شادی کی عمر کا تعین کون کرے گا۔۔حِرا ایمن

میڈیا پر ایک اٹھارہ سالہ نوبیاہتا جوڑا شہ سرخیوں میں ہے۔ دو لوگوں کی ذاتی زندگی پر تنقید اور تحسین کے ملے جلے ڈونگرے برسائے جا رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے مطابق انہوں نے کم عمری میں شادی کر کے ایک اچھی مثال قیام کی جب کہ کُچھ جہلا قومی بھانڈ پنے سے مجبور ،بچوں کا تمسخر اُڑا رہے ہیں۔

بلاشبہ شادی کسی کا بھی ذاتی فیصلہ ہے اور لوگوں کو کوئی اختیار نہیں کہ کب،کیسے، کس سے شادی کرنی چاہیے پر تبصرے کریں مگر اس چیز کو پورے معاشرے کیلئے مثال قرار دینا کیوں غلط ہے۔ یہ ہم دیکھ لیتے ہیں۔

ایک یہ بات تو ماننی پڑے گی، بچوں کے والدین کا اس میں اہم کردار ہے۔ بالفرض اگر ماں باپ ہی کیدو کا کردار ادا کرتے، کوئی چاچی، پھوپی، تائی، خالہ کہتی کہ نہیں میری بیٹی لیں، دادی روٹھ جاتی تو ایسا کیوں کر ممکن ہوتا؟

لڑکے کے والدین صاحبِ حیثیت نہ  ہوتے اُلٹا انکی توقع ہوتی کہ بیٹا ہمارا پڑھ لکھ کر اچھی نوکری حاصل کرے گا اور پھر ہماری اے ٹی ایم مشین بن جائے گا اور کہیں اٹھائیس، تیس سال میں بہو بھی ہماری پسند کی لائے گا جو گھر کے ساتھ ہمیں سنبھالے گی تو ایسا کیسے ممکن ہوتا۔۔۔

یاد رہے ایلیٹ کلاس پاکستان کا صرف ایک معمولی سا حصہ ہے، جس خاندان سے وہ بچہ ہے ،وہ یہ افورڈ کر سکتے ہیں کہ بیٹے سمیت بہو کو بھی بیرون ملک رکھ کر پڑھا سکیں۔ مڈل کلاس اور غریب طبقے کو یہ مراعات حاصل نہیں۔ اسکی وجوہات بھی دیکھ لیتے ہیں۔ چھوٹی موٹی نوکریاں کرتے مڈل کلاس ماں باپ جیسے تیسے کر کے، اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں پر انویسٹ اس نظر سے کرتے ہیں کہ کل کو اس نے ہمارا سہارا بننا ہے۔ پینشن اتنی نہیں ہوتی کہ بزرگی کے بیمار دن کٹ جائیں۔

سو اُمیدوں کا محور سراسر وہ بچہ ہوتا ہے جو وظیفہ/سیلف فائنانس پر کسی اچھی یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہوتا ہے۔ جب اُسکی نوکری لگتی ہے تو گھر میں وہ سب آنے لگ جاتا ہے جسکے بغیر ساری عمر گزر چکی ہوتی ہے، یوں اس بچے کو نیا گھر ،بڑی گاڑی اور دیگر اشیاء کی ایک لمبی لسٹ پکڑا دی جاتی ہے۔ یہ سب ہوگیا اتنے میں بچہ اٹھائیس کا ہوگیا، اب جی سٹینڈرڈ تو بڑھ گیا ہے، ڈاکٹر سے نیچے تو بہو چاہیے ہی نہیں، بہو ڈاکٹر کیلئے شادی دفتروں کی چھانٹی شروع ہوتی ہے اور کماؤ  بہو کی نوکری ختم کروا کر اس سے اگلی پچھلی سیوا کروائی جاتی ہے۔ ایسے کیس بھی ہیں کہ بہو نوکری کرتی رہے مگر تنخواھ گھر والوں کو دے۔۔

کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی، اب بجائے وہ لڑکا آنے والی نسل کا سوچے اسکو مسلسل اپنا آپ مار کر بڑوں کی خدمت کرنا ہوتی ہے یوں نہ وہ آگے کا رہتا ہے نہ پیچھے کا، اور ذاتی زندگی کہیں ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔۔

جس کیس کو مثال بنا کر کہا جا رہا ہے کہ بچوں کی شادی اٹھارہ سال میں کر دیں آپ اُنکے معاشی حالات بھی تو دیکھیں۔ لڑکے کے والدین اپنی خدمت کیلئے بہو نہیں لائے بلکہ اُن دونوں نے “اپنا” فیوچر ساتھ بنانا ہے۔

وہ خود معاشی طور پر مضبوط ہونگے تو ہی کل اپنے بچوں پر ڈپیند نہیں کریں گے۔۔

اب دو راستے ہیں، پاکستان کے معاشی حالات راتوں رات بدل دیں کہ والدین کو خرچے پانی کیلئے بچوں پر انحصار نہ کرنا پڑے بلکہ بزرگوں کا خرچہ حکومت اٹھائے یا والدین بچوں کو اپنی جاگیر سمجھنا چھوڑ کر انکی جائز خواہشات کو پورا کرنا شروع کر دیں۔

دونوں حل مشکل ہیں۔ میرے خیال میں خوشحال اور خود مختار ماں باپ ہی آنے والی نسل کو آزاد زندگی دے سکتے ہیں۔ اب یہ خود مختاری اٹھارہ سال میں ملتی ہے یا پینتیس سال میں، یہ حالات کے پیشِ نظر ہر طبقے میں مختلف ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

معاشیات اور عمرانی بناوٹ کو سمجھے بغیر کسی بھی فیشن کی تقلید کرنا،معاشرے کو اور کمزور کرے گا۔۔

Facebook Comments

Hira Ayman
بینک کار، نو آموز لکھاری اور شاعرہ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply