• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مرنے کے بعد لٹکانے کی روایت غیر آئینی سہی مگر تاریخی تو ہے۔۔ غیور شاہ ترمذی

مرنے کے بعد لٹکانے کی روایت غیر آئینی سہی مگر تاریخی تو ہے۔۔ غیور شاہ ترمذی

جنرل مشرف کے خلاف کیس صرف اور صرف 3 نومبر 2007 ء کو ایمرجنسی نافذ کرنے اور عدالت عالیہ و عظمی کے معزز ججوں کو محصور کرنے پر تھا۔ اگر جج وقار سیٹھ پیرا 66 نہ لکھتے تو بھی فیصلہ تاریخی ہی رہتا مگر ان الفاظ کے ساتھ اپنے فیصلے کی اخلاقی اور قانونی گت بنوانے کا بندوبست کر دیا گیا ہے۔پھر عدلیہ کے خلاف ایک محاذ بھی کھڑا ہو گیا ہے۔ اتنا زیرک جج، اتنا بڑا فیصلہ اور ایسا متنازعہ پیرا؟۔کیوں ، کیا مقصد تھا؟۔ یہ سچ ہے کہ جنرل مشرف کی طرف سے عدلیہ کو محصور کیے جانے کی وجہ سے وکلاء اور ججوں میں جنرل مشرف کے لئے کافی ناپسندیدگی پائی جاتی ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی جنرل مشرف کے لئے منفی جذبات ہی رکھتی ہیں۔ خود وزیر اعظم عمران خان بھی سنہ 2007ء میں جنرل مشرف کو لٹکانے کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں۔ اسی لئے جب جنرل مشرف کے خلاف سنگین غداری کے الزامات کے تحت خصوصی عدالت میں سماعت شروع کی گئی تو خدشہ ظاہر کیا گیا کہ یہ کیس قانونی تقاضوں اور معیار کی بجائے انتقامی جذبے سے شروع ہوا، بعد میں اسی جذبے کے تحت سنا گیا اور اب لگتا ہے کہ اسی انتقامی جذبے سے اس کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کیس کے تفصیلی فیصلے کے پیراگراف نمبر 66 سے اس بات کو مزید تقویت ملی ہے۔

Oliver Cromwell

جسٹس وقار سیٹھ کے تحریر کیے ہوئے اس پیرا گراف نمبر 66 نے جو پینڈورا بکس کھول دیا ہے، اس میں تاریخ کے چند ایک واقعات کی یاد تازہ  کروا دی ہے۔ ہمارے سابقہ حاکم برطانیہ میں آج کل تو جمہوریت قائم ہے اور بادشاہت محض علامتی طور پر ہی موجود ہے مگر 17ویں صدی کے آغاز میں برطانیہ کے ایک فوجی جرنیل کو مارشل لاء لگانے کی سوجھی۔ یہ خواہش اس کے حق میں اتنی بری ثابت ہوئی کہ جنرل اولیور کرومویل( Oliver Cromwell) کی سنہ 1658ء میں فوتگی کے 3 سال بعد اس کی لاش نکال کر اسے پھانسی کی سزا دی گئی۔ اس پر بھی عوام اور حکمرانوں کا کلیجہ ٹھنڈا نہ ہوا تو اس کی لاش کو لندن کے چوک میں لٹکا دیا گیا۔ اس کا جسم گڑھے میں پھینک دیا گیا اور سر کاٹ کر کھوپڑی کھمبے پر لٹکا دی گئی۔ یاد رہے کہ جنرل اولیور کرومویل کے ساتھ اس کے 3 مزید ساتھیوں کی لاشوں کو بھی سزائے موت دی گئی تھی جن کے نام رابرٹ بلیک، جان براڈشا اور ہنری آئرٹن ہیں۔ برطانوی دوست کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ انگلینڈ میں پھر دوبارہ مارشل لاء نہیں لگا۔
برطانیہ میں جنرل اولیور کی لاش کو لٹکانے سے بہت پہلے بھی اسلامی حکومتوں میں لاشوں کو لٹکانے اور ان کی بے حرمتی کرنے کی لمبی تاریخ موجود ہے۔ محمد ابن ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہ مصر پر خلیفہ راشد امام علی علیہ السلام کی طرف سے گورنر تھے ۔ ان کے مخالفین نے انہیں ریشہ دوانیوں سے شکست دینے کے بعد گرفتار کر کے گدھے کی کھال میں سی کر زندہ جلا دیا تھا۔ اس واقعہ کو یاد کر کے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ ساری زندگی روتی رہیں اور بھائی کے قاتلوں پر لعنت کرتی رہیں۔
نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے کم و بیش 72 ساتھیوں کو کربلا میں بھوکا پیاسا شہید کرنے کے بعد یزیدی فوج نے عمر بن سعد بن ابی وقاص کی سربراہی میں لاشوں پر گھوڑے دوڑا دئیے تھے۔ اس کے علاوہ عبداللہ بن زیاد بن ابی سمیعہ نے امام حسین علیہ السلام کے قاصد حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام کو شہید کر کے ان کے جسد کو کوفہ شہر کے بازار میں لٹکا دیا جو ہفتوں تک وہاں لٹکتی رہی۔
بنو امیہ کے گورنر حجاج بن یوسف نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نواسے عبداللہ بن زبیر کو خانہ کعبہ کا محاصرہ کرنے کے بعد شکست دی۔ اس جنگ میں حجاج نے منجیقوں کی مدد سے خانہ کعبہ پر شدید سنگ باری کی۔ اس دوران ابن زبیر کی شہادت ہو گئی تو حجاج نے ان کی لاش کو تلاش کیا اور اسے حرم کے اندر سولی پر لٹکا دیا۔ کم و بیش 3 دن یہ لاش سولی پر لٹکتی رہی اور بعد میں ان کی 90 سالہ والدہ اسماء رضی اللہ عنہ کی درخواست پر اس لاش کو نیچے اتارا گیا۔
حجاج بن یوسف نے غیلان دمشقی اور تابعی سعید بن جبیر کا قتل بھی اسی طرح کرایا تھا۔ جب کوفہ میں محمد ابن اشعت ابن قیس کندی کی بغاوت کو ختم کیا گیا تو امام حسن علیہ السلام کے بیٹے حضرت حسن مثنی کی لاش کو حجاج بن یوسف کے حکم سے سولی پر لٹکا دیا گیا۔ محمد ابن اشعت قیس کندی بھی بعد میں مارا گیا اس کے سر کی بھی بے حرمتی کی گئی۔ ابن اشعت بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا بھانجا تھا۔

اسی طرح امام زین العابدین علیہ السلام کے بیٹے زید بن علی شہید ہوئے تو کوفہ کے اموی گورنر نے ان کی لاش سولی پر لٹکا دی جو پورا سال سولی پر لٹکتی رہی زید کے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ بھی اسی طرح کا سلوک ہوا۔ یہ زید وہی ہیں جن کو امام ماننے والے یمن کے حوثی ہیں جو حضرت ابو حنیفہ کی فقہ پر عمل کرتے ہیں اور امام حسین علیہ السلام کی مجلس اور عزاداری بھی کرتے ہیں۔ حوثی اس دور میں بھی سعودی اتحادی افواج کے محاصرہ، و بمباری کا پچھلے 3/4 سالوں سے شکار ہیں۔ عالمی طاقتوں کی اس ظلم پر خاموشی کے علاؤہ یمنی مظلومین تمام مسلم ممالک کی بےحسی اور خاموشی کا بھی شکار ہیں۔

حلاج بن منصور

بنو امیہ کے مخالفین نے جب ان کے خلاف کارروائی شروع کی تو ابومسلم خراسانی کی قیادت میں بنو عباس نے ان پر فتح حاصل کی۔ اس موقع پر کئی اموی بادشاہوں کی لاشوں کو نکال کر سولی پر لٹکا دیا گیا۔ ابوالعباس سفاح نے تمام بنو امیہ اور ان کی اولاد کو قتل کر دیا سوائے ان کے جو کہ دودھ پیتے بچے تھے یا جو اندلس بھاگ گئے، باقی سب کا صفایا کرا دیا، یوں اس کا نام ھی قاتل (السفاح The Assassin ) پڑ گیا۔ اس نے بنو امیہ کی قبریں کھود کر مردے نکالنے کا حکم دیا، یزید اول کی قبر کو کھودا گیا تو اس میں بس راکھ ھی راکھ تھی۔ عبدالملک کی قبر کھودی گئی تو اس کا بدن کسی حد تک صحیح  تھا ۔ اس کی لاش کو نکال کر پہلے کوڑے مارے گئے، پھر سولی دی گئی اور پھر جلایا گیا اور اس کی راکھ کو ہوا میں بکھیر دیا گیا۔ اس کے علاؤہ بھی بہت سے اموی حکمرانوں اور ان کے ساتھیوں کی لاشوں پر گھوڑے بھی دوڑائے گئے۔ اسی طرح ہشام اول کی لاش کو بھی لٹکایا گیا۔

مشہور صوفی حسین بن منصور الحلاج پر پہلے کفر کا فتوی لگایا گیا۔ الحلاج کے ہاتھ پاؤں کاٹے گئے، پھر اس کی لاش کو پھانسی دی گئی, لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کیے گئے، ان کو جلایا گیا اور پھر راکھ دریائے دجلہ میں بہا دی گئی۔ ہندوستان میں صوفی سرمد شہید کا اورنگ زیب عالمگیر کے ہاتھوں قتل مذہب کے پردے میں ایک سیاسی قتل تھا۔ سرمد شہید کے قتل کی اصل وجہ ان کی اورنگ زیب عالمگیر کے مخالف اور صوفی منش بھائی شہزادہ دارا شکوہ سے مصاحبت تھی لیکن الزام کفر اور زندقہ کا لگا۔ اورنگ زیب نے بھی سرمد کی گردن کٹوا کر لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کروائے، ان کو جلایا اور پھر راکھ دریا میں بہا دی۔۔جنرل مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت چلنے والے اس مقدمہ۔ کے تمام تر فیصلے میں پیرا66 کو لکھنا اوپر بیان کئے گئے ان جیسے تاریخی واقعات کی یاد تو کرواتا ہے مگر آج کی مہذب دنیا میں کوئی بھی اس کی حمایت نہیں کر سکتا۔ وہ سزا جو قانون کے دائرے سے نکلتی ہو، ناقابل قبول ہے، وہ فیصلہ جو قانون کے خلاف ہو، نامنظور ہے۔ اس فیصلہ اور خصوصاً پیرا 66 کی وجہ سے ہوا یوں ہے کہ اس سزا نے لوگوں کی ساری توجہ جنرل مشرف سے ہٹا کر ججوں کی طرف مبذول کروا دی ہے۔ Great High TREASON” کا ترجمہ آئین شکنی, آئینی انحراف یا آئینی خلاف ورزی ہوگا اور “غداری” کا لفظ مکمل غلط ہے۔ جس معاملے پر سزائے موت رکھی گئی ہے وہ ہے آئین توڑنا۔ جب کیس صرف اور صرف 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی نافذ کرنے اور عالیہ عدالت کے ججوں کو محصور کرنے پر تھا تو ایسی صورت میں اس کو اولاََ مساویانہ سزا یعنی پنشن کی بندش اور تمام تر اثاثہ جات کی ضبطی کا حکم دیا جاسکتا تھا۔ اس طرح کی سزا اور پیرا نمبر 66 کا کیا مقصد تھا اور کیا وہ مقصد حاصل ہوا؟۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کوئی یہ نہیں کہتا کہ جنرل مشرف نے ملکی راز کسی کو دینے جیسی غداری کی مگر جنرل مشرف نے آئینی خلاف ورزی ضرور کی۔ جنرل مشرف کو سزا ملنی چاہئے مگر اس جرم کی جو اس نے کیا ہے۔ ممکن ہے کہ جنرل مشرف سے نفرت کرنے والے بہت سے قانون دان اوپر بیان کی گئی چند مثالوں جیسی کسی تاریخی مثال سے اس سزا کو جسٹیفائی کرتے ہوئے پائے جائیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ پیرا 66 طالبانی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر اپ کو کوئی اولیور کرامویل کی مثال دے تو پہلے ڈرا تاریخ اور اس سماج کا مطالعہ کر لیجئیے گا جس کی اینڈ پراڈکٹ کرامویل کی پھانسی تھی۔ ویسے یاد رہے اس کا مجسمہ ابھی بھی برطانوی پارلیمنٹ کے پاس ہی موجود ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply