مولانا ۔۔۔۔ریاست اور سیاست/آصف محمود

چونکہ مفتی محمود اکیڈمی کے ڈائرکٹر کا بطور ناشر یہ دعوی ہے ’’ مشافہات‘‘مولانا کے محض انٹرویوز ہی نہیں بلکہ یہ ’’ جے یو آئی کی ملی تاریخ کا اثاثہ اور جمعیت علمائے اسلام کی قومی معاملات میں پالیسی کا مجموعہ بھی ہے جس کا مطالعہ سیاسیات کے طالب علموں کے لیے ناگزیر ہے‘‘ ، اس لیے ایک طالب علم کے طورپر آج یہ دیکھتے ہیں کہ ریاست اور سیاست کے بارے میں مولانا کیا فرماتے ہیں یا یوں کہیے کہ ریاست اور سیاست کے باب میں جمعیت علمائے اسلام کی قومی پالیسی کے خدوخال کیا ہیں؟ جلد اول میں 91سے ایک انٹرویو شروع ہوتا ہے جو ایک ہفت روزے کو دیا گیا۔ ایک سوال اور اس کا جواب ذرا ملاحظہ فرمائیے۔ سوال: آپ نے ایک موقع پر کہا تھا کہ قیام پاکستان کے وقت قوم کو دھوکہ دیا گیا اور اب بھی دھوکہ دیا جا رہا ہے تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے وقت لیڈروں نے جان بوجھ کر دھوکہ دیا تھا یا حالات ایسے پیدا ہو گئے کہ قوم سے کیے گئے وعدے پورے نہ ہو سکے ؟ جواب : میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہمارے اکابر نے قیام پاکستان کی تجویز سے اختلاف کیا تھا۔لیکن جب پاکستان بن گیا تو بنے ہوئے پاکستان سے کبھی اختلااف نہیں کیا۔ مولانا کوئی طفل مکتب نہیں ، ان کے چاہنے والوں کا دعوی ہے وہ دلیل اور منطق کی دنیا کے بادشاہ ہیں اور ایک ایک لفظ ناپ تول کر بولتے ہیں۔اب ذرا اس جواب پر غور کیجیے ۔فرمایا میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔ یعنی مجھے اس سے کوئی لینا دینا نہیں کہ حالات کیا تھے اور کیسے تھے میرا موقف یہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت قوم سے دھوکہ کیا گیا۔ مولانا نے اپنے بیان کی تردید کرنا بھی گوارا نہیں فرمائی۔ یعنی ان کے نززدیک جن لوگوں نے پاکستان بنایا وہ دھوکہ باز تھے اور انہوں نے پوری قوم کے ساتھ دھوکہ کیا۔ ان کے اکابر اس دھوکہ کو سمجھ گئے تھے اس لیے انہوں نے مخالفت کی۔ البتہ یہ ان کی مروت اور سخاوت ہے کہ بنے ہوئے پاکستان سے انہوں نے کبھی اختلاف نہیں فرمایا۔ جلد دوم صفحہ 154 پر ایک اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں سوال پوچھا جاتا ہے کیا آپ پاکستان کو اسلامی ریاست نہیں مانتے؟تو مولانا فرماتے ہیں : پاکستان اسلامی ریاست نہیں ہے۔ اگلا سوال ہوتا ہے : کیا پھر آپ اسے طاقت کے زور پر اسلامی بنانا چاہتے ہیں؟اب ذرا جواب ملاحظہ فرمائیے: پتا نہیں آپ بحث کو کس طرف لے گئے ہیں ۔ میں بڑے محتاط اندازمیں بات کرنا چاہتا ہوں ۔لیکن ایک بات واضح ہے کہ پاکستان میں اسلام نہیں ہے۔پاکستان کے حکمران اسلام کے باغی ہیں۔وہ خروج کر چکے ہیں ۔ جلد اول میں صفحہ 302 پر ایک انٹرویو ہے وہ بھی خاصے کی چیز ہے۔یہ انٹریو 1993میں لیا گیا۔ سوال پوچھا گیا : آپ نے کچھ عرصے سے انقلاب کے لیے کلاشنکوف اٹھانے کی بات شروع کر دی ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ جواب نے مولانا فرماتے ہیں ، میں نے صرف تنبیہہ کی ہے۔اور ساتھ مثال کشمیر کی دے دی کہ جب ان کے ساتھ دھاندلی ہوئی تو انہوں نے بندوق اٹھا لی۔دلیل کی دنیا کے بادشاہ کی دلیل گویا 1993 سے یہ ہے کہ انہیں دھاندلی سے ہرایا جاتا ہے ورنہ وہ دو تہائی اکثریت سے حکومت قائم کر کے اسلامی نظام نافذ فرما چکے ہوتے۔ کشمیر کی تحریک بھی ان کے نزدیک صرف انتخابی دھاندلی کا رد عمل ہے۔مسئلہ کشمیر کی اتنی آسان شرح دلیل کی دنیا کا بادشاہ ہی دے سکتا ہے۔ آگے چلیے اور سوال و جواب پڑھتے جائیے۔ سوال: لیکن آپ مسلح انقلاب کا راستہ اختیار کریں گے تو کیا یہ قوتیں آپ کے راستے کی رکاوٹ نہیں بنیں گی؟ جواب : رکاوٹ تو اب بھی بن رہی ہیں۔ سوال: لیکن اس وقت تو سامنے آئیں گی۔ آپ ان کو راستے سے ہتائیں گے تو کیا یہ دہشت گردی نہیں ہو گی؟ جواب : پھر انقلاب ہو گا ۔کھلی جنگ ہو گی۔پھر ہم طاقت کی بنیاد پر لوگوں کو چیلنج کریں گے ۔ اگر افغانستان کے جہاد کو جہاد کہا جا سکتا ہے ، اگر کشمیر کی تحریک حریت کو جہاد قرار دیا جا سکتا ہے تو ہمارے ملک میں ہماری جدوجہد کو دہشت گردی کیسے کہا جا سکتا ہے؟ سوال ہوا :یعنی آپ اس جدوجہد کو جہاد قرار دیں گے؟ جواب : جی بالکل۔ اس کے سوا کوئی راستہ نہیں۔میں اس نظام کو کفر کا نظام سمجھتا ہوں۔اس نظام کے چلانے والوں کو کفر کے نظام کا معاون سمجھتا ہوں ۔اس نظام سے چھٹکارے کے لیے ہمیں کچھ نہ کچھ فیصلہ کرنا ہو گا۔ ہمیں اس طرف یہ چاہتے ہوئے بھی جانا پڑے گا۔ یعنی پہلے مولانا مسلح جدو جہد کی بات اس لیے کر رہے تھے کہ انتخابات میں کچھ قوتیں ان کا راستہ روک لیتی ہیں اور یہاں فرما رہے ہیں کہ مسلح جدوجہد اس لیے ضروری ہے کیونکہ یہ نظام ہی کفر کا نظام ہے۔ لیکن جلد اول میں صفحہ 156 پر ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں : جمہوریت اور اسلام میں کوئی تضاد نہیں۔چنانچہ میرے جیسا نالائق طالب علم تین جلدوں کے مطالعے کے بعد بیٹھا سوچ رہا ہے مولانا کہنا کیا چاہتے ہیں؟ خوش ہوں تو سب جائز ہے ، ناراض ہوں سب کفر ہے؟ سوال یہ ہے اگر نظام کافرانہ ہے اور اس نظام کو چلانے والے کفر کے نظام کے معاون ہیں تو اس نظام کے تحت مراعات کے دریا نہانے والوں کی جدوجہد مومنانہ کیسے ہو گئی؟ آپ دلیل اور منطق کی قوت دیکھیے ، ایم پی اے بن کر ، ایم این اے بن کر ، سینیٹر بن کر ، صوبائی اور وفاقی وزارتیں لے کر ، کشمیر کمیٹی کی چیئر مینی وزراء کالونی کے بنگلے سمیت لے کر اور صوبے کی وزارت اعلی لے کر بھی صاحب کمال معصومیت سے فرما دیتے ہیں : یہ نظام بھی کافرانہ ہے اور اس کو چلانے والے بھی کافرانہ نظام کے معاون ہیں۔ اگر مان لیا جائے یہ نظام کافرانہ ہے ، پھر علمائے اسلام کی جمعیت اس نظام کا حصہ بن کر جملہ مراعات سمیٹتی ہے تو کیا وہ اس کافرانہ نظام کی معاونت فرما رہی ہوتی ہے؟ یہ نظام اگر کافرانہ ہے اور اسکو چلانے والے بھی اس کافرانہ نظام کے معاونین میں سے ہیں تو اس نظام کے تحت قائم اسمبلیوں میں براجمان ہونے والے، وہاں قائمہ کمیٹیوں کی چیئرمینی لینے والے ، وزارتیں لینے والے ، قائد حزب اختلاف کے منصب پر فائزہونے والے اور اسی کافرانہ نظام کے اندر تہتر کے آئین کے تناظر میں صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والے خود کیا ہوئے؟ اسلام کی جمعیت کے علمائ؟ یا کافرانہ نظام کے معاونین؟ برادرم سلیم صافی نے سالوں پہلے کالم لکھا تھا : واہ مولانا ۔ آج میں بھی مولانا کی بصیرت کا قائل ہو گیا۔آج مجھے بھی کہنے دیجیے : واہ مولانا واہ۔سیاست ہو تو ایسی، جب جہاں اور جیسا چاہا اصول بنا لیا ۔لیکن آپ سیاست کرتے ہی کب ہیں صاحب ، آپ تو میراثِ عجم بانٹتے ہیں۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply