پی ٹی آئی کا مستقبل۔۔رعایت اللہ فاروقی

حال ہی میں راندۂ درگاہ کی گئی پی ٹی آئی حکومت کے حوالے سے پہلی بات یہ ذہن میں رہنی چاہئے کہ یہ ایک کٹھ پتلی حکومت تھی۔ اسے برسر اقتدار لانے کے لئے منتخب نواز حکومت کے خلاف جو کھیل کھیلا گیا وہ پس پردہ نہیں بلکہ دن دہاڑے تھا۔
بابا رحمتے اور محکمہ زراعت نے جو کیا وہ بھی سب نے دیکھا اور 2018 کے انتخابی نتائج تبدیل کرنے کے لئے جو ہوا وہ بھی سب نے دیکھا۔ اس پپٹ حکومت کے لئے “مثبت رپورٹنگ” کی فرمائش بھی کھلے عام ہوئی اور ون پیج کی قوالیاں بھی ہم سب نے دن رات سنیں۔
25 سال قبل جنرل حمید گل نے جو “شجر کاری” کی تھی اس پودے کو پانی کس کس نے دیا وہ بھی عیاں ہے اور اب یہ حقیقت بھی اجلے دن میں واضح ہے کہ بوئی گئی فصل بالآخر جنرل باجوہ کو ہی کاٹنی پڑی۔
پالتو بلی جتنی بھی محبوب ہو، اس کی میاؤں مالکان کو زہر ہی لگتی ہے۔ پچھلے سال جولائی میں خان سے کہا گیا کہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض کی جگہ نیا ڈی جی تعینات کیا جائے۔ خان نے یہ بات نہ مانی۔ مانتے بھی کیسے ؟ ان کی دکان چل ہی ان کے دم سے رہی تھی۔
جو یہ دکان چلانے میں مددگار تھے “نفع” میں انہیں بھی تو بھاری حصہ ملنا تھا۔ وزیر اعظم کو انکار کا اختیار حاصل ہے مگر پپٹ کو یہ اختیار نہیں ہوتا اور یہیں سے تنازع شروع ہوا تھا۔ پھر اکتوبر میں فوج نے اعلان کردیا کہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو ہٹا کر جنرل ندیم کو ڈی جی آئی ایس آئی بنا دیا گیا ہے مگر خان نے اس میں رکاوٹ ڈال دی۔
اس سے معاملہ مزید شدت اختیار کرگیا بالآخر 20 نومبر 2021 کو ڈی جی آئی ایس آئی کی تبدیلی ممکن ہوئی۔ اب اگر غور کریں تو تب تک روس نے یوکرین پر حملے کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا تھا۔ کم از کم گراؤنڈ پر ایسی کوئی سرگرمی نہیں تھی اور نہ ہی خان نے ماسکو جانے کا کوئی پلان بنایا تھا۔ جبکہ ان کو نکالنے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ 20 نومبر کے بعد جو سرگرمیاں ہوئیں ان میں سے کچھ تو صاف نظر آرہی تھیں جبکہ کچھ سرگرمیاں وہ بھی تھیں جنہیں عوام سے مخفی رکھا جا رہا تھا۔
عمران خان آخر تک یہ جرات نہیں کرسکے کہ اصل بات اپنے ورکرز کو بتا دیتے۔ انہیں نکال کوئی اور رہا تھا اور وہ الزام کسی اور کے سر دھر رہے تھے اور یہی ان کی سب سے بدترین غلطی تھی۔ مگر وہ سچ کہہ بھی تو نہیں سکتے تھے کیونکہ اگر یہ نومبر 2021 کے بعد والے سچ بولتے تو اگلے 2014ء تا نومبر 2021ء والے سچ کہہ کر ان کی اوقات بتا دیتے۔
خان امریکہ پر الزامات اس لئے لگا رہے ہیں کہ ساڑھے تین سال کی حکمرانی میں وہ ایک بھی عوامی مفاد کا کام نہیں کرسکے۔ الٹا عام آدمی کے لئے زندگی مشکل بنا دی ہے۔ آپ صرف ایک چیز سے اندازہ لگا لیجئے۔ نواز شریف دور میں کوکنگ آئل 150 روپے کلو تھا۔ جو اب 500 روپے کلو ہوچکا۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے ایک ماہ کے دوران خان نے جتنی تقاریر کی ہیں ان میں وہ اپنی کوئی کارکردگی پیش نہیں کرسکے۔
ان کا سارا زور امریکی سازش پر تھا جس کی بنیاد جھوٹ کے ایک پلندے پر رکھی گئی۔ وہ عوام کے لئے کچھ کرنے کے بجائے ساڑھے تین سال شریف خاندان کو ہی قابو کرنے میں مگن رہے۔ گویا عوامی فلاح کے بجائے ذاتی انتقام ہی ان کی ترجیح تھا۔ اب چند ماہ بعد الیکشن ہونے ہیں۔ ان حالات میں خان کے پاس عوام کو دکھانے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ سو انہوں نے یہ امریکی سازش والا ڈرامہ رچا لیا ہے لیکن یہ ڈرامہ گیلپ سروے میں 64 فیصد لوگ مسترد کرچکے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ فوج یہ بات بالکل تسلیم نہیں کرتی کہ امریکہ نے خان کے خلاف کوئی سازش کی ہے۔ فوج اس حوالے سے خان کے الزامات کو مکمل طور پر بوگس مانتی ہے۔ یوتھیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں خان نے گالیوں کے سوا کچھ بھی نہیں سکھایا۔
سیاسی شعور نہ تو خان کے پاس تھا اور نہ ہی وہ اپنے یوتھیوں کو دے سکے۔ اگر یہ شعور ہوتا تو وہ کبھی نہ بھولتے کہ یہ خارجہ اور دفاعی امور ہی ہیں جن پر امریکہ اور برطانیہ کی طرح پاکستان میں بھی اسٹیبلشمنٹ کا ہی کنٹرول ہے۔
ذرا غور کیجئے، امریکہ میں بھی بحران اس لئے پیدا ہوا تھا کہ ٹرمپ امریکہ کی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرکے روس کو دوست ملک قرار دے رہا تھا جو وہاں کی اسٹیبلشمنٹ کو قبول نہ تھا۔ ٹرمپ نے خلیج میں بھی امریکی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی ریورس کرنے کی کوشش کی تھی اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کو وہ بھی قبول نہ تھی۔ چنانچہ اب بائیڈن واپس پرانی حکمت عملی کی طرف گامزن ہے۔ مگر سب سے قابل غور بات یہ ہے کہ عمران خان نے پاکستان میں امریکی مفاد کے خلاف کچھ کیا بھی نہیں۔
وہ تو ٹرمپ کے دور میں امریکہ سے اس دعوے کے ساتھ لوٹے تھے کہ ایک بار پھر ورلڈکپ جیت لایا ہوں۔ یہ ورلڈ کپ تھا کیا ؟ فقط ٹرمپ کی خوشنودی۔ وہ ٹرمپ کے بعد جو بائیڈن کی خوشنودی کو بھی اس حد تک بے قرار رہے کہ دن رات بائیڈن کے فون کا انتظار کرتے رہے اور جھنجلا کر فون نہ آنے پر واویلا بھی مچا دیتے تھے۔
اب چونکہ بائیڈن نے فون نہیں کیا تو موصوف نے انہیں سازشی قرار دے دیا۔ سوال یہ ہے کہ آخر امریکہ خان کے خلاف سازش کرتا بھی کس جرم میں ؟ خان نے امریکہ کے خلاف کیا ہے ؟ اگر کسی غیر ملکی سازش کا امکان بنتا بھی تھا تو وہ تو چین کی طرف سے بنتا تھا، جس کے سی پیک کو خان نے فل اسٹاپ لگا کر امریکہ کی خواہش پوری کی تھی۔ اس سے بڑی مضحکہ خیز بات اور کیا ہوگی کہ کام تو آپ چینی مفادات کے خلاف کریں اور سازش امریکہ کرے۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کو خان نے اتنا بڑا نقصان پہنچا دیا ہے کہ آج چین، سعودی عرب اور امریکہ تینوں ہی کے ساتھ پاکستان کے تعلقات متاثر ہیں۔ اوپر سے بھارت جیسے دشمن کی تعریفیں کرکے اسٹیبلشمنٹ کے دفاعی تصور کو بھی تباہ کرنے کی سوچی سمجھی کوشش کردی گئی ہے۔
خان تو درجنوں سہاروں کے باوجود 2018ء کے الیکشن میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہ کر پا رہے تھے۔ انہیں سادہ اکثریت دلوانے کے لئے بھی آر ٹی ایس بٹھا کر انتخابی نتائج تبدیل کرنے پڑے تھے۔ تو اب اتنی بدترین پر فارمنس کے بعد یہ کہاں سے الیکشن جیت سکتے ہیں ؟ لیکن اگر بالفرض کوئی چانس بنے گا بھی تو خارجہ اور دفاعی محاذ پر جو بلنڈرز انہوں نے کر دیئے ہیں ان کے ہوتے اب انہیں اقتدار میں آنے کون دے گا ؟ اگلے الیکشن میں عمران خان حصہ ہی نہیں لے سکیں گے۔ نظر تو یہ آ رہا ہے کہ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ ان کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔
شہباز شریف پاکستان کے نئے وزیراعظم بننے جا رہے ہیں۔ وہی شہباز شریف جن پر منی لانڈرنگ کا الزام حال ہی میں برطانوی ادارے جھوٹ کا پلندہ قرار دے چکے ہیں۔ ان کے پچھلے 30 سال سے فوج کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں، لہٰذا انہیں فوج کی بھی حمایت حاصل ہوگی۔ عمران خان کے دور میں پاکستان کو عالمی تعلقات اور معیشت کے لحاظ سے جو نقصان ہوا ہے اس سے ملک کو باہر لانا نئی حکومت کی پہلی ترجیح ہوگی۔
چین اور سعودی عرب پاکستان کے اسٹریٹیجک پارٹنر ہیں اور یہ دونوں پاکستان سے خان کی پالیسیوں کی وجہ سے ناراض ہیں۔ اب یہ تعلقات تیزی سے ٹھیک ہوں گے۔ پی ٹی آئی ایجی ٹیشن کی کوشش کرے گی مگر اس کے بچے کھچے لوگ بھی خان کا ساتھ چھوڑ جائیں گے۔ الیکٹبلز پاگل نہیں کہ اس جہاز میں بیٹھے رہیں جس کے کپتان کا دماغی توازن ہی مشکوک ہے اور اس جہاز کا رخ ہے بھی اسٹیبلشمنٹ ٹاور کی جانب۔
اگلے چند ماہ انتخابی اصلاحات کے ہیں۔ نیب کے اس منہ پر بھی ٹیپ چپکا دی جائے گی جو سر سے پیر تک چوما چاٹی کا شوقین ہے۔ اس کے بعد ملک نئے انتخابات کی جانب جائے گا۔ اس درمیانی عرصے میں ہی پی ٹی آئی کا خیمہ خالی ہوتا نظر آئے گا۔
پیچھے شاید بس خان، مراد سعید اور چند یوتھیے بچیں گے۔ مگر ان کے پاس بھی پی ٹی آئی نہ ہوگی۔ شاہ محمود قریشی کو یقین ہے کہ خان کی ممکنہ نا اہلی کی صورت پارٹی ان کی جھولی میں آگرے گی۔
مگر شاہ محمود سے یوتھیوں کا کیا لینا دینا ؟ وہ توبس ورلڈکپ 92 کی حسین یادوں کے ساتھ رہ جائیں گے۔ اور آنے والے زمانوں میں اپنی آل کو بتایا کریں گے کہ ایک دور ایسا بھی تھا جب ان کے بھی پسینے گلاب ہوا کرتے تھے !

Facebook Comments

رعایت اللہ فاروقی
محترم رعایت اللہ فاروقی معروف تجزیہ نگار اور کالم نگار ہیں۔ آپ سوشل میڈیا کے ٹاپ ٹین بلاگرز میں سے ہیں۔ تحریر کے زریعے نوجوان نسل کی اصلاح کا جذبہ آپکی تحاریر کو مزید دلچسپ بنا دیتا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply