• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • شدت پسندانہ نفسیات کا حامل ہمارا معاشرہ اور ” میرے پاس تم ہو “۔۔ضیغم قدیر

شدت پسندانہ نفسیات کا حامل ہمارا معاشرہ اور ” میرے پاس تم ہو “۔۔ضیغم قدیر

وفا اور بے وفائی انسان ہی کرتے ہیں لیکن ہم ہر چیز کو آئیڈیالائز کر کے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ محرومیاں جن کا ہم شکار ہوتے ہیں ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کوئی دوسرا کردار انہی محرومیوں کا شکار نہ  بنے۔ ہمارا معاشرہ شدت پسندی سے بھری ہر چیز پسند کرتا ہے ایسے میں میرے پاس تم ہو کا ہِٹ ہونا بنتا ہے۔

خلیل الرحمن نے دانش اور مہوش کے کردار حد سے زیادہ آئیڈیالائز کر کے پیش کیے۔ اب جب ایک عام دیکھنے والا کوئی بھی ویڈیو دیکھتا ہے تو وہ ہیرو کی جگہ خود کو تصور کرتا ہے۔ لڑکیاں ہیروئن کی جگہ خود کو، مگر سب ہی (99فیصد) مثبت کردار سے حد سے زیادہ اٹیچ ہو کر وہ ویڈیو دیکھتے ہیں۔

اس ساری اٹیچ منٹ کے دوران ہمارے لاشعور میں ایک اور فلم چل رہی ہوتی ہے۔ جو ہمارے اندر کی محرومیوں کو دیکھتی ہے اور یوں ہمارے لاشعور کی یہی کوشش رہتی ہے کہ وہ محرومیاں جن کا ہم شکار ہیں ان کا شکار کردار نہ  رہے۔ اب خلیل الرحمان قمر نے جو گیم کھیلی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک مرد کے کردار کو حد سے زیادہ جھکا اور کمزور کر کے دکھایا ہے۔ وہ مرد جو غصیل اور مضبوط سمجھا جاتا ہے وہ اتنا کمزور ہوسکتا ہے یہ بات زیادہ تر کمزور نفسیات کے لوگوں کا دماغ ہلانے کے لئے کافی تھی۔ اوپر سے اس کردار کے جو کام ہیں وہ حد سے زیادہ مثبت دکھائے گئے ہیں۔ اور عورت جو کہ ادب میں ہر وقت وفا کا استعارہ بنا کر دکھائی جاتی آرہی ہے اس کو حد سے زیادہ بے وفا دکھایا گیا ہے۔ جو کہ ایک حیران کن بات ہے۔
ایسے میں وہ لوگ جو مرد کو اس روپ میں نہیں دیکھ سکے، اُن کے لئے دانش ایک سُپر ہیرو سے کم نہیں اور مہوش جو کہ عورت اور وفا کا استعارہ سمجھی جانی تھی اس کی بے وفائی کسی ظلمِ عظیم سے کم نہیں سمجھی جانی تھی۔

گو مجھے سائیکالوجی کی ٹرمینالوجی کا اتنا علم نہیں لیکن مجھے خلیل الرحمن قمر ایک شدت پسندانہ سوچ کے مالک لکھاری لگے ہیں۔ جو اپنے ہر ڈرامے میں کردار سے ایسا سلوک کرتے ہیں جو کہ عام الفاظ میں بھی سراسر شدت پسندانہ، ری ایکشنری اور بدلا لینے والا ہے۔ مجھے ان کی زندگی کی کہانی کا علم نہیں تھا مگر جب پہلی بار ان کے کام کو دیکھا تو تب ہی پتا لگ گیا تھا کہ لکھاری اپنے اندر کی محرومیوں کو کردار میں ڈھال کر نکال رہا ہے۔ اور اب اس بات سے سب ہی اتفاق کریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

گو ہماری ڈرامہ انڈسٹری کا وجود اور اس سے کی جانے والی ڈیمانڈ عشق ، پیار اور محبت ہے لیکن ایسے شدت پسندانہ ڈرامے جس میں کسی بھی کردار کو اتنی جذباتی شدت پسندی کے ساتھ پیش کیا جائے معاشرے پہ مستقبل میں منفی اثرات رکھ سکتے ہیں۔ خلیل الرحمان اس تناظر میں مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے کرداروں کو مقبول عام بنایا۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی کلئیر کرنا مقصود ہوگی کہ ان جنرل ہمارا معاشرہ ہر چیز میں شدت پسند کرتا ہے۔ ہر وہ چیز جس میں شدت پسندی ہوگی یہاں پسند کی جائے گی۔ یہاں مقبولِ عام ہوگی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply