرناک نتائج لے کر آئے گا۔ ہمیں اس انارکی اور انتشار کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے جس کی بدولت پہلے مصر، لیبیا، شام، اور عراق کی عوام اور حکومت کو غیر مستحکم کر کے امریکی اجارہ داری قائم کی گئی ہے اور اب وہ صرف کٹھ پتلی کا کردار ادا کرہے ہیں۔

امریکا اور اسرائیل کے نزدیک اصل نشانہ ایران نہیں بلکہ سعودی عرب اور حجاز مقدس ہے، مگر وہ دونوں اپنی نگاہیں ایران کی طرف دکھا کر سعودی عرب کو لپیٹے میں لے رہے ہیں تاکہ وہ ان کے اصل مقاصد تک رسائی حاصل نہ کرسکے اور یہ خاموشی سے “گریٹر اسرائیل” کا اپنا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کی طرف بڑھ سکیں۔ جب سعودی عرب کا وجود نہیں ہوگا تب ایران اور پاکستان کو جنگ میں کھینچنا ذرا مشکل یا ناممکن نہیں ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ تمام عرب ریاستوں بشمول سعودی عرب کو ہوش کے ناخن لینے کی توفیق دے اور پاکستان کو ایسی آزمائش سے دور رکھے جو سراسر فتنہ ہے۔ بے شک پاکستان کو مصالحت اور امن کے لیے کوشاں رہنا چاہیے، خواہ اس کی قیمت کچھ بھی چکانی پڑے۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply