ٹرمپ کی ثالثی،شملہ معاہدے کی موت۔طاہر انعام شیخ

امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر کشمیر پر اپنی ثالثی کی پیشکش دہرائی ہے، ان کا کہنا تھا کہ نریندر مودی اور عمران خان دونوں ہی میرے دوست ہیں۔ دونوں ہی زبردست انسان اور اپنے اپنے وطن سے پیار کرتے ہیں، لیکن بھارت علاقے میں اپنی طاقت کے زعم میں مبتلا اور مسلسل غنڈہ گردی کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ وہ گزشتہ 70سال سے مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ماننے سے انکاری ہے، کسی بیرونی ثالثی کو بھی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں اور پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر کا حل صرف شملہ معاہدے کو قرار دیتا ہے اس کا موقف ہے کہ 1972ء میں بھارت اور پاکستان کے درمیان شملہ میں طے پایا تھاکہ مسائل کو دو طرفہ مذاکرات سے حل کیا جائے گا۔ 27سال بعد 1999ء میں لاہور ڈیکلریشن میں بھی اسی اعلان کو دہرایا گیا، لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بھارت نے خود کبھی اس معاہدے پر عمل نہیں کیا اور کبھی بھی مسئلہ کشمیر کے حل میں مخلص نہیں رہا، جب بھی اس پر کبھی دبائو پڑا تو اس نے مزاکرات کا سلسلہ شروع کردیا لیکن مطلب نکلتے ہی کوئی نہ کوئی بہانہ کرکے ان کو منقطع کردیا کیونکہ وہ ایک قابض اور جارح کی حیثیت رکھتا ہے، لہٰذا معاملات کو لٹکانا اور تاخیری حربے اختیار کرنا اس کے مفاد میں تھا۔ 1989ء کے بعد کشمیر میں ایک لاکھ
سے زیادہ کشمیری عوام شہید ہوچکے ہیں کشمیر ایک عقوبت خانے میں بدل چکا ہے، 5اگست کے بعد تو جیلوں میں اتنی گنجائش نہ رہی تھی کہ حراست میں لئے گئے افراد کو مجبوراً دوسرے صوبوں میں منتقل کرنا پڑا۔ شملہ معاہدے کے 50سال گزرنے کے باوجود بھارت نہ تو کشمیر پر مثبت مذاکرات کرتا ہے اور نہ ہی اس پر کسی بین الاقوامی ثالثی کے لئے راضی ہوتا ہے، چند ماہ پیشتر جب مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل میں لایا گیا تو بھارت نے اس پر زبردست اعتراض کیا، امریکہ کے اس خطے میں اپنے تزویراتی مفادات ہیں وہ علاقے میں چین کے واحد طاقت کے طور پر ابھرنے پر خوش نہیں اور سمجھتا ہے کہ اگر بھارت کو بعض شعبوں مثلاً اعلیٰ ٹیکنالوجی اور توانائی کے شعبوں میں مدد دی جائے تو اس میں دنیا کی تیسری بڑی معیشت کے طور پر آگے آنے کی صلاحیت ہے۔ آبادی کے لحاظ سے بھی وہ دنیا کا سب سے بڑا ملک بن سکتا ہے لیکن یہ سب کچھ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ اگر علاقے میں امن برقرار رہے اور پاکستان کے ساتھ اس کے تمام معاملات خوش اسلوبی سے طے پاجائیں، امریکہ یہ بھی خیال کرتا ہے کہ اگر وہ افغان حکومت اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کروا سکتا ہے تو بھارت اور پاکستان کے درمیان بھی یہ ممکن ہے۔ اس نے بھارت کو خوش کرنے کے لئے شروع میں پاکستان پر زبردست دبائو ڈالا۔ فنانشل ایکشن ٹاسک پلان کے تحت پاکستان کو دہشت گرد قرار دیئے جانے کا خوف دلا کر اس سے کئی باتیں منظور کرائیں، حافظ سعید کو گرفتار کرایا، جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دلوانے کے لئے چین کی حمایت بھی حاصل کی۔ 2019ء میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پلوامہ واقعہ کے بعد پاکستان اور بھارت میں کشیدگی کم کرائی اور بھارتی ائرفورس کے پائلٹ کو رہائی دلوانے میں بھی مدد کی۔ بھارت اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کے جواب میں انکار کرچکا ہے لیکن صدر ٹرمپ کی جانب سے بار بار اس پیشکش کو دہرائے جانے کا مطلب یہی ہے کہ یا تو صدر ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ وہ بھارت پر دبائو ڈال کر اسے مذاکرات کی میز پر لاکر معاملات حل کروا سکتے ہیں یا پھر کہ اندرون خانہ بھارت بھی بالآخر 73سالہ اس مسئلے کو کسی نہ کسی منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے رضامند ہے لیکن وہ اس کے لئے پاکستان پر مستقل اور زبردست دبائو برقرار رکھتے ہوئے مذاکرات میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنا چاہتا ہے جوکہ عملی طور پر ناممکن ہوگا، امریکی حکومت بھی اب بھارت کو راہ راست پر لانے کے لئے اس کی کشمیر پر پالیسیوں پر تنقید کررہی ہے۔ امریکہ کی نائب وزیرخارجہ ایلس ویلس نے بھارت پر زور دیا تھا کہ وہ کشمیر میں سیاسی قیدی رہا کرے اور وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ختم کرے۔ بھارت یہ
بات بھی بخوبی سمجھتا ہے کہ اس کے کئی صوبوں میں علیحدگی کی خاصی مضبوط تحریکیں چل رہی ہیں۔ اس وقت چین کے بھارت کے بالمقابل ہونے کی وجہ سے بڑی طاقتیں ان کو ہوا نہیں دے رہی، بصورت دیگر بھارت کئی علاقوں میں تقسیم ہوسکتا ہے کوئی بھی صورتحال ہمیشہ برقرار نہیں رہتی اور آئندہ بیس سے تیس سال میں حالات بالکل بھی بدل سکتے ہیں، چنانچہ یہ خود بھارت کے لئے بہتر ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے معاملات بہر کرنے کے اقدامات کرے، ویسے بھی پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی قوتیں ہیں جن میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کو ختم نہیں کرسکتا، تباہی دونوں کی ہی ہوگی اس لئے معاملات کو حق و انصاف کے اصولوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنا ہی واحد حل ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply