تخت کا حقدار کون

سکندر بستر مرگ پر پڑا تھا دائیں بائیں وزراء و سپہ سالار نیم دائرے کی صورت میں ہر حکم بجا لانے کو مستعد کھڑے تھے. محرر کا قلم قرطاس پر گِھسنے کو تیار تھا. ابھی سکندر اعظم کی وصیت لکھی جانی تھی.
سکندر سے پوچھا گیا کہ اے شاہ ہفت اقلیم آپ کا جانشین کون ہو؟ آپ کے بعد اورنگ پر کس کو تاجدار کیا جائے؟
آدھی دنیا کے شہنشاہ سکندر نے جواب دیا
“اس کو جو سب سے زیادہ طاقتور ہو”۔

سکندر اعظم نے مختصر جملے میں بات سمیٹ لی اور یہ کلیہ سجھا دیا کہ طاقت ہی حکومت کی پہلی ضرورت ہے. نظام چاہے خلافت ہو قصر شاہی ہو دربار پرویز ہو یا جمہوریت ہو، اقتدار طاقتور کے ہاتھ ہی رہتا ہے. اس طاقت کی قسمیں مختلف ہو سکتی ہیں. بعض جگہ یہ طاقت چالاکی، بعض اوقات سفاکی تو کچھ جگہ نظریاتی لبادہ اوڑھے ہوئے ہوتی ہے لیکن اس کی بنیاد میں قوت ضرور پنہاں ہوتی ہے. جتنا بڑا بادشاہ ہو گا اتنی ہی تیز دھار تلوار درباری جلاد کے ہاتھ میں ہو گی. چھوٹی جمہوریت کی جیب میں ٹارچر سیل جبکہ بڑی جمہوریت کے پہلو سے ایک گوانتاناموبے نکلتا ہے.

یہ دنیا طاقت کے توازن پر اقتدار کے فیصلے کرتی ہے عبدالملک بن مروان جب خلافت کا چوغہ پہنتا ہے تو اسے حجاج بن یوسف کی ضرورت پڑتی ہے. حکومت کرنا معصوموں کا کام نہیں ہوتا یہاں خوف خدا سے زیادہ حدود کا نفاذ ضروری ہوتا ہے. بھائیوں کے قتل اور والد شاہجہان کو عمر قید میں ڈالنے سے اورنگزیب عالمگیر کے تخت کو سانس ملتا ہے. عوام دوست، ادب دوست اور باذوق ہونے سے اچھا شاعر تو بنا جا سکتا ہے لیکن مغل تاج نہیں سنبھالا جا سکتا. نام کے بہادر شاہ ہونے سے بھلا کب بہادری حاصل ہوئی ہے؟. ابراہیم لودھی اور ظہیر الدین بابر کا معرکہ ہو یا عباسی و اموی مقابلہ ہو، یہاں تک کہ مکہ و مدینہ کے غزوات ہوں، انسانوں کے درمیان حق و باطل کا فیصلہ طاقت کرتی آئی ہے.

شاہوں نے ہر دور میں عام آدمی پر دم پھونکا ہے. ہر عہد کا محمود وہ جادو جانتا ہے جس کے استعمال سے ایاز کی آنکھ کو حلقہ گردن میں ساز دلبری دکھائی دینے لگے. کون جانتا ہے کہ نوشیروان کی رعیت اپنے سلطان سے محبت رکھتی تھی یا پھر اس دور کے مورخ کی روشنائی سلطان کے خزانے سے خیرات پاکر چین ہی چین لکھتی تھی.سرداری کس کو عزیز نہیں، بادشاہی سے کون منہ موڑتا ہے، تعیش کس کی چاہت نہیں، راج کرنا کس کو پسند نہیں لیکن ہر کوئی بادشاہ نہیں بنتا، ہر کسی کے زیر پا تخت نہیں آتا. دارائی اور سکندری قوتِ بازو پر منحصر ہے بادشاہت پانے کے لئے فاتحین کے اوصاف ہونا ضروری ہیں. مُصحَفِ تاریخ کا ہر ورق یہی دہائی دیتا ہے کہ تاجداروں کی جرم ضعیفی ان کے مرگ مفاجات پر منتج ہوتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مندرجہ بالا سطور سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ عام انسان ہر نظام حکومت میں زیادہ بڑی طاقت کا غلام رہتا ہے. تو پھر ایسا کیوں ہے کہ مہذب سماج میں جمہوریت کو دیگر نظام ہائے حکومت پر ترجیح دی جاتی ہے؟ ۔۔۔جواب یہ ہے کہ جمہوری ریاستوں میں جمہوریت کو حکومت کا محکمہ سمجھا جاتا ہے. مذہب حکمران کو خدا کا نمائندہ بناتا ہے اور جمہوریت حکمران کو عوام کا نمائندہ کہتی ہے. بادشاہت و آمریت سے یہ اس لئے بہتر ہیں کیونکہ اس میں حکمران طاقت رکھتے ہوئے بھی شتر بے مہار نہیں ہوتا اور جواب دہ ہوتا ہے. مذہب حکمران کو خدا کے سامنے جبکہ جمہوریت عوام کے سامنے جوابدہ کرتی ہے. مذہبی ریاست کے حکمران اعلی کا احتساب خدا کے جبکہ جمہوری ریاست کے حکمران کا احتساب عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے. مہذب معاشرہ اسی لئے جوابدہ حکمران کو آمریت و بادشاہت پر ترجیح دیتا ہے. ان دونوں میں سے جمہوریت کا چناؤ کرنے کی وجہ بھی احتساب کا اسی دنیا میں ہونا ہے. اقتدار طاقت کا مرکز ہے، اس طاقت پر منصفانہ باگ ڈالنا جمہوریت ہے. اس طاقت کو بہترین طریقے سے استعمال کرنے والا تخت کا حقدار ہے.

Facebook Comments

ثاقب الرحمٰن
چند شکستہ حروف ، چند بکھرے خیالات ۔۔ یقین سے تہی دست ، گمانوں کے لشکر کا قیدی ۔۔ ۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”تخت کا حقدار کون

  1. Thora aap patri se utray hain Saqib Sb. “Makka Madina ke ghazwat, insano ke darmeyan Haqq o Baatil ka faisla Taqat kerti ayee hay” unrealistic, irrelevant and illogical hay

  2. بہت خوب ثاقب بھائی! بہت عمدگی سے آپ نے ثابت کیا کہ طاقت ہی اقتدار کے دوام کیلئے ضروری ہے اور اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے. بدقسمتی سے بعد از رسول اکرم، تاریخ مسلمانانِ عالم بھی کوئی قابلِ فخر و ستائش مثال پیش نہ کرسکی جو طاقت اور عدل و انصاف کو میانہ رکھ کر حکومت کا انداز دکھائی دے ماسوائے خلافت راشدہ کے کچھ مختصر عرصے کے.
    حکومت طاقت کی محتاج ہے، لیکن کیسی طاقت اور طاقت کا کیسا استعمال؟ اس کے رہنما اصول بیان شدہ ہیں اور منتظرِ عملداری ہیں. امید ہے الہی طاقت بھی دکھے گی اور حکومتِ عدل و انصاف کا انداز بھی نمایاں ہوگا.
    ان شاءاللہ

Leave a Reply