چلتے ہو تو سعودیہ چلیے۔۔ظہیر تاج

سعودی عرب میں اب چونکہ عمرہ زائرین پر کسی بھی شہر جانے پر کوئی پابندی نہیں اس لئے سیاحت کے لئے یہاں بہت کچھ ہے جس کا ذکر اس تحریر میں ہو گا ۔

سعودی عرب کو بنیادی طور پر چار حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ شمال اور مغرب جہاں پر تمام زائرین کو جانا ہوتا ہے۔مکہ المکرمہ مغربی ریجن میں ہے اور اسکے قریب ترین شہر جدہ اور طائف ہیں۔ جدہ تو تقریباً سب ہی زائرین جاتے ہی ہیں مگر طائف بھی ایک اہم تاریخی شہر ہے۔ طائف مکہ مکرمہ سے 70 سے 80 منٹ کی مسافت پر ہے. پہاڑی علاقہ ہے اور شدید گرمیوں میں بھی موسم معتدل رہتا ہے۔ طائف میں چئیر لفٹ بھی ہے اور طائف کو جانے والی سڑک بالکل مری جیسی بل کھاتی اور نظاروں سے بھرپور ہے۔

جدہ بہت ہی بڑا اورجدید  شہر ہے ۔جدہ میں بہت سارے ماڈرن شاپنگ، مالز، خوبصورت ساحل سمندر، بلد جیسا تاریخی بازار اور سمندر کے قریب بہت ہی شاندار فش ایکیوریم  موجود ہے۔ اسی فش ایکوریم کے احاطے میں روازنہ ڈالفن شو بھی ہوتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ ایک مہنگی ایکٹیوٹی ہے۔
اسکے علاوہ مکہ سے قریب ایک شہر رابغ بھی ہے جو ساحلی پٹی پر واقع ہے اور آگے چل کر شمالی ریجن ینبع سے ملتا ہے اور یہاں ہی سے ایک سڑک بدر سے ہوتے ہوئے مدینہ منورہ کی جانب نکلتی ہے۔

مدینہ منورہ سعودیہ کے شمالی حصے میں واقعہ ہے۔ شمال میں مدینہ منورہ کے علاوہ اہم شہر ینبع، حائل اور تبوک ہیں۔ ینبع میں بھی خوبصورت ساحل ہیں اور مدینہ منورہ سے اڑھائی گھنٹے کی مسافت پر ہے ۔ اسی روٹ پر ایک تاریخی اہمیت کا حامل کنواں بئر رومہ ہے۔ مدینہ سے قریب ہی بدر کا مقام ہے جس کو ایک بڑا ٹاؤن کہا جاسکتا ہے۔ مدینہ سے ہی تین گھنٹے کی مسافت پر مدائن صالح کے کھنڈرات ہیں جو تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ انکا تعلق حضرت صالح کی قوم سے ملتا ہے اور اردن میں واقع پیترا جیسی تہذیب سے مماثلت بھی ہے۔ اسی جانب آگے چل کر بحیرہ احمر کے ساحل ہیں۔ اسی پٹی پر حقل کا ایک خوبصورت ساحل ہے جس میں ٹورسٹ ریزارٹس ہیں اور آگے چل کر جدید ترین شہر نیوم تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔مزید آگے تبوک کا شہر ہے جو اردن کے بارڈر کے قریب ہے اور سردیوں میں شدید ترین سردی پڑتی ہے۔

مدینہ منورہ سے ایک سڑک ریاض کی جانب نکلتی ہے جس پر چار گھنٹے کی مسافت پر القصیم کا شہر واقع ہے۔ یہ شہر زرعی شہر ہے اور کھجور کی بہت بڑی پیدوار یہیں سے ہوتی ہے۔ یہ باغوں اور سبزے کا شہر ہے۔ القصیم سعودی عرب کے وسطی حصے میں آتا ہے اور اسی حصے میں سعودیہ کا دارلخلافہ ریاض ہے۔ ریاض بہت ماڈرن شہر ہے، بہت سارے شاپنک مالز، باغات ہیں، میوزیم، پارکس اور گرد و نواح میں تاریخی سعودی ریاست کے آثار بھی ہیں۔ ریاض مکہ اور مدینہ دونوں جانب سے آٹھ سو کلومیٹر سے کچھ زیادہ کی مسافت پر ہے۔ ریاض میں اب بہت سارے میلے شروع ہیں لیکن جنادریہ یہاں کا سب سے بڑا فیسٹیول ہے جس میں پورے عرب کا کلچر ہوتا ہے۔ یہ میلہ جنوری سے فروی کے درمیان ہوتا ہے۔

سعودی عرب کے مشرقی علاقہ میں دمام، الخبر، ہفوف، اور جبیل کے اہم شہر ہیں۔ یہ تمام شہر بحیرہ عرب کی ساحلی پٹی پر واقع ہیں۔ تمام شہروں میں بہت خوبصورت ساحل ہیں اور جدید سہولیات میسر ہیں۔ ان میں بہت سے خوبصورت صحرا بھی ہیں۔ یہ شہر مکہ اور مدینہ سے کافی زیادہ فاصلے پر ہیں اور سڑک کے ذریعے سفر 13 سے 15 گھنٹوں کا ہو سکتا ہے۔

جنوبی حصے میں اہم ترین شہر ابھاء ہے جو ایک پہاڑی سلسلہ ہے ۔ گرمیوں میں یہاں بہت خوشگوار موسم ہوتا ہے اور سردیوں میں شدید سرد موسم ہوتا ہے۔ابھاء میں  سودا کے مقام پر ایک چئیر لفٹ بھی ہے اور یہ مقام ہر وقت بادلوں سے ڈھکا رہتا ہے۔ ابھاء سے ایک سڑک طائف کی جانب جاتی ہے جس پر سفر کرتے ہوئے پاکستان کے پہاڑی سلسلوں کی یاد آتی ہے۔ اسی سڑک پر البہاء کا ایک خوبصورت شہر بھی آتا ہے۔ جنوبی حصے میِں ہی بحیرہ احمر پر واقع ایک شہر جیزان بھی آتا ہے اور اسی شہر سے بذریعہ فیری فرسان کا ایک جزیرہ ہے۔

سعودی عرب میں سفر کا بڑا ذریعہ سڑک ہے ، دمام سے ریاض اور القصیم کے درمیان ریل کا بہت اچھا سفر ہے۔ جدہ سے مکہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ریل کی پٹڑی  حال ہی میں  مکمل ہوئی ہے۔ سعودیہ کے تمام شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام ابھی تک اتنا اچھا نہیں، زیادہ تر سفر ٹیکسی سے کرنا پڑتا ہے جو مہنگا ہے ۔ اپنی کار خریدنا اور اسکو افورڈ کرنا بہت آسان ہے۔ پیدل چلنے والوں کے لئے یہ ملک اتنا فرینڈلی نہیں سوائے مکہ اور مدینہ کے۔ ریاض میں بہت ہی جدید میٹرو اگلے سال کے آخر تک شاید مکمل ہو جائے تو یہ پورا شہر ریل سے    منسلک ہو جائے گا۔ سعودیہ کے تمام ہی شہروں میں ائرپورٹس موجود ہیں(مکہ المکرمہ کے علاوہ).۔سعودی ائرلائنز کے علاوہ دو مزید سستی ائرلائنز ہیں جن سے آسانی سے سستے ٹکٹ خرید کر ڈومیسٹک سفر کیا جاسکتا ہے۔

گرمیوں میں تمام ہی شہروں میں شدید گرمی پڑتی ہے سوائے ابھاء اور طائف کے۔ سردیوں میں ستمبر سے مارچ تک تمام شہروں میں اچھا موسم ہوتا ہے ،وسطی اضلاع میں درجہ حرارت صفر تک پہنچ جاتا ہے۔ تبوک جو اردن کے بارڈر پر واقع ہے ادھر اکثر برف باری بھی ہو جاتی ہے۔ میری رائے میں سیاحت کے لئے سب سے بہترین وقت سردیوں کا ہی ہے۔

سعودیہ میں بازاروں کی رونق شام کے اوقات میں شروع ہوتی ہے اور رات کے 12 بجے سب کچھ بند ہو جاتا ہے۔ ریستوران اور کافی شاپس رات 2 بجے تک کھلی ہوتی ہیں۔ کافی کلچر بہت زیادہ ہوتا ہے اور چھوٹے سے چھوٹے گلی محلے میں بھی کافی شاپ لازمی ہوگی۔ عربیبک کافی آپکو راستے میں کہیں بھی کوئی بھی مفت میں پلا سکتا ہے۔

یہاں پر گھر میں کھانا پکانے کا کلچر کم ہے اس لئے دنیا جہان کی فوڈ چینز، انڈین، پاکستانی، چائنیز، ترکش،لبنانی، افغانی، سوڈانی، یورپین، میکسیکن، برازلین اور ہر طرح کا کھانا مل جائے گا۔ کھانا عوام کی قوت خرید میں ہے۔ شوراما اور مقامی سٹائل کے بنے چاول ہر گلی میں مل جاتے ہیں۔

سعودی عرب میں رمضان کا مہینہ ایک فیسٹیول کا درجہ رکھتا ہے۔ بازار اور ریستوران سرشام کھلتے ہیں اور فجر کے وقت تک کھلے رہتے ہیں۔ عید الفطر پر تین دن تک تمام بڑے شہروں میں آتش بازی ہوتی ہے۔

سعودیہ کے تمام شہروں میں رہائش کی بہترین اور مناسب سستی سہولیات مل جاتی ہیں۔ فائیو سٹار سے لے کر فرنشڈ اپارٹمنٹ مل جاتے ہیں۔ اپنے بجٹ کے حساب سے رہائش منتخب کی جاسکتی ہے۔

سعودی عرب میں شہروں کے علاوہ تمام معاشرہ قبائلی ہے لیکن جدہ ،دمام ،ریاض وغیرہ میں ماڈرن لائف سٹائل شروع ہوچکا ہے۔ ائرپورٹ سے لے کر دکانوں تک کام سعودی لڑکیوں  نے سنبھال لیا ہے اور اب آپکو ائرپورٹ پر لینڈ کرتے ہی ایک ٹورازم فرینڈلی ملک کا تاثر ملے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply