یہ جنگ نہیں ہڑبونگ تھی ۔۔۔امجد جہانگیر

ہم لوگ جھوٹ بولنے میں کس قدر ماہر ہیں اس بات کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا، جب مجھے الطاف گوہر اور ایئر مارشل ذو الفقار علی خان کے انٹرویوز پڑھنے کا موقع ملا۔ کیونکہ ہمیں بچپن ہی سے فوج کی بہادری‘ حب الوطنی اور شجاعت کی لاتعداد کہانیاں سنائی گئیں تھیں۔ ہمارے نصاب میں 65 ؁ء کی جنگ‘ ٹینکوں کی لڑائی اور فوجی جوانوں کی بہادری اور شجاعت کی ایسی ایسی کہانیاں شامل تھیں کہ جن سے میرے دل و دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی کہ ہماری فوج تو شکست کے نام سے واقف تک نہیں اور 71؁ء کی شکست بھی اپنوں کی غداری اور سیاستدانوں کی ادھر ہم اُدھر تم کے باعث ہوئی ،ورنہ ہم تو دہلی تک کا علاقہ 65 ؁ء میں ویسے ہی فتح کر چکے تھے۔ اور ہر بار فوج کا اقتدار پر قابض ہونا ان غداروں کو سبق سکھانے کے لیے ضروری تھا ورنہ ملک جس مشکل دور سے گزر رہا تھا اور سیاستدان اس کو جس بے دردی سے نوچ رہے تھے اس سے ملک تباہ و برباد ہو جاتا اور ملک ٹوٹ سکتا تھا۔ لیکن افسوس حقائق کچھ اور تھے۔ جن کی پردہ داری کی جارہی تھی یا پھر میں ہی لاعلم تھا مجھے ہی دیر سے علم ہوا۔

لیکن جب مجھے ان باتوں کا علم ہوا اور میں نے اس کا تذکرہ اپنے حلقہ احباب میں کیا تو انہوں نے مجھے جن القابات سے نوازا وہ آپ بخوبی جانتے ہیں۔ ان کے نزدیک سب کچھ ملک کے وسیع تر مفاد میں ہی کیا گیا اور اس وقت بھی جو کچھ ہو رہا ہے جسے کم از کم میں صحیح نہیں سمجھتا ملک کے وسیع تر مفاد میں ہو رہا ہے اور یہ ہماری خفیہ پالیسی کا حصہ ہے۔ جس کا نتیجہ خدا نہ کرے 71؁ء کی خفیہ پالیسی جیسا نہ نکلے۔اب آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف جس کی خاطر یہ تمہید باندھی گئی۔ 65 ؁ء کی جنگ کے متعلق ہم کیا جانتے ہیں اوراصل میں کیا ہوا تھا آئیں الطاف گوہر اور ایئر مارشل ذوالفقار علی خان کی زبانی پڑھتے ہیں جو انہوں نے جاوید چوہدری کو اپنے انٹرویوز میں بتایا ،جو      ’گئے دنوں کے سورج“ کے ٹائٹل کے ساتھ چھپ چکے ہیں۔ جمہوریت کا یہی حسن ہے کہ اختلاف رائے کی آزادی سب کو یکسر میسر ہوتی ہے۔ اگر کسی کو تحریر سے اختلاف ہے تو ہم اصلاح کے لیے حاضر ہیں مگر دلیل کے ساتھ۔

فروری 1965 ؁ء میں ذو الفقار علی بھٹو جو اس وقت وزیر خارجہ تھے، سیکریٹری خارجہ عزیز احمد‘ جنرل موسیٰ اور آئی ایس آئی نے کابینہ انٹیلی جینس کمیٹی میں ”آپریشن جبرالٹر“ کا منصوبہ پیش کیا جسے سن کر ایوب خان نے سب کو ڈانٹ دیا اور کہا میں نے تم کو صرف کشمیر پر نظر رکھنے اور بھارت پر دباؤ ڈالنے کو کہا تھا لیکن تم نے جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اس کے بعد ایوب خان روس چلے گئے تو انہوں نے پیچھے جنگ چھیڑ دی۔ایوب خان نے واپس آکر جنگ بندی کرا دی لیکن اس دوران پورے ملک میں یہ پروپیگنڈہ ہو چکا تھا کہ پاکستانی افواج نے بھارت کو مار مار کر بھگا دیا ہے اور یہ بھارت پر حملہ کرنے کا بہترین وقت ہے۔ مئی 1965؁ء میں ایوب خان کو مری لے گئے اور وہاں جنرل اختر ملک نے ایوب خان کو ”آپریشن جبرالٹر“ کا پلان سمجھایا اور انہوں نے مقبوضہ کشمیر اور اکھنور پر حملے کی اجازت دے دی۔ اس دوران ایوب خان کو سوات میں چھٹیاں گزارنے کا مشورہ دیا گیا تاکہ بھارت کو ان کی سازش کا علم نہ ہو۔بھٹو اور سیکریٹری خارجہ عزیز احمد ایوب خان کو اس بات کی یقین دہانی کراتے رہے کہ بھارت اس آپریشن کی وجہ سے بین الاقوامی بارڈر کراس کر کے پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا لیکن جب بھارت نے بارڈر کراس کر کے پاکستان پر حملہ کیا تو ان لوگوں نے کابینہ کے اجلاس میں کہا کہ وہ تو صرف ہماری رائے تھی۔

اس آپریشن میں بالکل اسی طرح کشمیری مجاہدین کو استعمال کیا جانا تھا جس طرح کارگل آپریشن میں کیا گیا۔لیکن حیرت کی یہ بات ہے کہ جن کشمیری مجاہدین کی بنیاد پر اتنا بڑا آپریشن شروع کرنا تھا ان کا ان سے رابطہ تک نہیں تھا۔یہاں تک کہ لندن میں ان کی فاروق عبداللہ سے بات تک نہیں ہوئی تھی۔ آپریشن کے سلسلے میں کسی کور کمانڈر تک کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ آپریشن مئی میں فائنل ہوا تو جون میں سیکرٹری دفاع نذیر احمد نے واہگہ بارڈر سے بارودی سرنگیں اٹھوا دیں تھیں۔ جنگ کے بعد جب انکوائر ی شروع ہوئی تو جنرل موسیٰ نے کہا سرنگیں بارشوں کی وجہ سے بے کار ہوگئی تھیں جبکہ محکمہ موسمیات کے ریکارڈ کے مطابق اس ماہ میں وہاں صفرملی میٹر بارش ہوئی تھی۔ آپریشن شروع ہوا تو 8اگست کو ISIنے اعلان کر دیا کہ مقبوضہ کشمیر میں ہمارے سارے رابطے منقطع ہو چکے ہیں اور فوجیوں نے کہا کہ ہمارے ٹرانسمیٹر خراب ہو گئے ہیں۔ہمیں پتہ نہیں وہاں کیا ہو رہا ہے جبرالڑ کا آپریشن ناکام ہو اتو جنرل موسٰی بھاگتے ہوئے بھٹو کے پاس آئے اور کہا بھٹو میرے فوجی بری طرح پھنس چکے ہیں بھارتی مظفرآباد پر نظریں گاڑے بیٹھے ہیں اب اکھنور پر حملے کے سوا کوئی چارہ نہیں، بھٹو نے کہا ٹھیک ہے کر لو جنرل موسٰی نے کہا کہ اس کے لیے ہمیں بین الاقوامی بارڈر کراس کرنا پڑے گا جس کے لیے صدر کی اجازت ضروری ہے ،بھٹو فوراً سوات گئے اور ایوب خان کا آرڈر لے آئے جس کے بعد ہماری فوجیں بھارتی سرحد عبور کر کے اکھنور کی طرف بڑھنا شروع ہو گئیں وہاں انہیں بری طرح مار پڑی۔

 

جب ایو ب خان سوات سے واپس راولپنڈی آئے تو ان لوگوں نے انہیں فتوحات کی غلط رپورٹیں پیش کرنا شروع کردیں لیکن وہ معاملے کو بھانپ گئے اور انہوں نے آپریشن کی کمان جنرل اختر ملک سے لے کر جنرل یحیٰ خان کو دے دی۔اس آپریشن جبرالٹر کی غلط منصوبہ بندی اور ہماری فوجی قیادت کی نااہلی کے باعث بھارت نے 6ستمبر کو پاکستان پر حملہ کر دیا۔ ہمیں آج تک یہی سبق پڑھایا جاتا رہا کہ انڈیا نے دھوکے سے را ت کے اندھیرے میں پاکستان پر حملہ کیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلے پاکستان نے بین الاقوامی سرحد عبور کر کے اکھنور پر حملہ کیا جبکہ بھارتی قیادت واضح الفاظ میں جنگ کے لیے اپنی عوام کو تیار کر رہی تھی۔ بھارت میں ہمارے ہائی کمشنر میاں ارشد اور ائیر مارشل ذوالفقار علی خان جو اس وقت دہلی میں ائیر اتا شی کے فرائض سر انجام دے رہے تھے نے کئی رپورٹیں بھیجیں اور خط لکھے جس میں بھارت کی جنگی تیاریوں اور بارڈر پر سر گرمیوں کا احوال تفصیلاً درج ہوتا تھا لیکن پاکستان میں ان رپورٹوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔4ستمبر1965؁ء کو پاکستانی ہائی کمشنر میاں ارشد نے ترکی کے سفیر کو پیغام دیا جس نے وہ پیغام استنبول بھیجا اور وہاں سے کراچی میں ترکی کے سفیر کو دے دیا۔ اس نے اسی رات یہ پیغام پاکستان کے سیکرٹری خارجہ عزیز احمد تک پہنچا دیا انہوں نے پیغام پڑھا تو اس میں لکھا تھا کہ بھارت 6ستمبر کو حملہ کرنے والا ہے وہ فور ی طور پر بھٹو کے پاس پہنچے اور انہیں یہ پیغام دکھایا ،بھٹو نے یہ پیغام پڑھنے کے بعد کہا میاں ارشد نروس ہو گیا ہے ایسے ہی بے تکی باتیں کر رہاہے، یہ خط ایوب تک پہنچا تو وہ گھبرا جائے گا تم جا کر سو جائو۔جنگ کے بعد جب میاں ارشد نے کابینہ کے اجلا س میں شور مچایا تو بھٹو اور عزیز احمد کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا اور یہی نہیں 4ستمبر کو بھارتی وزیر اعظم لا ل بہادر شاستری نے قوم سے خطاب میں قوم کو جنگ کیلئے تیار رہنے کی صاف صاف ہدایت کی تھی ۔اس تقریر اور پاکستانی ہائی کمشنر کی اطلاعات کی خبر ایوب خان کو فارن آفس اور نہ ہی جی ایچ کیو نے کی یہاں تک کہ 6ستمبر کی صبح ایوب خان کو ائیر فور س کے ایک آفیسر نے جگا کر خبر دی کہ بھارت نے ہم پر حملہ کر دیا ہے۔ الطاف گوہر کہتے ہیں کہ 6ستمبر کو مجھے اطلاع ملی کہ صدر صاحب نے آپ کو طلب کیا ہے، صدر کے ملٹری سیکرٹری نے مجھے کہا صدر کا حکم ہے کہ آپ فوری طور پر ان کے لیے تقریر لکھیں میں نے کہا کہ میں صد ر صاحب سے ملے بغیر تقریر کیسے لکھ سکتاہوں۔
جب میں ملا تو ایوب خان مطمئن تھے مجھ سے معمول کے مطابق حال احوال پوچھا اور بتا یا کہ صبح امریکی سفیر آیا تھا اور مجھے کہنے لگا۔
Mr Prsident the Indian have got you by the neck.
تو میں نے کہا The Indian don’t know the people they here taken on.
میں نے فوراً کہا سر بس ٹھیک ہے میں سمجھ گیا آپ کو کس قسم کی تقریر چاہیے۔ اور اس کے بعد میں نے 65؁ء کی جنگ کی وہ معرکۃالآراء تقریر لکھی جس نے پوری قوم کا مورال بلند کر دیا ،لیکن افسوس جب میں نے جنگ کی اختتا می تقریر لکھی اور کاتب اس مقام پر آیا کہ ہم فائر بندی کر رہے ہیں تو اس نے رونا شروع کر دیا۔مگر افسوس جن کو رونا چاہیے تھا جن کی نا اہلی اور غلط منصوبہ بندی سے ملک اس نازک دور سے گزر ا اور کئی بے گناہ جانیں ضائع ہو ئیں، وہ تو فتح کی خوشیاں منارہے تھے لو گوں کو جھوٹی بہادری کی داستانیں سنا رہے تھے جبکہ در حقیقت ہم جنگ ہار چکے تھے۔جنگ کے دوران ہمارے پاس ہتھیا ر ختم ہو گئے مشرقی پاکستان سے کو ئی رابطہ نہیں تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس دوران کا بینہ کی میٹنگ بلائی گئی اور صدر ایوب خان چین سے مدد مانگنے را ت کو ہی خفیہ طور پر چین چلے گئے، چین میں چواین لائی نے ان سے کہا ہم آپکی پوری مدد کریں گے ایوب خان نے پوچھا کہاں تک تو اس نے جواب دیا جہاں تک تم کہو گے۔ ایوب خان نے حیران ہو کر کہا آپ بڑا رسک نہیں لے رہے تو وہ بولا نہیں ہم نے سوچ لیاہے تم جنگ لڑو خواہ تمھیں پہاڑوں تک پسپا کیوں نہ ہو نا پڑے تم ہم سے جو چاہو گے ہم دینگے لیکن ہم سے غلط بیانی نہ کرنا کیونکہ دوستوں میں یہ نہیں ہو نا چاہیے۔ایوب خان واپس آئے تو ڈبل مائینڈڈ تھے وہ جنگ لڑنا چاہتے تھے لیکن پاکستان کے لیڈر اور فوجی لڑائی کے لیے تیار نہیں تھے، چنانچہ ایوب خان نے چینی کارڈ استعمال نہیں کیا۔65؁ء کی جنگ ہمارے غلط اندازوں کی ایک طویل سریز تھی۔ ہمارا آپریشن جبرالڑ کا اندازہ غلط ثابت ہوا ہمارا خیال تھا کہ ہم میجر جنرل اختر ملک کی قیادت میں جو فوجی ڈویژن مقبوضہ کشمیر بھیج رہے ہیں اس کا رد عمل کشمیر تک محدود رہے گا مگر ایسا نہ ہوا۔جنگ شروع ہونے کے بعد بھی غلطیاں جاری رہیں مثلاً شروع کی پلاننگ میں ائیر فورس اور نیوی سے مشورہ نہیں کیا گیا فوج کو یہ پتہ نہیں تھا کہ کمانڈر انچیف کہا ں ہے اور کمانڈر انچیف کا نیوی سے کوئی رابطہ نہیں تھا ائیر مارشل نور خان کہتے تھے کہ فوج لڑ ہی نہیں رہی سارا کام ائیر فور س کو کرنا پڑ رہا ہے جبکہ نیوی والے کراچی میں بیٹھ کر جھوٹی فتوحا ت کا اعلان کر رہے تھے۔
65 ؁ء کی جنگ کو آرڈینیشن کی بد ترین مثال ہے۔ جنگ کے لیے تیاری سرے سے نہیں تھی اور حکمت عملی کی یہ حالت تھی کہ ائیر مارشل اصغر خان کو جس نے پاک فضائیہ کی بنیا د رکھی جس نے اسے اسٹیبلش کیا اسے جولائی میں ریٹائر کر دیا اور ان کی جگہ ائیر مارشل نور خان کوفضائیہ کے فرائض سونپے گئے جو عرصہ سے کمرشل لائن اختیا ر کر چکے تھے۔کشمیر کمیٹی نے کشمیریوں سے کو ئی رابطہ نہ کیا۔ مقبوضہ کشمیر میں (آپریشن جبرالٹر)گوریلا جنگ کے لیے ایسے کمانڈوز بھیج دیے گئے جن کا کمانڈر کر نل غفا ر مہدی چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے میرے لوگ اس قابل نہیں انہیں وہاں نہ بھیجو شہریوں کی کوئی تربیت نہیں ،جنگ ہو رہی ہے اور لوگ چھتوں پر کھڑے ہو کر ہو ائی جہازوں کی لڑائی کا نظارہ کر رہے ہیں ۔یہ جنگ نہیں ہڑ بونگ تھی۔ کیسی جنگ اور کیسی فتح! ہم پچھلے 52برس سے لوگوں کو ہر سال 6ستمبر یو م دفاع کے نام سے بے وقوف بنا رہے ہیں۔ جب ہمارے پاس استطاعت ہی نہیں تھی،جب ہم میں مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت ہی نہیں تھی۔جب ہم میں مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کی اہلیت ہی نہیں تھی۔تو ہم نے کیونکر آپریشن جبرالٹر لانچ کیا۔کیا فائدہ ایسی ناقص حکمت عملی اور منصوبہ بند ی کا جسکا خمیازہ معاہدہ تاشقند کی صورت میں معافیا ں مانگنے کی صورت بھگتنا پڑا۔یہ کیسی فتح تھی جس کے چند سال بعد ہی دشمن نے ہمارے ملک کے دو ٹکرے کر دیے۔
آج ہم ایک بار پھر آپریشن آپریشن کھیل رہے ہیں۔ایک نئی منصوبہ بندی کے ساتھ ایک نئی چال چل ر ہے ہیں۔آپریشن جبرالڑ میں تو ہمارا دشمن واضح تھا، عیاں تھا اور سب کو معلوم تھا لیکن افسوس آج کے آپریشن میں ہمیں یہ تک معلوم نہیں کہ ہمارا دشمن کون ہے اور ہم کس کے خلاف لڑ رہے ہیں ہم کس کی جنگ لڑ رہے ہیں کوئی کہتا ہے یہ امریکہ کی جنگ ہے، تو کوئی اسے پاکستان کی جنگ کہہ رہا ہے کوئی اسے اسلام کی جنگ کا نا م دے رہاہے تو کوئی اسے عالمی سازش قرار دے رہا ہے۔ یہ ملک سیا ستدانوں نے بنایا ہے اور اس ملک کی تعمیر و ترقی صرف اور صرف سیاستدانوں ہی کی مرہون منت ہے۔ ماضی میں جتنے بھی غیر سیاسی اقدامات ہوئے اُس کا نقصان پاکستان اور اس کی عوام کو اُٹھانا پڑا اوریہ ملک اب مزید غیر سیاسی اقدامات کا متحمل نہیں۔
میں کچھ نہیں جانتا بس صرف اتنا معلوم ہے کہ آپریشن جبرالڑ کے چند سال بعد ہی ہمارا ملک دو ٹکڑے ہو ا، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان آپریشنزکے بعد یہ ملک مزید کئی ٹکڑوں میں نہ بٹ جائے۔اللہ ہمارا اور آپ کا حامی و نا صر ہو۔آمین

Facebook Comments

امجد جہانگیر
میرا تعلق درس و تدریس سے ہے۔ شوق مطالعہ نے تحریر کی راہ دیکھائی۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply