حوزے سارا ماگو کے شاہکار ناول “Blindness” پر تبصرہ۔۔عنبر عابر

پچھلے دنوں پُرتگالی مصنف حوزے ساراماگو کا شاہکار ناول Blindness جس کا اردو ترجمہ “اندھے لوگ” کے عنوان سے احمد مشتاق نے کیا ہے، زیرِ مطالعہ رہا۔

ناول کیا ہے؟ ایک حیرت کدہ، ایک طلسم ہوشربا جس میں داخل ہونے والا وہیں کا ہو رہتا ہے اور جب یہ طلسم ٹوٹتا ہے تو وہ بے اختیار اپنی آنکھیں ملتا ہوا خود سے سوال پوچھتا ہے”کیا میں اندھا ہوں؟” ۔ایک عرصہ بعد میں نے کسی ناول کو چند نشستوں میں ختم کیا ہے اور یقیناً  اس کتاب کی معیت میں گزرے شب و روز میری زندگی کے شاندار ایام بن گئے ہیں۔

یہ علامتی ناول اندھے پن کی عجیب و غریب وبا سے متعلق ہے۔یہ وبا روایتی اندھا پن جنم نہیں دیتی جس میں تاریکی کا راج ہوتا ہے بلکہ اس میں اندھے ہونے والے چہار سو سفید دھند دیکھتے ہیں، بس سفید کہر میں لپٹی دھند اور ایک دلدوز نعرہ کہ “میں اندھا ہوگیا ہوں”۔

پہلے پہل اندھے ہونے والوں کو حکومت فوج کی تحویل میں ایک عمارت میں نظر بند کرتی ہے ،اندھوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے مسائل خود حل کریں، مقررہ جگہوں سے خود خوراک اٹھا لیا کریں، نہ ان کی مدد کیلئے کوئی باہر سے آئیگا اور نہ ہی وہ طے شدہ حدود سے تجاوز کرینگے، بصورتِ دیگر گولی ان کا مقدر ہوگی۔

یہاں سے اندھے لوگوں کے ان رویوں کے اظہار کا آغاز شروع ہوجاتا ہے جن پر بینائی نے پردہ ڈالے رکھا تھا، اب ہر اندھا اجتماعی رویوں سے برات کا اظہار کرتا ہے اور اس کے دن رات اپنے ذاتی خول میں بند گزرنے لگتے ہیں، وہ سب سے زیادہ کھانا حاصل کرنا چاہتا ہے خواہ دوسرے بھوک سے مرجائیں، وہ اپنے لئے بہترین بستر ڈھونڈنا چاہتا ہے خواہ باقی کانٹوں پر سوئیں،اندھوں کا ہر وارڈ بیت الخلا کا روپ دھار لیتا ہے، تعفن اور غلاظت سے سانس لینا دشوار ہوجاتا ہے لیکن اندھوں کی بس دو ہی خواہشیں ہوتی ہیں، اچھا کھانا اور اچھا بستر۔

بدترین صورتحال تب پیدا ہوتی ہے جب اندھوں کا ایک گروہ باقی اندھوں پر حکمرانی کرنے کیلئے منظم ہوجاتا ہے، وہ ایک پستول کے زور پر غنڈہ راج قائم کرتے ہیں، تمام خوراک قبضے میں لے کر اس کی قیمت مقرر کرتے ہیں اور باقی اندھوں کو اپنی جمع پونجی سے محروم کرنے لگتے ہیں، ان کی بدمعاشی یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ جب باقی اندھے اپنی تمام قیمتی چیزیں، گھڑیاں، انگوٹھیاں، سونے کے سکے وغیرہ ان کے حوالے کردیتے ہیں تو وہ مقبوضہ اندھوں کا بدترین استحصال کرتے ہوئے ان سے عورتوں کا تقاضا کرنے لگتے ہیں، کچھ اندھے احتجاج کرتے ہیں جبکہ اکثر اس بے غیرتی پر راضی ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ بھوک سے مرنا نہیں چاہتے۔

غنڈہ گردوں کا راج تب ختم ہوتا ہے جب اندھے ڈاکٹر کی بیوی، جو اندھوں کی دنیا میں بینائی رکھنے والا واحد فرد ہے، ایک قینچی کی مدد سے غنڈوں کے سربراہ کو قتل کرتی ہے اور باقی غنڈے راہداری میں پلنگ ایک دوسرے پر رکھ کر اپنے وارڈ میں محصور ہوجاتے ہیں،تب ایک اندھی عورت اپنی عصمت کا انتقام لینے کیلئے ان پلنگوں کو آگ لگا دیتی ہے، عمارت دھڑا دھڑ جلنے لگتی ہے، ہر سو دھواں پھیلنے لگتا ہے اور اندھوں کا دھکم پیل کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا۔

آگ سے بچ جانے والے اندھے حدود کی خلاف ورزی کرکے عمارت سے باہر آتے ہیں اور تب انہیں پتا چلتا ہے کہ باہر ایک بھی فوجی نہیں کیونکہ سارا شہر اندھا ہوچکا ہے۔
اندھوں کی دنیا ایک الگ دنیا ہے، یہاں کسی کا نام نہیں، کوئی جان پہچان نہیں، یہاں کوئی بنتا سنورتا نہیں اور یہاں کوئی کسی کو اس کے ظاہری حلیے سے اپناتا یا مسترد نہیں کرتا، یہاں کالے گورے کا فرق نہیں، یہاں جسمانی عیوب کو پرِکاہ کی حیثیت حاصل نہیں اور یہاں وہی معزز ہے جس کا باطن سب سے خوبصورت ہے،

حوزے سارا ماگو نے اس ناول میں عجیب اسلوب اختیار کیا ہے، اس ناول میں انہوں نے کسی کردار کا نام نہیں رکھا، بلکہ پہلا اندھا، ڈاکٹر، ڈاکٹر کی بیوی، کالے چشمے والی لڑکی جیسے تشخص ظاہر کرنے والے الفاظ کا استعمال کیا ہے، یہ اسلوب اگر ایک طرف “اندھے پن” کے مفہوم سے میل کھاتا ہے تو دوسری طرف ہر دفعہ یہی الفاظ پڑھتے ہوئے کردار کا پورا خاکہ ذہن میں اجاگر ہوتا ہے، جیسے کالے چشمے والی لڑکی کے الفاظ ایک خاص تشخص رکھنے والے جیتے جاگتے انسان کا تصور پیدا کرتے ہیں، برخلاف فقط نام کے تذکرے کے، لہذا قاری کردار سے زیادہ وابستگی محسوس کرتا ہے۔

دوسرا اسلوب مصنف نے یہ اختیار کیا کہ سارے مکالمے ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں اور بھرپور توجہ کے بغیر قائل کا پتا نہیں چلتا، یوں جیسے کسی اندھے شخص کی لکھائی، اسی ناول میں ایک اندھے لکھاری کا بھی ذکر ہے جس کی لکھائی ایک دوسرے کے اوپر چڑھی ہوتی ہے، یوں مصنف نے اندھے لکھاری کے تذکرے سے اپنے اس اسلوب کے باعث سے آگاہ کیا اور ناول کو ہر جہت سے اندھے پن میں مقید کیا۔

ناول کا مرکزی خیال یہ ہے کہ موجودہ انسانی معاشرے کی ترجیحات، حکمرانوں کا جبر، باہمی چپقلش، ذاتی مفادات کا تحفظ، طاقتوروں کا راج، دراصل اندھے لوگوں کا رویہ ہے جو بینائی رکھنے والوں نے اختیار کر لیا ہے، اور درحقیقت ہم دیکھنے والے لوگ وہ اندھے ہیں جو دیکھنا نہیں چاہتے۔

یہ ناول بتاتا ہے کہ نیکی بدترین ماحول میں بھی اپنا راستہ پیدا کرتی ہے، جیسے واحد بینا فرد، ڈاکٹر کی بیوی کے کردار سے عیاں ہوتا ہے، جس نے حتی الوسع اندھوں کی مدد کی اور نیکی کا علم بلند رکھا۔
ناول کے آخر میں سب کی بینائی واپس آجاتی ہے اور ہر طرف سے ایک مسرت بھری صدا بلند ہوتی ہے کہ “میں دیکھ سکتا ہوں”
ناول کا اختتام ہوتا ہے، اندھے کردار دیکھنے لگتے ہیں لیکن قاری اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر ضرور خود سے سوال پوچھتا ہے۔
“کیا میں اندھا ہوں؟”

Advertisements
julia rana solicitors

عالمی ادب سے شغف رکھنے والے ضرور مطالعہ کریں کہ ایسی کتابیں بہت نایاب ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply