مغربی ایشیاء میں امریکہ کا تاریک مستقبل۔۔محمود حکیمی

فارسی میں ایک مشہور کہاوت ہے، جس میں کہا جاتا ہے “کسی پاگل نے کنویں میں ایک پتھر پھینک دیا اور سو عاقل بھی مل کر اسے وہاں سے نہ نکال سکے۔” ہم سب جانتے ہیں کہ یہ کہاوت ایسے موقع پر استعمال کی جاتی ہے، جب ایک شخص کی حماقت بہت زیادہ افراد کے مشکل میں پھنس جانے کا سبب بن جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جمعہ کے روز جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کی ٹارگٹ کلنگ اس کہاوت کا ایک واضح مصداق ہے۔ انہوں نے اس جارحیت اور اس کے نتیجے میں جنرل قاسم سلیمانی، ابو مہدی المہندس اور ان کے دیگر ساتھیوں کو شہید کرکے ایک پل میں پورے خطے کو شدید کشمکش میں مبتلا کر دیا اور ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ فوراً “تیسری عالمی جنگ” کی عبارت سوشل میڈیا پر ٹرینڈ میں تبدیل ہوگئی۔ ویٹرینز ٹوڈے نامی ویب سائٹ پر رابرٹ ڈیوڈ اسٹیل نے اپنے کالم میں اس عبارت کے سامنے سوالیہ نشان لگا کر ایک انتہائی اہم نکتے کی جانب اشارہ کیا ہے۔

رابرٹ ڈیوڈ اسٹیل کے مدنظر نکتہ وہ توجیہات ہیں، جو شہید قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ کیلئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پیش کی گئی تھیں، تاکہ وہ یہ تصور کریں کہ ان کا یہ فوجی آپریشن بھی اسامہ بن لادن کی ٹارگٹ کلنگ پر مبنی آپریشن جیسا ہے۔ رابرٹ ڈیوڈ اسٹیل ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں حسن ظن کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امریکی صدر کو دھوکہ دیا گیا ہے اور انہیں اس حقیقت سے غافل رکھا گیا کہ “عراق کی سرزمین پر جنرل قاسم سلیمانی کا قتل اصل میں آرشیڈوک فرینٹس فرڈیننڈ کے قتل جیسا ہے، جو پہلی عالمی جنگ شروع ہونے کا باعث بنا تھا۔” آرشیڈوک آسٹریا اور ہنگری پر مشتمل سلطنت کے ولی عہد تھے، جنہیں جون 1914ء میں سرایوو کے شہر میں قتل کر دیا گیا اور پہلی عالمی جنگ کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔ یہ نہیں کہا جا سکتا ہے اس موازنے سے رابرٹ ڈیوڈ اسٹیل کا مقصد تیسری عالمی جنگ کا آغاز ہے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ موازنہ ان کا اصل مقصود ہے، تاکہ واضح ہوسکے کہ شہید قاسم سلیمانی کا قتل فرڈیننڈ کے قتل کی طرح عظیم تبدیلیوں کا نقطہ آغاز ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس حقیقت سے غافل رہے کہ ان کا یہ اقدام 1914ء میں فرڈیننڈ کے قتل کی طرح حالات کو ایسا رخ دے دے گا، جن کی واپسی ان کے بس کی بات نہیں ہوگی۔

حالات میں تبدیلی کی پہلی چنگاری ہادی العامری کے بیان سے ہوئی، جو انہوں نے ہفتہ 4 جنوری کے روز بغداد میں شہید قاسم سلیمانی، شہید ابو مہدی المہندس اور ان کے دیگر شہید ساتھیوں کے تشییع جنازے میں دیا تھا۔ انہوں نے اپنے ساتھ شہید ابو مہدی المہندس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا: “ابو مہدی، تمہارا خون بہا عراق سے امریکی فوجیوں کا ہمیشہ کیلئے اخراج اور عراق کی قومی خود مختاری کی بحالی ہے۔” جیسا کہ عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی اور دیگر عہدیداران نے تصدیق کی ہے کہ بغداد میں ان شہداء کی ٹارگٹ کلنگ امریکہ کی جانب سے عراق کی خود مختاری کی کھلی مخالفت تھی اور اسے بلاشک جنگی جرم قرار دیا جا سکتا ہے۔ ہادی العامری نے اپنے اس بیان کے ذریعے عراق کی قومی خود مختاری کی بحالی کی سمت پہلا قدم اٹھایا اور ان کیلئے یہ قدم اٹھانا صرف امریکی صدر کی حماقت اور اس احمقانہ اقدام کے باعث ممکن ہوا۔ دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ نے اس اقدام کے ذریعے مذاکرات نامی عمل کو بنیاد سے ہی نابود کر ڈالا۔

اب اگر بالفرض ڈونلڈ ٹرمپ آئندہ چار سالہ مدت کیلئے دوبارہ امریکی صدر منتخب بھی ہو جائیں، تب بھی وہ ایران سے مذاکرات کی بات نہیں کرسکتے۔ شاید ڈونلڈ ٹرمپ یہ تصور کر رہے ہوں کہ وہ اس جارحانہ اقدام کے ذریعے ایران کو مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کر دیں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اس تصور کے ذریعے بہت بڑی غلطی کا شکار تھے، جس کا نتیجہ ایسے اقدام کی صورت میں ظاہر ہوا، جس نے مذاکرات کے تمام دروازے بند کر دیئے ہیں۔ ایک اور اہم نکتہ خطے میں موجود امریکی فوجیوں اور شہریوں کی سکیورٹی سے مربوط ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بین الاقوامی قوانین کی رو سے ایران کو انتقامی کارروائی کا مکمل حق حاصل ہے۔ اب ایران اپنے اس حق کو کب اور کیسے استعمال کرے گا، کسی کو معلوم نہیں۔ خطے کا ہر حصہ ایران کی انتقامی کارروائی کی زد میں آنے کی صلاحیت رکھتا ہے، لہذا امریکی فوجی یا شہری خطے کے کسی حصے میں بھی خود کو محفوظ تصور نہیں کرسکتے۔ لہذا ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اس احمقانہ اقدام کے نتیجے میں نہ صرف اعلیٰ سطحی امریکی عہدیدار سے لے کر ایک عام شہری تک سب کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے، بلکہ مغربی ایشیاء خطے میں امریکہ کا مستقبل بھی مکمل طور پر تاریک کر دیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply