اندھیروں میں روشنی کی نوید۔۔گوتم حیات

اس سال بھی دل دہلا دینے والی خبروں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ہندوستان کے زیرِ تسلط کشمیر سے لے کر پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں تک انسانوں کو مسلک، قومیت اور زبان کی بنیاد پر بےدردی سے نشانہ بنایا جا رہا ہے، یہ سب ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

مچھ میں قتل بلکہ ذبح کیے جانے والے محنت کش مزدور کسی مقبوضہ علاقے میں ظالموں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے فورسس کی اندھی گولیوں کا نشانہ نہیں بنے، یہ تو دو وقت کی روٹی کی خاطر اپنے کنبے کی پرورش کے لیے ایک ایسی تکلیف دہ  اُجرت میں مصروف تھے، جس کے بارے میں ہم شہروں میں رہنے والے لوگ کم ہی توجہ دیتے ہیں۔ “کانوں” میں محنت مزدوری کرنے والے بہت سے مزدوروں کی زندگیاں تو پہلے ہی مصائب کی دلدل میں دھنسی ہوئی ہوتی ہیں۔ ان معصوموں کے ساتھ جس طرح کا سلوک قاتلوں نے کیا ہے اس پر ہر   آنکھ پُرنم ہے۔ آج قاتلوں کے اس اقدام نے “اے پی ایس پشاور” کے افسوسناک سانحہ کو پھر سے زندہ کر دیا ہے۔ قاتل ابھی بھی محفوظ ہیں اور ہم انسان ان قاتلوں کے رحم و کرم پر اپنی زندگیوں کی بھیک مانگتے ہوئے۔۔یہ منظر نامہ تو جنگ زدہ علاقوں کا ہوا کرتا ہے۔ کیا ہم ایک جنگ زدہ علاقے کے محصور شہری ہیں جو ہمیں یوں بار بار نشانہ بنایا جاتا ہے؟۔

ملک بھر میں مزدوروں کے قتل کے خلاف پُرامن احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔۔۔ بدنصیب مزدوروں کے یہ لواحقین سوگوار چہرے  لے کر کہاں جائیں۔ کیا اس ملک یا اس دنیا کی کوئی عدالت اُن معصوم مزدوروں کو زندہ کر کے ان لواحقین کے مرجھائے ہوئے افسردہ چہروں پر خوشیاں بکھیر سکتی ہے۔۔۔؟ کاش۔
کون ہیں وہ قاتل ہاتھ جو آج بھی پوشیدہ ہیں۔ کیا یہ یوں ہی پوشیدہ رہیں گے؟۔ اس وقت مجھے ثناء یاد آرہی ہے اور تیرھویں عالمی اردو کانفرنس کا وہ سیشن جو “اردو افسانے کی ایک صدی” کے عنوان سے منعقد ہوا تھا۔

میڈم نوین :تاریک راہوں میں مزاحمت کی لوء۔۔گوتم حیات
گزشتہ برس تیرھویں عالمی اردو کانفرنس میں “اردو افسانے کی ایک صدی” کے عنوان پر منعقد ہونے والے سیشن میں محترم اخلاق احمد نے اپنے مضمون “اردو افسانے کے سماجی و ثقافتی سروکار” پر نہایت ہی عمدہ مضمون پڑھا تھا۔ میں اس مضمون کے منتخب پیراگراف یہاں نقل کر رہا ہوں اور اس کے بعد میں محترمہ ثنا کے بارے میں پڑھنے والوں کو آگاہ کروں گا۔ یہاں کچھ لوگوں کو اس بات کی شکایت بھی ہو گی کہ ثنا اور اخلاق احمد کے مضمون کو کیوں یکجا کیا جا ریا ہے، تو ایسے لوگوں کو میرا جواب یہ ہے کہ جو کچھ اخلاق احمد نے اپنے مضمون میں بیان کیا ہے ان کی عملی تصویر ثنا کی شکل میں ہمارے سماج میں موجود ہے، آخر ہم کب تک ان زمینی حقائق سے آنکھیں چراتے رہیں گے۔؟
اخلاق احمد نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
“افسانہ وہی ہے دلربا اور ارتقاء پزیر۔۔۔
انسان بھی وہی ہے پیچیدہ اور دلچسپ۔۔۔ لیکن سماج اور ثقافت ہیں کہ مسلسل تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے گھوڑے پر سوار اک نئی وضع کی گلوبل ثقافت ملکوں ملکوں اپنا جھنڈا گاڑتی جا رہی ہے۔ نئی اصطلاحات، نئے طرزِ حیات صرف شہروں میں ہی نہیں دیہات میں بھی عام ہیں۔ آپ کو یقین نہ آئے تو اپنے نو عمر بچوں سے ہی پوچھ لیجیے۔ لباس، کھانے، کہانیاں، موسیقی، مصوری، شاعری، ترجمے سب سے آگہی کے اور براہِ راست تعلق قائم کرنے کے ہزاروں، لاکھوں نئے در کھل چکے ہیں۔ لگتا ہے کہ علاقائی ثقافتیں پسپا ہوتی جارہی ہیں اور عالمگیر ثقافت اونٹ کی طرح خیمے پر قبضہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ سماج کا معاملہ اور بھی پیچیدہ ہے، میں پہلے بھی کسی جگہ یہ عرض کر چکا ہوں کہ کچھ کام ہمارے افسانہ نگاروں کے لیے بہت دشوار رہے ہیں، دشوار ان معنوں ميں کہ معاشرتی رشتوں کے Taboos جنس، مذہب، فوج، سیاست اور سیاسی رہنما، مولوی، علیحدگی پسند تحریکیں، ریاستی مظالم، سچّی تاریخ۔۔۔ ایک نیا سماج ہے جس نے نئے خوف تخلیق کیے ہیں۔

مغرب کا سامراج اور ہمارے خطّے کی انتہا پسندی جو پہلے ایک دوسرے کے خلاف صف آراء دکھائی دیتے تھے اب ایک پوشیدہ مصالحت کی جانب بڑھتے جا رہے ہیں۔ کیسی ناقابلِ یقین بات ہے کہ اس نئے سماج میں دشمن کا دشمن بھی ہمارا دوست نہیں رہا۔ اس نئے سماج کو محض ٹیکنالوجی سے آراستہ جدید اور ترقی یافتہ سماج سمجھنے کی غلطی نہ کیجیے۔ یہ صدیوں پرانے سماج سے زیادہ سفاک، زیادہ وحشی، زیادہ ہلاکت خیز ہے۔ یہ بچیوں کی آبروریزی کا سماج ہے، یہ مذہب کے یا فرقے کے نام پر کاٹ ڈالنے کا سماج ہے، یہ دھماکوں سے انگنت جیتے جاگتے انسانوں کے چیتھڑے اڑا دینے کا سماج ہے، یہ وہی سماج ہے جہاں پر سینکڑوں لوگ گم ہو جاتے ہیں، اربوں کے فنڈز چرا لیے اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو بھی جہالت کے فروغ کے لیے بخوبی استعمال کر لیا جاتا ہے۔”

مندرجہ بالا خیالات ایک ایسی ادبی شخصیت کے ہیں جو ہمارے سماج کی رگ رگ سے واقف ہیں، بہت سوں کو ان کے یہ خیالات گراں گزرے ہوں گے لیکن اگر ہم دیانت داری کا مظاہرہ کریں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یہ خیالات محض لفاظی نہیں ہیں بلکہ یہ وہ حقائق ہیں جن سے ہمارے ہم وطن گزرے ہیں اور گزر رہے ہیں۔ ہر نیا آنے والا دن ان کی اذیتوں کو بڑھا کر رخصت ہو رہا ہے۔۔۔

ہمارے یہ ہم وطن گوشت پوست کے بنے ہوئے اجسام ہیں، جذبات و احساسات سے ماوراء کوئی روبوٹ نہیں کہ ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے جائیں اور یہ اُف تک نہ کریں۔۔ ان ہی بدنصیب ہم وطنوں میں سے ایک ثناء بھی ہیں جو ظلم و جبر کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند جدوجہد میں مصروف ہیں۔

گزشتہ ماہ آرٹس کونسل میں “تیرھویں عالمی اردو کانفرنس” کے موقع پر ثناء سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ ان سے یہ میری پہلی باضابطہ ملاقات تھی۔ ثناء کی بےلاگ، تفصیلی گفتگو سنتے ہوئے مجھے محسوس ہی نہیں ہوا کہ میں پہلی بار ان سے مل رہا ہوں۔۔۔ اتنی اپنائیت اور خلوص کے ساتھ وہ ہمیں اپنا سماجی، سیاسی و ثقافتی منظرنامہ بتا رہیں تھیں، اگرچہ اس منظرنامے میں انگنت معصوم لوگوں کا خون بھی شامل تھا، بہت ہی سفاک منظرنامہ جس میں مذہب و سیاست کے پیش رو ایک دوسرے کو نیست و نابود کرنے کے درپے تھے، بلکہ ابھی بھی ہیں۔۔۔نجیب الله کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کی آنکھوں میں نمی میں باآسانی دیکھ سکتا تھا، وہ نجیب اللہ کا ذکر کر رہیں تھیں اور اس دوران مجھے میڈم زاہدہ حنا کی وہ تمام تحریریں یاد آرہی تھیں جو افغانستان اور بطور خاص ان قبائلی علاقوں کے بارے میں تھیں جہاں پر جہاد و دہشتگردی کی فصل بوئی گئی اور ہمارے ہزاروں ہم وطن قتل ہوئے، بہت سے لوگ محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش میں ہجرت کی صعوبتیں جھیلتے ہوئے اپنی آبائی زمینوں سے محروم ہوئے۔۔۔ ثناء کی دل دہلا دینے والی تلخ، کڑوی کسیلی باتیں سنتے ہوئے مجھے یہی لگا کہ “رقص بسمل ہے” کے کردار زندہ ہو گئے ہیں۔۔۔ ثناء کو کابل اور پشاور دونوں ہی شہر محبوب ہیں، اسی لیے جب وہ اپنے لوگوں کے بارے میں گفتگو کر رہی تھی تو موجودہ سرحدی لکیریں اس کے لیے بےمعنی تھیں اور میرے لیے بھی یہ فرق کرنا مشکل ہو گیا تھا کہ کہاں سے پاکستان شروع ہوتا ہے اور کہاں سے افغانستان کی سرزمین۔۔۔ کہ دونوں ہی شہروں میں جو عذاب لوگوں کے حصے میں آئے وہ ایک سے تھے۔۔۔ بہت سے کابل واپسی کی چاہ میں پشاور میں دم توڑ گئے اور بہت سے اپنی آنکھوں میں پشاور واپسی کی امید کے سپنے دیکھتے ہوئے کابل کی گمنام قبروں میں آسودہ خاک ہوئے۔۔میڈم زاہدہ حنا اپنے شاہکار افسانے “رقصِ مقابر” میں لکھتی ہیں کہ
“میلوں میل کا دائرہ رکھنے والے پہاڑوں کے پیالے میں انسان جل رہے ہیں، بستیاں پگھل رہی ہیں۔ نغمہ منگل کی آواز نوحہ کر رہی ہے۔ کابل تو تباہ نہیں ہوا۔ کابل میں کہیں بھی رہوں، لوٹ کر تیری گلیوں میں آؤں گی۔ ببو جان تم پشاور کے کسی قبرستان کی گمنام قبر میں دفن رہو گی۔ تمہارے لیے کوئی بی بی مبارکہ نہیں آئے گی جو تمہاری ہڈیاں کابل لے جائے اور اسے وہاں کی زمین میں دفن کرے۔ خاموش ہو جاؤ نغمہ منگل۔۔۔ تمہیں بھی معلوم ہے اور ہمیں بھی کہ کابل تباہ ہو گیا ہے اور اس کے لاکھوں عشاق اب کبھی لوٹ کر اس کی گلیوں کو نہ جا سکیں گے”

پانیوں پر لکھے ہوئے نام والا جان کیٹس۔۔سلمیٰ اعوان
ثناء اپنی محروم، بدحال عوام، جس کو ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت برقعے، داڑھی اور تنگ نظر جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈبو دیا گیا ہے کے لیے ہمہ وقت فکرمند رہتی ہیں۔۔۔ اس بدترین صورتحال سے اپنی عوام کو نکالنے کے لیے وہ مزاحمت کے راستے پر کاربند ہیں اور ایک ایسے انسان دوست معاشرے کو تشکیل دینے کی خواہاں ہیں جہاں پر لوگوں کو ان کے ظاہری لباس، برقعوں، داڑھیوں اور مذہبی عقائد کی عینک سے نہ جانچا جاتا ہو۔ اس کے ساتھ ہی وہ اس عالمگیریت کے دور میں علاقائی شناخت کا جھنڈا سربلند کیے ہوئے ہے، وہ اپنی صدیوں پرانی شناخت، اپنی ثقافت کو کسی بھی قیمت پر چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وہ تمام تر مصائب کے باوجود اپنی زمین  سے وابستہ رہ کر ہمارے سماج کے ان بےضمیر مردوں اور عورتوں کو بھی آئینہ دکھا رہی ہیں جو مصلحت پسندی کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے یورپ اور امریکہ میں آسائشوں بھری زندگی گزارتے ہوئے کسی بھی اہم مسئلے پر محض ٹویئٹ کر دینا ہی اہم سمجھتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ثناء جیسی باہمت خواتین کسی بھی معاشرے کے لیے اثاثہ ہیں، ان کی جدوجہد اس جلتی ہوئی شمع کی مانند ہوتی ہے جو خود جل کر اندھیروں میں روشنی کی نوید سناتی ہیں  اور تاریکیوں میں بھٹکتے ہوئے قافلوں کو منزلِ مقصود تک پہنچانے کے لیے دشوار سے دشوار گزار چٹانوں سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھتی ہیں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply