اردو، ہم اور غلط فہمیاں۔۔آزرمراد

اکثر بڑی زبانوں پر یہ الزام ہوتا ہے کہ وہ جس خطے میں بولی جاتی ہیں یا جہاں پر وہ رائج ہوتی ہیں وہاں وہ اپنے سے چھوٹی علاقائی یا قومی زبانوں کو کھا جاتی ہیں۔ بڑی زبانیں اپنے سے چھوٹی زبانوں پر غالب آ کر ان کا وجود ختم کر دیتی ہیں اور جو چھوٹی زبانیں ہوتی ہیں وہ یا تو بالکل ہی ختم ہو جاتی ہیں یا پھر ان پر بڑی زبانوں کا اثر اس حد تک ہوتا ہے کہ ان چھوٹی زبانوں کی شناخت باقی ہی نہیں رہتی اور وہ اس بڑی زبان میں تبدیل ہو جاتی ہیں یا پھر اپنی شناخت کھو کر ایک مکس زبان بن کر رہ جاتی ہیں۔

اسی لینگویج شفٹ کے ڈر کی وجہ سے اکثر چھوٹی زبانیں بڑی زبانوں سے کنارہ کرنا چاہتی ہیں یا پھر ان کی انفلوئنس سے دور رہنا چاہتی ہیں۔ ہم بلوچوں میں اس لینگوئج شفٹ کے مسئلے پر کافی زیادہ بات کی جاتی ہے اور بلوچی زبان پر اردو کے قائم ہوتے ہوئے تسلط کو لے کر اردو زبان سے ایک غیر ضروری سا رویہ روا رکھا جاتا ہے۔

بلوچی زبان بولنے والے عام لوگوں کو شاید ہی لینگوئج شفٹ کے بارے میں کچھ علم ہو، اس لیے ان کے لیے اردو کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہی ہے، لیکن بلوچ قوم میں موجود ادیب اور دانشوروں کو ایسا لگتا ہے کہ اردو زبان بلوچی زبان کے لیے ایک خطرہ ہے جس سے بلوچی زبان کو بچانے کے لیے اردو زبان کو ترک کرنا لازمی ہے۔

بلوچی زبان کے انٹیلیکچوئل یہ سوچتے ہیں کہ اردو زبان بلوچی زبان کو نگلنا چاہتی ہے اور وہ بلوچی زبان کے وجود کو مٹانے کے لیے ہم پر مسلط کیا گیا ہے۔ یہاں پر سب سے پہلے اس بات کو واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اردو زبان تاریخی اعتبار سے برصغیر کا حصہ رہی ہے اور وہاں کے زیادہ تر حصوں میں بولی جاتی ہے۔

بارہویں صدی میں دہلی میں پھلنے پھولنے والی یہ اردو زبان جو کہ پارسی، عربی اور ترکش زبانوں سے متاثر ہوئی ہے اور جس کی گرامر کی تشکیل بالکل ہندی زبان جیسی ہے ،کبھی بھی کسی خطے کی قومی زبان نہیں رہی ہے ،بلکہ یہ اردو زبان بارہویں صدی سے لے کر آج کے اس اکیسوی صدی میں ہندوستان اور پاکستان میں بولی جاتی ہے اور ہندوستان اور پاکستان میں بسنے والی  کسی بھی قوم سے اس زبان کو کوئی بھی تعلق نہیں ہے بلکہ اگر یہ کہیں تو غلط نہیں ہوگا کہ ہندوستان میں کوئی ایک ایسی قوم نہیں ہے کہ جس کی زبان اردو ہو بلکہ ان دونوں ملکوں میں ہر وہ شخص جو اردو بولتا اور لکھتا ہے وہ کسی اور مادری زبان کا شخص ہوتا ہے۔(یہاں قوم سے مراد انسانوں کا وہ جھنڈ ہے کہ جن کی پہچان میں ایک اہم رکن ان کی زبان ہے ،اس لیے اس قوم کو اٹھارہ اور انیسوی صدی کے لفظِ قوم سے بالکل بھی ایک نہ  کیا جائے۔)

اردو زبان اپنی پیدائش کے بعد جب ہندوستان میں مقبول ہونی شروع ہوئی ،تو اس زبان میں کچھ لوگوں نے ادب تخلیق کرنا شروع کر دیا۔ آج کی اردو زبان کی سب سے بڑی پہچان وہی ادب ہے کہ جو اُس  دور میں تخلیق کیا گیا ہے۔ اردو زبان ادبی لحاظ سے دنیا کی چند اں  بڑی زبانوں میں شمار ہوتی  ہے کہ جن میں لکھنے اور پڑھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

آج کی اردو دنیا میں کسی ملک کی قومی زبان ہونے سے زیادہ اس وجہ سے مشہور ہے کہ اس زبان میں دنیا کے چند بڑے ادبوں میں سے ایک ادب کا جنم ہوا تھا اور یہ زبان چند ان ادبوں میں سے ایک ادب کی زبان ہے۔ اردو ادب کی مقبولیت پوری دنیا میں ہے اور اس زبان میں لکھے گئے ادب کو پڑھنے والوں کی تعداد کسی بھی بڑی  زبان کے ادب کو پڑھنے والوں سے ذرہ برابر بھی کم نہیں ہے۔

یہ زبان جب 1947 کو پاکستان کی قومی زبان بنی ،تو پاکستان میں موجود قوموں کو یہ احساس ہوا کہ اب ان کا وجود خطرے میں ہے۔ پاکستان میں جب اردو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہونی شروع ہوئی تو اس نے پاکستان میں بولی جانے والی دوسری زبانوں کو ایک خوف میں مبتلا کر دیا اور دوسری قومی زبانیں اس خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے محدود ہوتی چلی گئیں اور آج بھی ہیں۔ جب ایک زبان کو سیاسی مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے دوسری زبانوں کا ڈرنا جائز ہوتا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد اردو کے ساتھ سیاست کا رویہ نہایت ہی تحقیر آمیز رہا ہے۔

پاکستان کی پوری تاریخ میں اردو زبان کے بطن سے جنم لینے والے  ادب پر حکومتی طور پر کبھی کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا گیا جو کہ دوسری ادبی زبانوں کے ساتھ کیا جاتا ہے بلکہ ستم یہ ہوا کہ اردو کو دوسری قومی زبانوں کے اوپر مسلط کر کے دوسری قومی زبانوں کو یہ تصور دیا گیا کہ یہ اردو ان کو نگل لے گی۔

اردو کے اس سیاسی ڈر نے دوسری قوموں کو اردو سے دور رکھا اور دوسری قومیں اردو کو اپنے وجود کے لیے خطرہ تصور کرنے لگیں ۔ اس ڈر نے جہاں دوسری قوموں کو متاثر کیا وہیں یہ ڈر اردو ادب کو بھی ایک متاثر کن نقصان پہنچاتا  چلا گیا اور پاکستان میں بسنے والی قومیں جو کہ علمی لحاظ سے پہلے سے ہی پسماندہ تھیں اردو سے دور ہوتی چلی گئیں۔ دوسری قومی زبانوں کا یہ ڈر بالکل جائز تھا۔ کیونکہ جس مقصد کے لیے اردو رائج کی گئی تھی وہ مقصد کسی نہ کسی حد تک دوسری زبانوں کو پھلنے نہیں دینا بھی تھا۔

لیکن اس ڈر کے سائے میں اردو سے دوسری قومی زبانوں میں جو ایک نفرت پیدا ہوئی وہ اس اردو ادب کو بھی متاثر کر گئی جو کہ نہ  سیاسی ہے اور نہ  ہی اس کا مقصد کسی زبان کو ختم کرنا ہے۔ دوسری قومی زبانیں آج اردو ادب کو اس سیاسی اردو کا حصہ مانتی ہیں کہ جس کا تعلق اس ادب سے کبھی بھی نہیں رہا ہے اور اس وجہ سے وہ اردو ادب کو بھی خود سے اتنا ہی دور رکھنا چاہتی ہیں کہ جتنا وہ اس سیاسی اردو کو خود سے دور رکھنا چاہتی ہیں۔ اردو ادب کو اس طرح تنقید کا نشانہ بنانا ایک تو ان قوموں کو ایک بڑے ادبی ورثے سے محرم رکھ رہا ہے اور دوسرا جو فائدہ ان قومی زبانوں کو اس ادب سے ہوسکتا ہے وہ بھی اس تنقید کی زد میں آ کر متاثر ہو رہا ہے۔

دوسری قومی زبانیں چاہے وہ پشتو ہو ،سندھی   یا بلوچی ہو ،ان میں لکھنے اور پڑھنے والے زیادہ تر نوجوان اردو میڈیم  سکولوں سے پڑھے ہوئے ہیں اور ان کی بنیادی تعلیم اردو میں ہے جس کی وجہ سے انہیں اردو پر کافی مہارت بھی حاصل ہے۔ اب اگر اس طبقے کو اردو ادب سے نزدیک کر دیا جائے تو یہ اردو ادب ان قومی زبانوں میں لکھے جانے والے ادب کے لیے کئی راہیں ہموار کر سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بلوچی زبان میں لکھنے والے اکثر شاعر اور افسانہ نگار اسی اردو ادب سے ہی متاثر ہو کر لکھتے رہے ہیں اور آج بھی لکھ رہے ہیں۔ ہم اگر اپنے شاعروں کی شعری سفر پر ایک نظر ڈالیں تو ہمیں اپنے شاعر جن شاعروں سے متاثر ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں وہ سب اردو شاعر ہیں۔ سید ہاشمی سے لے کر مبارک قاضی تک ہمارے سارے نامور شاعر اردو شاعری سے متاثر ہوئے ہیں۔ اردو سے جتنا عشق عطا شاد کو تھا شاید ہی کسی اور بلوچ شخص کو آج تک ہوا ہو۔ لیکن کیا ہم عطا شاد پر یہ الزام تو لگا سکتے ہیں کہ وہ اردو کو (جو کہ بقول کچھ بلوچی دانشوروں کے) بلوچی کا دشمن ہے بلوچی پر مسلط ہوتے دیکھ کر بھی اس میں شاعری کر رہے تھے۔ اردو سے یہ ناجائز رویہ روا رکھنا نا صرف ہمارے لیے نقصان دہ ہے بلکہ ہمارے ادب کی ترقی کے لیے بھی کافی زیادہ خطرہ ناک ہے۔ کیونکہ ہم نا چاہتے ہوئے بھی آج علمی لحاظ سے اسی اردو ہی کے محتاج ہیں کہ جس کو دشمن کی زبان تصور کیا جاتا ہے۔ اگر واقعی ہمارے وہ لوگ جو کہ اردو کو دشمن زبان تصور کرتے ہیں راہِ راست پر ہیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ فیض، ساحر اور جالب کو پڑھنے والے سارے لوگ بھی زبان دشمن ہیں۔ اگر اردو دشمن زبان ہے تو پھر منٹو، عصمت چغتائی اور کرشن چندر بھی دشمن لکھاری ہیں کہ جن کے افسانوں نے ہی بلوچی زبان کو افسانہ نگاری کی طرف راغب کیا ہے۔ اگر اردو دشمن کی زبان ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اردو کے توسط سے پیدا ہونے والا ہمارا ادب بھی ایک دشمن ادب ہے۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply