• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • جامعہ، علی گڑھ مظاہرے کو ہندی اخبارات کیسے دیکتے ہیں؟۔۔ابھے کمار

جامعہ، علی گڑھ مظاہرے کو ہندی اخبارات کیسے دیکتے ہیں؟۔۔ابھے کمار

شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں چل رہے احتجاج کو منفی طریقے سے پیش کر،قومی ہندی اخبارات نے ایک بار پھرصحافتی ضابطوں کو ٹھیس پہنچایا ہے۔

16 دسمبر کےروز ہندی اخبارات جامعہ اور اے ایم یو پر ہوئی پولیس زیادتی کی مذمت کرنےکے بجائے، اُلٹا مظاہرین طلبہ کو ہی سر پسند یعنی”اُپدروی” کہہ کر بدنام کیا اور ان پر ہنگامہ اور تشدد بھڑکانے کا بےبنیاد الزام لگایا۔ مثال کے طور پر، “ہندوستان” کی لیڈ سٹوری نے پولیس کے موقوف کی ترجمانی کی۔ “شہریت قانون کو لےکر دلّی میں مظاہرے نے اتوارکو تشدد کی شکل اختیار کر لی۔جامعہ نگر اور آس پاس کے ہجوم نے چھ بسیں جلا دیں اور 15 سے زائد گاڑیوں کونقصان پہنچایا۔ پتھراؤ کر رہے ہجوم کی پولیس سے جھڑپ ہو گئی”۔

حالانکہ خبر یہ بھی آئی تھی کہ پولیس نے خود سرکار کے اشارے پر بسوں کو نذرِ  آتش کیا تاکہ وہ پُر امن مظاہرے کو نظم و ضبط کے لیے خطرہ بتا دے۔ ایسی بات دلّی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسوڑیا ایک پریس کے سامنے کہہ چکے ہیں۔ اخبارات کو چاہیے تھا کہ کسی بات کو اپنا موقوف ماننے سے پہلے سارے پہلوؤں پر غور کرتے، مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ نہ ہی قومی اخبارات نے پولیس کی زیادتیوں پر منہ کھولا۔

“دینک جاگرن” کی لیڈ خبر اور بھی ایک طرفہ ہی تھی۔ اس نےمظاہرین کو”اپدروی” کہا اور اُن پر یہ بھی الزام لگایا کہ اُنہوں نا  صرف پتھر پھینکے بلکہ پولیس چوکی کو نذرِ  آتش کیا۔ “دلّی کے جامعہ ملیہ یونیورسٹی اور  علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں سر پسندوں نے سب سے زیادہ وبال  مچایا ،دلّی میں کئی بسیں پھونکیں اور پولیس چوکی کو بھی آگ لگا دی۔

جن ستا” کی رپورٹنگ بھی ان سب سے الگ نہیں تھی۔ “جامعہ نگر، نیوفرینڈسز کالونی اور آشرم علاقے میں مظاہرین نے اتوار کو جم کے واویلامچایا اور تین بسوں اور ایک فائر بریگیڈ کی گاڑی کو آگ لگا دی”۔” راشٹریہ سہارا” نے بھی تشدد کے لیے مظاہرین کو ہی مورد الزام ٹھہرایااور پورے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف چل رہے احتجاج کو لا ء اینڈ آرڈر کےمسئلے سے جوڑ کر پیش کیا۔

یہی نہیں دینک جاگرن (19 دسمبر) کے شمارے میں ایک ایسی بھی بے بنیاد خبرشائع کی گئی، جس میں یہ کہا گیا کہ ان مظاہروں میں دہشت گرد ملوث ہیں ۔ خیال رہے کہ اس طرح کی افواہ بھگوا طاقتیں سوشل میڈیا پر خوب پھیلارہی ہیں اور شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف چل رہے ایک سیکولر احتجاج کو فرقہ ورانہ رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔ خود مرکزی وزیر مالیات نرملا سیرارمن بھی ان مظاہروں میں جہادیوں کے ہاتھ ہونے کی بات میڈیا سے کہہ چکی ہیں اور وزیر اعظم مودی نے مسلمانوں کا نام لیے بغیر کہا کہ ایک خاص لباس پہنے لوگ اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔

رپورٹنگ کی طرح ان اخبارات کے اداریے بھی غیر متوازن تھے ۔17 دسمبر کےاداریے میں “ہندوستان” کہتا ہے کہ “ہمارے پاس یہ ماننے کی کوئی وجہ نہیں ہے کی تشدد کی شروعات پولیس کی طرف سے کی گئی ہوگی”۔

اسےصحافتی ضابطوں کی گراوٹ نہیں کہیں تو اور کیا کہا جاِئے کہ مذکورہ اخبار یہ بات تسلیم کر چکا ہے کہ اگر احتجاج جامعہ اور اے ایم یو میں ہوا ہے ، اور پولیس اور مظاہرین آمنے سامنے آئے  ہیں ، تو ہر حال میں  تشدد کی شروعات مظاہرین کی طرف سے ہی ہوئی ہوگی ۔ کیا یہ اس بات کی طرف اشارہ نہیں کرتا ہے کہ قومی اخبارات ایک خاص تعلیمی ادارے، اور ملک کی اقلیتوں کےتئیں منفی روایہ  رکھتے ہیں؟

شہریت قانون کی مخالفت میں اٹھنے  والی آوازوں کو سننےکے لئے ہندی اخبارات تیار نہیں  نظر آئے۔ بغیر کسی دلیل پیش کیے ہوئے یہ کہا گیا کہ اس قانون میں کوئی خرابی نہیں ہے، اور جو لوگ اس کے خلاف احتجاج کر رہےہیں وہ سستی سیاست کر رہے ہیں۔ یہی نہیں سرکار سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ ان مظاہرین کے ساتھ سختی سے نمٹنا چاہیے۔ کچھ اسی طرح کی بات وزیر اعظم نریندرمودی کر چکے ہیں۔ حال میں انہوں نے اپنے مخالف کانگریس اور ان کےساتھیوں پر شہریت قانون پر بلا وجہ ہنگامہ کھڑا کرنے کا الزام لگایا تھا۔ تبھی تو ہندی اخبارات کے صفحات کو پڑھتے وقت وزیر اعظم کی سیاسی تقریر کی گونج سنا ئی پڑ رہی تھی۔

کچھ اسی انداز میں “راشٹریہ سہارا کا اداریہ (16 دسمبر)  نے بھی شہریت قانون کو متنازعہ ماننے سے انکار کر دیا اور اس نے لکھا کہ “ویسے شہریت قانون کی مخالفت جس بنیاد پر کی جا رہی ہے اس کا کوئی جواز نہیں ہے”۔ یہی نہیں انہوں نے  پولیس کی بھی تعریف میں غلط بیانی کی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ پولیس نےاحتجاج کے دوران “ایک بھی گولی” نہیں چلائی۔ حالانکہ یہ بات سامنے آچکی ہے کہ جامعہ کے ایک طلبہ پولیس کی گولی کا شکار  ہوا  ہے اور وہ زیرِعلاج ہے۔

ان اخباروں کے بر عکس “نو بھارت ٹائمز” کا اداریہ (20 دسمبر) زیادہ متوازن دکھائی دیا، جس نے حکومت پر  تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ “اس مسئلے پرجامعہ اور ملک کی  کئی یونیورسٹیوں میں رونما ہوئے غم اور غصے کو سرکار نے   سنجیدگی سے لیا ہوتا، تو حالات شاید اتنے خراب نہیں ہوتے”

مگر “دینک جاگرن” (16 دسمبر) نے اپنے اداریے میں سرکار سے اور سختی کرنے کا مطالبہ کیا۔ “اگر سر پسندوں (مظاہرین) کے خلاف سختی سے کاروائی ہوئی ہوتی تو یہ ممکن نہیں تھا کہ بنگال میں مسلسل دوسرے دن بھی تشدد دیکھنےکو ملتا ۔۔ چونکہ شہریت قانون مخالف تشدد نے دلّی میں بھی اپنے پیر جمالیے ہیں اس لیے مرکزی حکومت کو مزید احتیاط برتنے کے ساتھ سختی کا بھی مظاہرہ کرنا ہوگا”.

پورے ملک میں شہریت قانون کی زبردست مخالفت ہو رہی ہے۔ خود این ڈی اے کی حمایتی جماعتیں جیسے جنتا دل یونائیٹڈ، اسم گن پریشد اور اکالی دل نے بھی اس قانون پر حکومت کے ساتھ اپنے اعتراضات ظاہر کیے ہیں، مگر دینک جاگرن کے اداریے کو یہ بات مناسب نہیں لگتی کہ آخر احتجاج کیوں ہو رہے ہیں۔”بلا شبہ کسی کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ دلّی میں جامعہ ملیہ یا اُتر پردیش میں علی گڑھ مسلم یونورسٹی کے طلباء کو شہریت قانون کی مخالفت کرنے کی کیا ضرورت آن  پڑ ی ہے؟”

افسوس کی بات ہے کہ ہندی اخبارات نے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ آخر کیوں طلبہ اپنی پڑھائی چھوڑ کر دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں؟ اس کی دلچسپی اس میں بھی نہیں  نظر آتی  کہ ملک کا  نوجوان طبقہ مذکورہ قانون کی اتنی مخالفت کیوں کر  رہا  ہے؟ ان اخبارات نے ایک بار پھر عوام کو مایوس کیا اور ان کے بجائے پولیس اور سرکار کی ترجمانی کی۔ (بشکریہ، دعوت، ہفتہ روزہ، دلّی)

مضمون نگار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں

debatingissues@gmail.com

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply