• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • استنبول!تجھے بُھلا نہ سکوں گا(سفرنامہ)۔۔۔قسط5/پروفیسر حکیم سید صابر علی

استنبول!تجھے بُھلا نہ سکوں گا(سفرنامہ)۔۔۔قسط5/پروفیسر حکیم سید صابر علی

ٹوپکاپی سرائے میوزیم
گائیڈ نے پورے گروپ کے ٹکٹ خود خریدے،یہ میوزیم درحقیقت شاہی خاندان کی رہائش،اُن کی خواتین کی حریم،فوجی تربیت گاہ،سفارت خانہ اور اُس دوران استعمال ہونے والے ہتھیاروں کا اسلحہ خانہ،اور موجودہ دور میں سیاحوں کے لیے عجائب گھر کی حقیقت رکھتا ہے۔

فرسٹ کورٹ یارڈ
دستی بیگ وغیرہ کی وصولی چیکنگ کے بعد اندر داخل ہوئے،مین گیٹ کے پاس ہی باہر کی طرف سلطان احمد سوئم کا خوبصورت مزار مرمت کیا جارہا تھا،ایک طرف بلندو بالا دیوار ہے،جس کے بارے بتایا گیا ہے کہ فاتح سلطان محمد کے دور میں اس دیوار کے اندر چھاؤنی نما جگہ میں نوجوانوں کی فوجی تربیت ہوتی تھی،یہ کورٹ یارڈ عوام الناس کے لیے تھا،لوگ وہاں آزادانہ آجاسکتے ہیں۔
دوسرا کورٹ یارڈ شاہی خاندان کے لیے تھا،وہاں شاہی خاندان کے لوگ اُن کے لواحقین یا جِسے اجازت ہوتی وہ آسکتا تھا۔
دوسرے کورٹ یارڈ میں شاہی خاندان کی باپردہ خواتین کے لیے علیحدہ تھا،اُسے دیکھنے کے لیے آج بھی علیحدہ ٹکٹ کی پابندی ہے،وقت کی کمی کے باعث ہم جیسے سیاحوں کے لیے ٹکٹ لے کر دیکھنے کی گنجائش نہیں تھی،
روایت ہے کہ اس حریم میں اگر کوئی شخص بغیر اجازت چلا جاتا تو اُس کی کم از کم سزا سرقلم کرنا تھی،حریم میں 350خواتین رہتی تھیں،کورٹ یارٹ دوم کے دائیں طرف تیسرے کورٹ کورڈ یارڈ میں جانے سے پہلے ایک چھوٹا سا کمرہ ہے،جہاں بادشاہ غیر ملکی سفارت کاروں سے سفارتی کاغذات وصول کرتا،بادشاہ چند مصاحب کے ساتھ براجمان ہوتا،سفارت کار نگاہیں نیچی کیے دائیں بائیں دیکھے بغیر گھنٹوں کبھی جُھک کر(عملاً کورنش بجالاکر)سفارتی کاغذات پیش کرتا،
تیسرے کورٹ یارڈ میں بڑے بڑے تین چار کمرے ہیں۔
پہلے کمرے میں شاہی انداز سے چند افراد کے بیٹھنے کے لیے معدہ انتظام ہے،یہاں وہ لوگ اس انتظار گاہ میں بیٹھتے جن کو بادشاہِ وقت مشاورت کے لیے شرف ِ باریابی بخشتے۔
جس کمرے میں بادشاہ سلامت تشریف فرماہوتے،اس میں شاہی آداب کے مطابق چند نشستیں ہی انتظار گاہ کے لیے بیٹھے مشیروں کو جب اذن باریابی ملتا،وہ مشاورت کے لیے تشریف لے جاتے۔
سیریموریل(Cerimorial)
ایک تیسرا بڑا کمرہ جو آج weapon roomکہلاتا ہے،اس میں تبرکات کے طور پر بہت سی اشیاء کو شیشے کی الماریوں میں سجایا گیا ہے،ایک عصا اور پگڑی کے میں درج ہے کہ یہ عصاموسیٰ اور پگڑی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہے۔۔حضور صلعم کی چند تلواریں مہر ِ نبوت،حضرت آدم علیہ السلام کے قدم مبارک کا نشان،موئے مبارک اور دیگر تبرکات ہیں۔خلفائے راشدین میں سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی تلواریں،حضرت عثمان،حضرت عمرکی تلواریں،حضرت خالد بن ولید سیف اللہ کی دوتلواریں،حضرت زبیر بن عوام کی تلوار،زرہ بکتر،اور سر پر پہننے کے لیے لوہے کی ڈھال،جس کی تاریخ بھی درج ہے،اسی کمرے میں آویزاں ہیں۔
اس جنگی سازوسامان کو دیکھتے ہوئے ذہن میں یہ سوال گھوم رہے تھے کہ اس جنگی ساز وسامان زرہ بکتر،لوہے کی ڈھال،کو آج کے دور میں دو تین جوان مل کر اُٹھا نہیں سکتے،ایک تلوار کو اٹھا کر چلا نہیں جاسکتا،وہ انسان تھے یا انسان کے روپ میں اللہ کے فرشتے جو صرف ایک یادوکھجوریں کھا کر روزے کی حالت میں اس لباس کو پہن کر،اِن تلوارو ں کو گھما کر کافروں کے کشتوں کے پشتے لگادیتے تھے۔۔۔یہ لوگ یونہی تو النجوم قرار نہیں دیے گئے۔یہ عشق خداوندی اطاعتِ نبی اور اللہ کی خاطر جانیں فدا کرنے والے گوشت پوست کے وہ انسان تھے جو قیامت تک کے انسانوں کے لیے روشن قندیلیں اور چراغ راہ کے منصب پر فائز کیے جانے والے تھے،قرآن میں ایسے ہی لوگوں کے لیے کہاگیا،وہ اللہ سے راضی ہوگئے،اور اللہ اُن سے راضی ہوگیا۔
تیسرے کمرے سے روح کی طمانیت کا سامان کرکے فارغ ہوکر نیچے گئے۔جہاں کُھلا سمندر نظر آرہا تھا،جہاں بحیرہ احمر اوربحیرہ مردار بہتے ہیں،جدید و قدیم کو جدا کرتے سمندر کے اوپر تین پلوں کے ذریعے اور زیرِ سمندر ٹنل کے ذریعے باہم ملایا گیا ہے۔ساحل کے ساتھ ساتھ ٹرین کی پٹڑی اور عمدہ سڑکوں کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے۔ساحل کے کنارے kony aliریسٹورنٹ میں عمدہ چائے کا سامان ہے۔
گائیڈ نے بتایا کہ طیب اردگان کے دور سے پہلے ان ساحلوں پر گندگی کے ڈھیر اور سمندر میں پھینکے گئے کوڑے اور سامان کی وجہ سے غلاظت اور تعفن کا یہ عالم تھا کہ کوئی یہاں ٹھہر ہی نہیں سکتا تھا۔مگر چند برسوں کی محنت کے بعد یہ ساحل محفوظ تھریح گاہیں،عمدہ سڑکوں اور ریلوے پٹڑی بچھنے کے بعد سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن گئے

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply