کچھ سال سے پاکستان میں بعض ذاکرین کی طرف سے دعوے کیے جا رہے ہیں کہ آئن سٹائن شیعہ تھا۔ ان کا سوشل میڈیا پر مذاق اڑایا جا رہا ہے لیکن اصل میں یہ بات قم کے بعض شیعہ مراجع نے کی ہے جس کو ذاکرین نے ہو بہو نقل کیا ہے۔ اس کو شیعہ بنانے کا مقصد اس احساس کمتری سے نکلنا ہے جو کئی صدیوں سے سائنس میں کچھ نہ کرنے اور جدید دنیا کی تعمیر میں کوئی کردار ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے شیعوں سمیت سب مسلمانوں کے دامن گیر ہے۔ اب چونکہ یہ بات بہت پھیل چکی ہے لہذا اس کی اصلیت سامنے لانا ضروری ہے، چاہے کچھ لوگوں کو تھوڑی کڑوی لگے۔
جنابِ شیخ اور جھوٹ؟
یہ شوشہ سب سے پہلے ماضی کے شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ بروجردی کے پوتے، آیت اللہ علوی بروجردی، نے چھوڑا۔ اس کے ثبوت کے طور پر وہ کوئی دستاویز نہ دکھا سکے۔ ان کے بقول آئن سٹائن ان کے دادا کے ساتھ خط و کتابت رکھتا تھا اور شیعہ اسلام کو قبول کیا لیکن اس کا کوئی خط محفوظ نہیں رکھا جا سکا۔ بہانہ یہ ہے کہ شاہ نے وہ خطوط ضائع کیے، جب کہ اس ضائع کیے جانے کا کوئی ثبوت اور تاریخ اور دن وغیرہ نہیں دیے جا سکے۔ مزے کی بات ہے کہ آیت اللہ بروجردی شاہ کے خلاف بھی نہ تھے اور علماء کی سیاست میں مداخلت کی مخالفت کرتے تھے۔ ان کا اور آیت اللہ خمینی کا اختلاف کوئی چھپی بات نہیں۔ پھر شاہ اپنے حمایتی عالم کو اس اعزاز سے کیوں محروم رکھتا کہ اس کی طرف لکھے گئے آئن سٹائن کے خطوط تاریخ سے چھپانے کی کوشش کرتا۔ شاہ تو اس کو ایران کا فخر سمجھتا اور اس بات کا ڈھنڈورہ پیٹتا۔
بہر حال اس بڑھک کو،”راوی“ کی ”صحت“ پر اعتبار کرتے ہوئے دو مراجع تقلید، آیت اللہ گلپائگانی اور آیت اللہ سبحانی، نے بھی اپنی گفتگو میں نقل کیا۔ شاید ان بزرگوں کو یہ علم نہیں کہ آج کے زمانے میں سچ تک رسائی محض راوی کی صحت کی محتاج نہیں بلکہ سچ کے مادی آثار بھی محفوظ رہتے ہیں۔ انھیں ثبوت دیکھے بنا اس بات کی تصدیق نہیں کرنی چاہیے تھی۔ روایت کی ضرورت اس دور کی تاریخ کے حقائق جاننے کے لیے ہوتی ہے جس کے آثار کم ہوں یا نہ ہوں۔ یہ چند دہائیوں پہلے کی بات ہے، اس کے آثار دیکھے بغیر اس بات کی تصدیق دل خوش کرنے اور احساس کمتری کے اظہار کے سوا کچھ نہیں ہے۔ مزے کی بات ہے کہ یہ دونوں مراجع صاحبان اس غلطی کے باوجود حوزہ علمیہ قم کی طرف سے مرجعیت کے منصب سے معزول نہیں کیے گئے۔ یہی غلطی مجلس خبرگان کے سابقہ سربراہ مرحوم آیت اللہ مہدوی کنی نے کی۔ سن 2014 میں جامعہ امام صادق میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے کہا۔
” بیرون ملک چاپ شدہ ایک کتاب کے مطابق آئن سٹائن نے کچھ لکھا تھا جس میں اس نے کہا کہ وہ شیعہ اسلام کو قبول کر رہا ہے، اور یہ کہ وہ امام جعفر صادق کا شاگرد ہے۔ آئن سٹائن کہتا ہے کہ جب میں نے پیغمبر اکرم کی معراج کے بارے میں سنا کہ جس میں وہ آسمان پر جاکر واپس آئے تو گھر کا دروازہ ابھی ساکن بھی نہیں ہوا تھا، گویا ان کا سفر روشنی کی رفتار سے تیز طے پایا تھا۔ رسول الله روشنی کی رفتار سے تیز گئے تھے، مجھے صحیح معلوم نہیں کہ وہ کتنی ہے، شاید تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ۔ کنڈی ابھی ہل ہی رہی تھی کہ وہ ساری کائنات کا دورہ کر کے واپس آ گئے۔ یہ وہی حرکت ہے جس کو آئن سٹائن نے سمجھ لیا تھا۔ اس سے پہلے اس بات کو ملّا صدرا نے سمجھا، حرکت جوہری، جس میں مکانی فاصلہ طے نہیں ہوتا کہ مثلاً سڑک پار کرنے میں دس منٹ لگ جائیں۔ نورانی حرکت، یا روحانی حرکت، روشنی کی رفتار سے تیز ہوتی ہے۔ آئن سٹائن نے کہا کہ جب میں نے رسول اللهؐ اور اہل بیتؑ کا موقف جانا تو مجھے پتا چلا کہ انہوں نے ان چیزوں کو مجھ سے کہیں پہلے درک کر لیا تھا“۔
اس بیان کی ویڈیو کا لنک حسب ذیل ہے:۔
https://www.youtube.com/watch?v=epLd9EE8B-g
معاملہ یہ ہے کہ آئن سٹائن کے نظریات اس کی کتب اور مقالوں میں واضح لکھے ہوئے ہیں جو انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ وہ خدا کے یہودی تصور کو بھی نہیں مانتا تھا، جو اسلام جیسا ہے اور جس کی وجہ سے مسلمانوں کو یہودیوں سے نکاح کرنے اور ان کا ذبیحہ کھانے کی اجازت ہے۔ اس کی تھیوری کا معراج سے کوئی تعلق نہیں۔ معراج کے اعداد و شمار کو اگر نظریۂ اضافیت کی مساواتوں میں ڈال کر ان کو حل کیا جائے تو جو نتائج نکلتے ہیں ان کو بیان کرنے والے پر توہین رسالت کا مقدمہ درج ہو جائے گا۔ جو علما اسکی تھیوری کو معراج سے جوڑتے ہیں ان کو اس کی تھیوری کی سمجھ نہیں آئی کیونکہ متعلقہ علوم نہیں جانتے۔ اس تھیوری کا ’عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں′ قِسم کی باتوں سےبالکل کوئی تعلق نہیں۔ نظریۂ اضافیت کا مُلا صدرا کے حرکت جوہری والے تصور سے کوئی تعلق نہیں، یہ نظریہ مکانی حرکت کے بارے میں ہی ہے۔ آیت الله صاحبان ہوں یا شیخ الحدیث صاحبان، ان لوگوں کو ان معاملات میں رائے دینے سے گریز کرنا چاہیے جن کا وہ علم نہیں رکھتے۔
یہاں ایک اہم نکتے کا ذکر ضروری ہے: آئن سٹائن کی تھیوری کو جب ریاضی کی مدد سے کوانٹم تھیوری سے ربط دیا گیا تو یہ بات پتہ چلی کہ کائنات مادے کی سادہ ترین شکل، یعنی توانائی، سے بنی ہے۔ نیز زمان و مکان اور قوانین فطرت کو مادے نے جنم دیا ہے۔ ازل کا تصور بھی غلط ثابت ہوا اور معلوم ہوا کہ وقت کا ایک خاص نقطہ آغاز ہے جسے بگ بینگ کا نام دیا گیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کائنات سادگی سے پیچیدگی کی طرف جا رہی ہے، یعنی کائنات کا خالق جامع الکمالات نہیں بلکہ سادہ ترین موجود ہے۔ اب اس سے شیعہ اسلام اور ملا صدرا کے فلسفے کا کیا ربط بنتا ہے؟
بہر حال آیت الله صاحبان کی طرف سے گرین سگنل ملنے کے بعد اس داستان میں ایرانی مذہبی ویب سائٹس نے خوب رنگ بھرا اور فارسی جاننے والے پاکستانی شیعہ علماء نے ان کو ہو بہو نقل کیا۔ ایک مثال کے طور پر اس ویڈیو کو دیکھیں جو کراچی کے مدرسہ القائم کے مولانا عابد زیدی نے بنا کر سوشل میڈیا پر لگائی:۔
https://www.youtube.com/watch?v=AXcZZBQpIb0
قیاس مع الفارق
نظریۂ اضافیت میکسویل کی تھیوری اور نیوٹن کی تھیوری کے سنگم پر پیدا ہونے والے نئے افق کی تفہیم کا نتیجہ ہے اور خالصتًا ریاضی کی زبان میں بیان ہوا ہے۔ علماء کو ریاضی کہاں آتی ہے؟ مسلمانوں کے ممالک میں سیکڑوں یونیورسٹیاں ہیں جن میں عالمی معیار کے سائنس دان بھی ہیں۔ کبھی کسی مسلمان سائنس دان نے ایسی بے پَر کی نہیں اڑائی کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ ایسے دعوے صرف قیاس آرائی سے نہیں کیے جا سکتے، ریاضی کی مساواتیں حل کرکے ثابت کرنا ہوتا ہے اور تجربہ گاہوں میں قابلِ تکرار تجربے کرنا پڑتے ہیں۔ علماء البتہ حدود کا پاس نہ رکھتے ہوئے سائنس کے ایک دائرے کے قوانین کو دوسرے دائرے پر قیاس کرتے رہتے ہیں۔ علم میں قیاس اور تکے بازی کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر ان باتوں میں کوئی حقیقت ہوتی تو ریاضی اور سائنس جاننے والے مسلمان سائنسی اصولوں اور ریاضی کی مساواتوں کی روشنی میں ان کو ثابت کرتے۔سائنس میں کسی ایک مسئلے کے حل کا قیاس دوسرے مسئلے پر کرکے اسکا حل نہیں ڈھونڈا جا سکتا۔ سائنس کا ایک عقلی طریقہ کار ہے، ہر مسئلے کا الگ سے ان عقلی اصولوں کے مطابق حل نکالنا ہوتا ہے۔ پھر سائنس اس پر ایک اور شرط تجربے کی بھی لگاتی ہے، یعنی اس حل کو تجربے کے میدان میں خود کو صحیح ثابت کرنا ہوتا ہے۔ ان عقلی اصولوں کو سیکھنے کا نام ہی سائنسی تعلیم حاصل کرنا ہے۔
مجتہدین اور علماء کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ، بیشتر، سائنس کی الف ب بھی نہیں جانتے مگر قیاس آرائیاں کرکے قرآن کی سائنسی تفسیر کرتے رہتے ہیں، اور حد یہ ہے کہ ان کو روکنے والا بھی کوئی نہیں۔ ان تفسیروں کی ساری عمارت قیاس مع الفارق پر کھڑی ہے۔ ایسی تفسیروں میں نہ تو ریاضی کی کوئی مساوات ہوتی ہے نہ کسی ایسے سائنسی تجربے کا بیان جس کو کوئی بھی دوہرا کر تصدیق کرسکتا ہو۔ ایک اور مصیبت یہ ہے کہ پسماندہ معاشروں کے احساسِ کمتری سے فائدہ اٹھانے کے لیےجدید درسگاہوں سے پڑھے ہوئے مگر نیم خواندہ لوگ ہمیشہ رہے ہیں جو”قرآن اینڈ سائنس“ یا ”سپر مین ان اسلام“ جیسے موضوعات پر صفحات کالے کرکے پسماندہ قوموں کا فکری استحصال کرتے اور اس خیانت سے خوب پیسہ کماتے ہیں۔ ان کی حرکتوں سے علماء اور شیر ہوتے ہیں۔ افسوس اس علمی خیانت کی قانون میں کوئی سزا بھی متعین نہیں کی جا سکتی۔
کیا اسلامی سائنس پیش گوئی کے قابل ہے؟
’سائنسی′ تھیوری کی تیسری اور آخری شرط اس کا پیش گوئی کے قابل ہونا ہے۔ یعنی اگر ریاضیاتی بنیاد اور متعدد تجربات کے بعد کسی مجموعہ انکشافات کو سائنس کے خاص اصطلاحی معنوں میں تھیوری کا درجہ دیا جانا ہے تو اس کو مستقبل میں کچھ تجربات یا ایجادات کی پیش گوئی بھی کرنی چاہیے۔ مذہب کے لیے سائنسی سہارے ڈھونڈنے والے قیاسی علما اگر اس بنیادی نکتے سے واقف ہوں تو مذہب کی سائنسی تفسیر کی کوشش مذہب میں انسان کو خدا کے برابر قرار دینا ہے۔ کیا معراج کی سائنسی تفسیر ایسی پیش گوئی کے قابل ہے جس میں کسی دوسرے انسان کو معراج کرائی جا سکے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔
نظریۂ ارتقا کے ساتھ سوتیلے بیٹے جیسا سلوک کیوں؟
ایسے علماء کی ایک عادت سائنس کی اصطلاحوں کے لغوی معانی کرکے قیاس کے گھوڑے دوڑانا ہے۔ سائنس میں تھیوری کا مطلب وہ نہیں جو تاریخ یا فلسفے میں ہوتا ہے۔ سائنس میں تھیوری کا مطلب قوانین کا مجموعہ ہے جو اٹل حقیقت ہوتی ہے اور اس پر سائنسدانوں کا گویا اجماع ہوتا ہے۔ اسی طرح کوئی تھیوری کسی ایک سائنسدان کے نام سے منسوب تو ہو جاتی ہے لیکن اس سے پہلے اور اس کے بعد آنے والے سیکڑوں سائنسدان اس کی تکمیل میں حصہ ڈالتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ سارا علم کسی ایک فرد نے کشف کیا ہو لہٰذا اضافیت کی تھیوری، نیوٹن کی تھیوری کی تنسیخ نہیں تھی بلکہ سائنس کا نیا افق تھی کیونکہ نیوٹن کی تھیوری تجربات کی بھٹی سے گزر چکی ہے اور مضبوط ریاضیاتی بنیادوں پر استوار ہے۔ چنانچہ آج بھی انجنیئرنگ کے زیادہ تر شعبوں میں نیوٹن کی تھیوری ہی استعمال ہوتی ہے۔ علماء سائنس کے ارتقا کو پرانی تھیوری کا رد سمجھ لیتے ہیں۔ یہ بہانہ لگا کر وہ نظریۂ ارتقا کے عنقریب رد ہو جانے کے منتظر بھی ہیں کیونکہ وہ ان کو کفر معلوم ہوتا ہے۔ عجیب تماشہ ہے کہ کسی طرح نظریۂ اضافیت کو مسلمان کرلیا ہے مگر نظریۂ ارتقا، جو اسی کی طرح مستند اور تجربے کی بھٹی سے گزرنے کے بعد تھیوری کے اعلیٰ درجے تک پہنچا ہے، وہ ہنوز کافر ہے کیونکہ ان کے قیاس کا گھوڑا اس کو دینی کتب میں موجود روایات کے ساتھ کسی قسم کا ربط نہیں دے سکا۔ (ویسے اندر کی بات یہ ہے کہ مولانا آزاد اور ڈاکٹر اسرار احمد نے نظریہ ارتقاء کو بھی ’مسلمان‘ کر لیا تھا، حالانکہ اس زبردستی کی کوئی ضرورت نہیں تھی)۔
کیا مبینہ خطوط کو یہودیت چھپا رہی ہے؟
آئن سٹائن مذہبی آدمی نہیں تھا۔ اب بھی یہودیوں کی نوے فیصد سے زیادہ آبادی ملحد ہے۔ صہیونزم قوم پرستی اور مذہب بیزاری کی تحریک تھی جس نے سو سال قبل ہی آرتھوڈاکس یہودی مذہب کی بنیادیں ہلا دی تھیں۔ یہ بات کہ اس کو شیعہ ماننے سے یہودیت کی بنیادیں ہل جاتیں، بھی جہالت اور ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ انسان جب حقائق کو نہ جانتا ہو تو وہ سازشی مفروضے گھڑتا ہے۔ اگر آئن سٹائن شیعہ ہوجاتا تو مغرب یا یہودیت کو یہ بات چھپانے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ اس کے یہودی ہونے سے کتنے لوگوں نے عیسائیت ترک کرکے یہودیت اختیار کی ہے؟ یہودیت بے چاری تو اس وقت خود ہٹلر کے مظالم سے پناہ مانگ رہی تھی۔ علمی دنیا میں ڈاکٹرعبدالسلام کا بھی بڑا مقام ہے۔ وہ خود کو مسلمان کہتے تھے۔ ان کو تیسری دنیا کا آئن سٹائن کہا جاتا ہے۔ وہ عام نوبل انعام یافتگان سے بلند مقام رکھتے ہیں جس کی وجہ ان کے اعلیٰ پائے کے مقالے ہیں۔ کیا مغرب نے ان کو یہودی یا عیسائی ظاہر کرنے کی کوشش کی؟ ہاں ایک پاکستانی دیوبندی مفتی، مولانا یوسف لدھیانوی، نے ان کے خلاف کئی سو صفحات کی ایک کتاب لکھی ہے جس میں انھیں معمولی سائنس دان ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ مزے کی بات ہے کہ مفتی صاحب نے اپنی کتاب میں ریاضی کی ایک مساوات بھی حل نہیں کی نہ ڈاکٹر صاحب کے کسی مقالے کا تجزیہ کرنے کی ہمت کرسکے ہیں۔ بس ایسے ہی جھوٹ موٹ لکھ کر صفحات کالے کیے ہیں۔
رضا شاہ اور اس کے بیٹے محمد رضا شاہ کی شہنشاہت کے دوران ایران میں جدید تعلیمی ادارے قائم ہوئے جن کو انقلاب نے بھی باقی رکھا ہے۔ اس کے نتیجے میں اب ایران میں سائنس کے میدان میں کام ہو رہا ہے۔ نیوکلیئر ٹیکنالوجی میں تو ایران پاکستان سے بھی پیچھے ہے لیکن باقی میدانوں میں اسرائیل اور ترکی کا ہم پلہ ہوچکا ہے لیکن ابھی تک سویڈن، ڈنمارک اور ناروے جیسے چھوٹے یورپی ممالک کے قریب نہیں پہنچا۔ دو ایرانی ریاضی میں فیلڈ میڈل لے چکے ہیں جو ریاضی میں نوبل پرائز جیسا اعزاز ہے۔ کسی نے ان کو یہودی ظاہر کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ یہودیوں اور مسیحیوں کے پاس ہزاروں بڑے نام ہیں ان کو علماء کی طرح جھوٹ بول کر اپنے عوام کو بیوقوف بنانے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔
پاکستانی ذاکرین کیا کریں؟
شیعہ ذاکرین و خطباء کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جب کوئی بات قم یا نجف کے علماء سے سنیں تو اس کو اندھا اعتبار کر کے نقل نہ کر دیا کریں۔ ایران میں تو جان کی امان کے لیے سائنس دان ان بڑھکوں کی اصلیت کھولنے سے قاصر ہیں ورنہ توہین علماء کا مقدمہ درج ہو جائے گا اور عدالت میں انہی مراجع کا شاگرد سزا دینے کو تیار بیٹھا ہوگا۔ (اگرچہ ایرانی یونیورسٹیوں میں طلبہ ایسے لطیفوں کا بہت مذاق اڑاتے ہیں، اور ایرانی سوشل میڈیا پر بھی پڑھے لکھے لوگ علماء کی ایسی حرکتوں کی خبر لیتے رہتے ہیں)۔ لیکن جب آپ ایسی بڑھکیں پاکستان آ کر دوہراتے ہیں تو یہاں مذاق بنتا ہے۔ ٹھیک ہے کچھ جاہل لوگ آپ کو داد دیں گے لیکن یہ بیچارے تو مردانہ کمزوری کے علاج والے حکیم کو بھی پیسے دے آتے ہیں۔ ان جاہل لوگوں کی داد کے بدلے آپ پڑھے لکھے لوگوں میں اپنی عزت کیوں کھونا چاہتے ہیں؟ قم اور نجف کے حوزوں میں تو بہت جھوٹ مشہور ہیں، مثلاً طئی الارض کرنا کوانٹم ٹیلی پورٹیشن سے ثابت ہوتا ہے۔ آیت اللہ حسن زادہ آملی کا ریاضی میں بڑا نام ہے۔ تجسیم اعمال کا تعلق توانائی کے مادے میں بدلنے سے ہے۔ آیت اللہ مجتھدی نے قم میں یاعلی کا نعرہ مارا تو امریکہ میں جان ایف کینیڈی کے قاتل کو گولی چلانے کی ہمت ہوئی، آیت اللہ تبریزیان کی طب اسلامی جدید میڈیکل سائنس کا متبادل ہے، وغیرہ وغیرہ۔ آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی نے قرآن کی تفسیر کرتے ہوئے بہت سے جعلی ”اعجاز“ بیان فرمائے ہیں جو وہاں مدارس کے نصاب میں بھی شامل ہیں۔ چنانچہ اگر آپ وہاں سے کوئی غیر معمولی بات سنیں جس کو سازش کے تحت مسلم دنیا کی یونیورسٹیوں کے ہزاروں مسلمان سائنس دانوں نے بھی چھپا رکھا ہو مگر ان آیت الله صاحبان کو پتا چل گئی ہو، تو پاکستان آ کر نقل کرنے سے پہلے خود بھی تھوڑی تحقیق کر لیا کریں۔ ایسے جھوٹ کی ظاہری علامات میں سے ایک تو یہ ہے کہ ایسے دعووں کو ریاضی کی مساوات کو حل کرکے ثابت نہیں کیا گیا ہوتا، جو اس قسم کے اکثر دعووں کی تصدیق کے لیے لازمی شرط ہے۔ دوسری علامت یہ ہے کہ ایسی کتب کا ”فاضل“ مصنف کسی یونیورسٹی میں اپنے دعوے سے متعلقہ ایم ایس سی کے کورس کی تدریس کے قابل نہیں ہوتا۔ مثلاً مکارم شیرازی صاحب کو کتاب پکڑا کر ایم ایس سی کی کسی کلاس میں کھڑا کیا جائے تو وہ ایک صفحہ بھی نہیں پڑھا سکتے۔ سائنسی جریدوں میں کوئی مقالہ شائع کرنا تو دور کی بات ہے۔
تتمہ
یہ بیماری صرف شیعہ علماء کو ہی لاحق نہیں، ہر پسماندہ معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو مذہب کے سائنسی معجزے بنا بنا کر بیچتے ہیں۔ ہندوؤوں میں دیپک چوپڑا اور اہلسنت میں ہارون یحییٰ، ذاکر نائیک اور سلطان بشیر الدین محمود، وغیرہ یہی کام کرتے ہیں۔ افریقہ، ایشیا اور امریکہ کی پسماندہ ریاستوں کے مسیحیوں میں بھی یہ سلسلہ موجود ہے لیکن یورپ کا مسیحی یہ سمجھ چکا ہے کہ مسیحی تہذیب کا حصہ رہنے کے لیے اسے سائنس پر جھوٹ باندھنے اور قیاس اور دھوکے کی ضرورت نہیں ہے۔
علمائے اسلام کو سمجھنا ہوگا کہ جب وہ جھوٹ کا سہارا لے کر قرآن سے سائنس نکالنے کی کوشش کریں گے تو مخالفین قرآن سے سائنسی غلطیاں بھی نکالیں گے۔ آپ کے پاس ان کو واجب القتل قرار دینے کے سوا کیا ہے؟ آج کل انٹرنیٹ کا دور ہے۔ ایسی تحریریں انٹرنیٹ پر عام ہیں جن میں آپ کے دعووں کو بنیاد بناکر مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقے کو بتایا جا رہا ہے کہ اسلام جھوٹ کا سہارا لیتا ہے۔ تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوں کے پاس تو اتنا وقت نہیں کہ وہ آپ کے مدارس کا نصاب دیکھیں اور سمجھیں کہ آپ یہ جھوٹ انجانے میں اور جہالت کی وجہ سے بولتے ہیں۔ آپ کے ہاں اگر سائنس کی کوئی کتاب پڑھائی بھی جاتی ہے تو وہ ہزار سال پرانی بو علی سینا کے زمانے کی سائنس سے تعلق رکھتی ہے۔
آیت اللہ صاحبان سے گزارش ہے کہ سائنس کی سچائیوں کو، جیسی کہ وہ ہیں، اسی طرح سمجھنے کی کوشش کریں۔ سائنس کو کسی اسلامی عقیدے سے نتھی کیے یا اس سے لڑائے بغیر بھی مانا جا سکتا ہے۔ سائنس کے عقلی اصول سیکھیں تاکہ قیاس آرائیوں سے جان چھڑا سکیں۔ اگر کسی مسئلے پر سائنس کی رائے لکھنا چاہتے ہیں تو سائنس کے عقلی اصولوں کی روشنی میں اس کا پورا حل پیش کریں تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو۔ اپنے تخیل کے کبوتر کو ریاضی اور تجربے کے پنجرے میں بند کریں۔ ایران میں کئی مایہ ناز پروفیسر موجود ہیں۔ یا تو ان سے تعلیم حاصل کریں یا پھر سائنس کے بارے میں چپ رہ کر اپنے کام سے کام رکھیں۔ لڈو کے کھیل کی طرح گوٹی گھما کر ایک تھیوری کو مسلمان اور دوسری کو کافر کہنا چھوڑ دیں۔ یہ بھی امید نہ رکھیں کہ سائنس کبھی ان تھیوریوں کی تردید کرے گی جن کو آپ نے کفر قرار دیا ہے۔ سائنس کبھی اپنی تردید نہیں کرتی، سائنس میں تبدیلی ارتقاء اور ترقی کی شکل میں آتی ہے، تنسیخ کی شکل میں نہیں آتی۔ یہ بھی یاد رہے کہ کٹھ ملائیت اور عقل کی جنگ میں عقل ہی فتح یاب ہوتی ہے۔
سائنسی مفسرین کے ڈسے ہوئے حضرات کی سہولت کے لیے ”اسلام اور سائنس“ کے موضوع پر پاکستان کے مایہ ناز سائنسدان ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کی کتاب کو ڈاؤن لوڈ کرنے کا لنک درج ذیل ہے:-
The link to prof hoodbhoy’s book is missing: mashalbooks.org/product/musalm
Facebook Comments
پروفیسر پرویز ہودبھائی صاحب کی کتاب کا لنک یہ ہے:-
https://mashalbooks.org/product/musalman-aur-science/
میرے مضمون ”آیت الله کیلئے آئن سٹائن شیعہ اور ڈارون کافر ہے“کے سلسلے میں سید ابن حسن بخاری صاحب نے اپنے مضمون “آئن سٹائن کے شیعہ ہونے کا معمہ” میں کچھ نکات اٹھائے ہیں جن کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں میرے مضمون سے متعلقہ باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔
انہوں نے فرمایا کہ ” آیت اللہ حسین بروجردی بھی اپنے زمانے میں متعدد غیر مسلمان دانشوروں کے ساتھ بحث و مباحثہ کرتے رہے اور ان کی ویب سائٹ پر ان مباحث یا مکاتبات کی مکمل تفصیل موجود ہے“۔
ان کا اشارہ غالباً اسی ویب سائٹ کی طرف ہے جس کا لنک میرےسابقہ مضمون میں موجود مدرسۃ القائم کی شائع کردہ ویڈیو میں دیا گیا ہے۔ یہ ویب سائٹ آیت الله بروجردی کے پوتے آیت الله علوی بروجردی کے زیر سایہ چل رہی تھی۔ اس آفیشل ویب سائٹ سے آئن سٹائن کے آیت الله بروجردی سے رابطے اور اس کے شیعہ ہونے کی افواہ تقریباً دس سال پہلے نشر کی گئی تھی۔ البتہ اب وہ ویب سائٹ بند کر کے آیت الله علوی بروجردی کے اپنے نام سے نئی ویب سائٹ بنائی گئی ہے۔عزیز بھائی آگے چل کر لکھتے ہیں کہ :
” چند سال پہلے ایک افواہ پھیلی کہ آیت اللہ حسین بروجردی آئن سٹائن کے ساتھ بھی رابطے میں تھے اور ان دونوں شخصیات کے درمیان تقریباً 40 مکاتبات کا ردوبدل ہوا اور بعد ازاں آئن سٹائن شیعہ ہوگیا تھا۔ اس حوالے سے چند جعلی تصویریں اور ویڈیوز بھی وائرل ہوئیں“۔
یہاں عزیز نے ایسا تاثر دیا ہے کہ جیسے اس افواہ کا منبع معلوم نہیں۔ منبع آیت اللہ بروجردی کی آفیشل ویب سائٹ تھی اور اسی لیے اس معاملے پر حکومت نے کوئی تحقیقات نہیں کیں، حالانکہ اس کی وجہ سے، بھائی ہی کے الفاظ میں، ”مخصوص طبقے کو تنقیدِ محض یا یوں کہوں تو بہتر تضحیک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے“۔ لہٰذا اس کو یوں لکھنا چاہئیے تھا کہ : ”چند سال پہلے آیت اللہ حسین بروجردی کی آفیشل ویب سائٹ نے یہ افواہ پھیلائی کہ مرجع عالی قدر آئن سٹائن کے ساتھ بھی رابطے میں تھے اور ان دونوں شخصیات کے درمیان تقریباً 40 مکاتبات کا ردوبدل ہوا اور بعد ازاں آئن سٹائن شیعہ ہوگیا تھا“۔
دینی حلقوں، خصوصا مراجع کے ہاں، راوی کی بہت اہمیت ہے۔ اگر اس کی صحت اچھی ہو تو وہ جتنی بھی جاہلانہ بات کرے، قبول کر لی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے جب یہ بات آیت اللہ بروجردی کی آفیشیل ویب سائٹ سے نشر ہوئی تو مدارس میں پھیل گئی، یہاں تک کہ دو مراجع اور شورائے نگہبان کے سربراہ نے بھی اس روایت کو نقل فرمایا۔
البتہ آیت الله کی آفیشل ویب سائٹ نے اتنا بڑا جھوٹ بول دیا تھا جو تقدس کے جامے میں چھپا نہ رہ سکا۔ اس کے باوجود تعلیم یافتہ طبقے کی طرف سے زیادہ اچھالا نہیں گیا جس کی وجوہات بیان ہو چکی ہیں۔ لیکن یہ بات عوام کے ہضم کرنے کی بھی نہ تھی، کچھ زیادہ ہی ہو گیا تھا۔ چنانچہ کچھ اہلِ درد نے دو سال بعد آیت الله علوی بروجردی کا انٹرویو کر کے ڈیمج کنٹرول کی کوشش کی ، جس کا مقصد اس بڑے جھوٹ کی جگہ ایک چھوٹا جھوٹ پیش کرنا تھا جو تقدس کے جامے میں پورا بھی آسکے۔ لیکن حوزہ علمیہ قم کی تقدس سے بھری فضا میں وہی پرانا جھوٹ چلتا رہا ، اور اسی کو مزید دو سال بعد، 2014ء میں آیت الله مہدوی کنی نےپورے یقین کے ساتھ نقل کر دیا، جس کے بعد ”دشمن“ کے اخبارات نے ایران میں رہبر کے بعد دوسری اہم ترین مذہبی شخصیت کا کافی مذاق اڑایا۔ معاملے کی کوئی تحقیقات نہیں ہوئیں ۔
پاکستان میں تو مدرسۃ القائم وغیرہ جیسے شیعہ مدنی چینلز نے اس کو 2013ء میں ہی پھیلانا شروع کر دیا تھا۔کچھ عرصہ پہلے مکالمہ پر بھی ایک عزیز نے ان باتوں کو ایک مضمون کی شکل میں پیش کیا تھا۔ بات اتنی نہ پھیلتی تو میں اس کی وضاحت ضروری نہ سمجھتا۔ اس سارے طوفانِ بدتمیزی کے جواب میں علماء نے ہاں میں ہاں ملائی اور اگر کسی نے اختلاف کیا بھی تو رابطے کی تصدیق کر کے بڑے جھوٹ کو چھوٹے جھوٹ سے بدل دیا۔ میرے مضمون پر اعتراض کرنے والے بھائی کو بھی ان اصلی جھوٹوں سے کبھی کوئی اختلاف رہا بھی تو اس کا اظہار نہیں کیا۔پاکستان میں ذاکرین کے درمیان اہل بیت کے بارے میں جس قسم کا غلو رائج ہے، وہی قم پلٹ علماء کے ہاں مراجع کے بارے میں رائج ہے، جو وہ قم و نجف سے ہی سیکھ کر آتے ہیں۔ لہذا یہ نہ سمجھیں کہ یہ باتیں جو مقامی علماء کر رہے ہیں ، آیت اللہ صاحبان کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ اس معاملے میں اتحاد بین المسالک دیکھنے کو ملتا ہے۔ یعنی اگر دیوبندیوں کے ہاں یہ مشہور ہے کہ مولانا احمد علی لاہوری لوگوں کا باطن دیکھ لیتے تھے تو شیعوں میں یہی بات آیت اللہ بہجت کیلئے مشہور ہے۔ اور بھی بہت سے مقدس جھوٹ دینی حلقوں میں مشہور ہیں۔آج بھی بے شمار لوگ مانتے ہیں کہ معروف دیوبندی خطیب مولانا عطا الله بخاری جب قرآن پڑھتے تو سانپ اور پرندے بھی رک جاتے تھے۔ کچھ سال پہلے مولانا خادم رضوی نے ممتاز قادری کی قبر سے تلواروں کے ظاہر ہونے کا ذکر کیا تھا۔ تعلیم یافتہ طبقے میں اس کو ایک معمول کے طور پر لیا جاتا ہے۔ علماء کے جھوٹے فضائل اتنے زیادہ ہیں اور تعلیم یافتہ حلقوں کیلئے اپنے کرنے کا کام اتنا زیادہ ہے کہ ہر ایک جھوٹ کو لے کر اس کا علمی تجزیہ عوام کے سامنے پیش کرنے کا وقت نہیں ہوتا، اور ان کو ایک لائٹ جوک کی طرح لیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب علمائے دین کی تضحیک کرنا نہیں ہے۔ اسلامی آداب و رسوم کا علم بہر حال انہی کے پاس ہے۔اگر کوئی تعلیم یافتہ شخص اپنی مذہبی ثقافت سیکھنا چاہے تو وہ علمائے دین کے پاس ہی جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی تعلیم یافتہ شخص کو اچھی موسیقی سننا ہے تو پرویز ہودبھائی صاحب کے بجائے راحت فتح علی خان صاحب ہی اس کا انتخاب ہو نگے۔ لیکن باقی باتوں میں اہل عقل و دانش ”مغرب زدگی“ کے طعنےسننے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔کاش ہمارے ہاں آٹھویں کلاس کے بعد اسلامیات کی جگہ منطق کا مضمون پڑھایا جائے تو ان اندھیروں سے نجات ملے۔
جیسا کہ ہمیشہ ہوتا آیا ہے کہ علماء جہالت کا تیر چلا کر کمان چھپا دیتے ہیں، مگر ذاکرین یا خطباء اس تیر کو اٹھائے پھرتے ہیں اور جب اس کی جہالت عوام کے سامنے آجاتی ہے تو علماء کہتے ہیں کہ یہ تو ذاکرین نے چلایا تھا۔ لعن طعن کسی ضمیر اختر نقوی کے حصے میں آتی ہے۔ اب یہ جھوٹ بھی دو سال سے ذاکرین کے کندھوں پر ہے، اس محرم کی مجالس میں اس کا ذکر ہوا ۔ کچھ عرصے بعد آیت الله علوی بروجردی پیچھے سے غائب ہو جائیں گے اور یہ پاکستان بھر کے منبروں پر گونج رہا ہو گا۔ پھر یہی ”مدافع ِمرجعیت “ علماء کہیں گے کہ یہ دیکھو یہ جاہل ذاکر تمھارے بچوں کی منطق کو خراب کر رہے ہیں، ہمیں چندہ دو تا کہ ہم جدید مدارس قائم کر کے اس جہالت کو ختم کریں اور عقلی علوم پڑھائیں۔ جبکہ ذاکرین کی جہالت کا منبع تو ماضی کے علماء ہی ہیں۔ نئے نعروں سے بننے والے مدارس میں بھی کھودا پہاڑ نکلا چوہا والا معاملہ ہوتا ہے۔ اس طرح اس دائرے کا سفر کبھی پورا نہیں ہو گا۔ اس سلسلے کو کہیں تو رکنا چاہئیے۔
آگے چل کر بھائی لکھتے ہیں:
” آیت اللہ علوی بروجردی کے بقول ایران کے معروف ریاضی دان پروفیسر حسابی مرحوم جو ایک یا دو دفعہ آئن سٹائن سے ملے تھے البتہ چونکہ بطور ایک ماہر ریاضیات آئن سٹائن کے نظریات سے آشنا تھے جب قم آئے تو اس دوران آیت حسین بروجردی نے انہیں بلایا اور ان سے آئن سٹائن کے نظریہ نسبیت کی تفصیل پوچھی۔ پروفیسر حسابی کے بتانے پر آیت اللہ حسین بروجردی نے پروفیسر حسابی کو کہا: دوبارہ جب آئن سٹائن سے ملنے جائیں ان کو میرا سلام کہنا اور اس بات پر مبارکباد دینا کہ انہوں نے طبیعیات سے مابعدالطبیعیات کا ایک دریچہ کھولا ہے۔ آیت اللہ علوی بروجردی کے بقول آئن سٹائن اور آیت اللہ حسین بروجردی کے درمیان اس سلام دعا کے تبادلے کے علاؤہ کسی قسم کا کوئی رابطہ یا مکاتبہ ثابت نہیں ہے اور جیسے آئن سٹائن انسانی معاشرے کا ایک عظیم سرمایہ اور نابغہ روزگار تھے اور اسی طرح آیت اللہ حسین بروجردی اپنے زمانے کی ایک استثنائی علمی شخصیت تھے ان دو بزرگوں کے بارے ایسی کوئی رائے قائم کرنے کے لیے ٹھوس ثبوتوں کی ضرورت ہے جو اس گھڑی تک دستیاب نہیں ہیں“۔
اگرچہ بھائی نے آیت الله علوی بروجردی کے انٹرویو کا جو حصہ پیش کیا ہے وہی اس انٹرویو کے ”چھوٹا جھوٹ“ ہونے کو ظاہر کر رہا ہے جس کا مقصد بڑے جھوٹ کا ڈیمج کنٹرول کرنا ہے، لیکن ترجمہ کرتے وقت بھی بھائی نے فلٹر کا استعمال کیا ہے ، مثلا ًآیت الله کی جانب سے ڈاکٹر حسابی کو آئن سٹائن کا شاگرد قرار دینے کا ذکر پی گئے۔ آیت اللہ نے ڈاکٹر حسابی پر یہ بہتان بھی باندھا ہے کہ انہوں نے صرف ان کو بتایا کہ وہ آئن سٹائن اور آیت اللہ بروجردی سے قریبی تعلقات رکھتے تھے۔ آفیشیل ویب سائٹ پر نشر کئے گئے جھوٹ کے بعد آیت اللہ اس رابطے کے سرے سے نہ ہونے کا اقرار تو نہیں کر سکتے تھے، لہذا خود کو راوی بنا دیا۔انٹرویو لمبا ہے لیکن پہلے دو سوالوں کے جوابات میں ہی آیت الله کئی جھوٹ بولے ہیں۔ یہاں میں ان کو ہو بہو لکھ دیتا ہوں، کسی اعتماد والے فارسی دان سے ترجمہ کروا کر خود تسلی کر لیں۔ ویسے بھی کیا پتا کچھ سالوں بعد یہ انٹرویو ان کی نئی ویب سائٹ سے ہی غائب ہو جائے:
[پرسش: لطفاً چگونگی ارتباط حضرت آیتالله العظمی بروجردی (قدس سره) با آقای انیشتین را بیان فرمایید.
پاسخ: جناب آقای انیشتین و آیتالله العظمي بروجردی با یکدیگر به طور مستقیم ارتباط نداشته اند؛ نه آقای انیشتین به ایران آمده و نه آیتالله العظمي بروجردی به آمریکا رفته بودند؛ اما یک رابط قوی بین آن دو وجود داشت و آن، آقای پرفسور حسابی بود. ایشان از یک سو شاگرد انیشتین بود و با ایشان ارتباط داشت و از سوی دیگر، از ارادتمندان و علاقهمندان به آیتالله العظمي بروجردی بود و بسیار خدمت ایشان می آمد. اینجانب هم، چه در تهران و چه در قم، با دکتر حسابی در ارتباط بودم و خدمت ایشان می رسیدم.
پرسش: حضرت آيتالله علوي، آیا قرائن و شواهدی دال بر این ارتباط وجود دارد؟
پاسخ: در همان ایام ـ حدود 42 سال قبل ـ پیش از آنکه بحث ارتباط آیتالله العظمي بروجردی و انیشتین مطرح شود، آقای دکتر حسابی جریانی را در این رابطه برای بنده بیان کردند. ایشان گفتند: «پس از آنکه نظریه نسبیت انیشتین در محافل علمی مطرح شده بود، روزی خدمت آیتالله العظمي بروجردی رسیدم. ایشان از من درباره این نظریه توضیح خواستند و بنده هم این نظریه را به طور مبسوط شرح دادم. آیتالله العظمي بروجردی سؤالات دقیقی می پرسیدند و من هم جواب می دادم. وقتی مطلب تمام شد، به من فرمودند: سلام مرا به آقای انیشتین برسان و بگو شما موفق شدید از فیزیک روزنه ای به متافیزیک باز کنید». آقای پرفسور حسابی دقیقاً همین تعبیر را از آیتالله العظمي بروجردی مطرح کردند. این داستان دلالت می کند که بین انیشتین و آیتالله العظمی بروجردی، از طریق دکتر حسابی، ارتباطی هرچند در حد پیغام بوده است؛ اما درباره مسلمان و شیعه شدن آقای انیشتین ـ که بعدها مطرح شد اطلاع دقیق و قابل اثباتی نداریم.
انیشتن اگر بیشتر عمر میکرد، شاید بسیاری از مسائل را باز می کرد. امیدواریم دوباره مغز متفکری همچون او شکل بگیرد و کارهای او را دنبال کند و به قول آیتالله العظمي بروجردی، از عالم فیزیک به ماورای ماده راه یابد. اگر ماده ورایی داشته باشد، علمِ به ماده نیز باید به ماورای ماده منتهی شود. اساساً شناخت کامل، به آن سوی ماده پر می کشد. توجه به ماورای ماده، مسئلهای است که نمیتوان با یک احتمال کوچک، آن را از انیشتین نفی کرد. چنین رایحه ای در بسیاری از دانشمندان بزرگ استشمام می شود؛ اما اینکه انیشتین در این زمینه به چه مرتبهای رسیده است، باید بررسی و اثبات شود.]
کیا ان دعوؤں کی کوئی بنیاد ہے؟ یا یہ عقلی طور پر قابل قبول ہیں؟ ڈاکٹر محمود حسابی 1903ء میں ایران میں پیدا ہوئے۔ البرٹ آئن سٹائن نے اپنا نظریۂ نسبیت 1905ء میں پیش کیا ۔ یہ نظریہ گذشتہ کئی عشروں سے جاری اس بحث کا خاتمہ تھا، جو میکسوئل اور نیوٹن کی تھیوریز کے باہمی تعامل کے بارے میں جاری تھی۔ آیت اللہ بروجردی کی عمر اس وقت 30 سال تھی اور وہ فقہ وغیرہ کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ایران اس وقت علمی و ثقافتی اعتبار سے برصغیر سے بھی پیچھے تھا۔ آیت الله علوی فرما رہے ہیں کہ جب وہ نظریہ علمی حلقوں میں پیش ہوا تو ان کے دادا نے دو سالہ ڈاکٹر حسابی، جو نہ صرف آئن سٹائن کے شاگرد تھے بلکہ ان کے آئن سٹائن کے ساتھ مضبوط تعلقات تھے، سے لمبی چوڑی بحث کی اور پھر آئن سٹائن کے نام پیغام بھیجا۔
جو چاہے آپ کا حسن ِکرشمہ ساز کرے!
ڈاکٹر حسابی کے بچپن میں تو کیا، جوانی اور بڑھاپے میں بھی اس بات کا کوئی امکان نہیں۔ ڈاکٹر محمود حسابی کی عمر چار سال تھی کہ ان کا خاندان بیروت چلا گیا اور انہوں نے 1922ء میں امریکن یونیورسٹی آف بیروت سے روڈ انجینرنگ (جو آج کل سول انجینرنگ کہلاتی ہے) کی ڈگری حاصل کی۔ بعد میں وہ فرانس چلے گئے جہاں 1927ء میں انہوں نے الیکٹریکل انجینرنگ میں پی ایچ ڈی کی۔ انہوں نے پروفیسر کاٹن کے ساتھ کام کیا جو روشنی اور مادے کے تعلق پر کام کر رہے تھے۔اس سے آیت الله علوی بروجردی کا ڈاکٹر حسابی سے قریبی تعلقات رکھنا مشکوک ہو جاتا ہے کیوں کہ آیت الله علوی بروجردی تو ڈاکٹر حسابی کو آئن سٹائن کا شاگرد قرار دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر حسابی کا میدان سائنس کے قوانین کا علم نہیں، ان کے اطلاق کا فن ہے۔انجنیئر ،میڈیکل والے ڈاکٹر (معالج) ، اکاؤنٹنٹس، وکلاء وغیرہ ٹیکنیکل شعبوں کے لوگ علوم کی نظری بنیادوں سے آگاہ نہیں ہوتے ہیں ، بلکہ ان کے اطلاق میں مہارت حاصل کرتے ہیں۔ ڈاکٹر حسابی بھی ایسے ہی تھے۔وہ کوئی بہت بڑے سائنسدان نہیں تھے لیکن انہوں نے ایران آ کر انتظامی نوعیت کے اچھے اچھے کام کئے۔ اس وقت ایران میں ایسے شخص کا ہونا بھی غنیمت تھا جسے سائنس و ٹیکنالوجی کی اہمیت کا احساس ہو اور جو رضا شاہ پہلوی کے قائم کردہ سائنسی ادارے چلا سکے۔ لہٰذا وہ انتظامی نوعیت کے کاموں کی وجہ سے ایرانیوں کے ہیرو ہیں، جیسے ہمارے ڈاکٹر عبد القدیر خان قومی ہیرو ہیں۔ البتہ سائنس میں علمی لحاظ سے ڈاکٹر حسابی کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔کسی کو شبہ ہو تو ان کے مقالے دیکھے یا کسی یونیورسٹی جا کر متعلقہ شعبے کے کسی استاد سے پوچھ لے۔
آیت الله بروجردی 1945ء میں مرجع بنے لیکن اس وقت نجف کے مراجع کے پیروکار زیادہ تھے اور وہی دنیا میں جانے جاتے تھے۔ البرٹ آئن سٹائن کا انتقال 1955ء میں ہوا اور وہ بڑھاپے میں صرف کشش ثقل کے مسائل پر تحقیق کر تارہا تھا۔ آیت الله علوی بروجردی کا دعوی تو ڈاکٹر حسابی کے بچپن کے دنوں کا ہے لیکن اگر اسکو اس عرصے سے جوڑا جائے تو بھی یہ صریح جھوٹ ہے، کیونکہ:
(ا) ڈاکٹر حسابی کے پاس وہ بنیادی علم ہی نہیں تھا جس کی مدد سے وہ آئن سٹائن کے نظریات کو سمجھ سکتے۔ اسی طرح ان کے پاس آیت الله بروجردی کے فن کو سمجھنے کیلئے بھی کوئی صلاحیت نہیں تھی۔ انہوں نے جس میدان میں تعلیم حاصل کی تھی وہ آیت الله اور آئن سٹائن، دونوں کے تخصص سے الگ تھا۔آج بھی کسی سول یا الیکٹریکل انجیینئر کو نظریہ نسبیت نہیں پڑھایا جاتا، نہ انہیں اس کو جاننے کی ضرورت ہے۔ جنہیں خود سمجھ نہیں آ سکتا تھا وہ آیت الله بروجردی کو کیا سمجھاتے اور آیت اللہ سمجھے بغیر کیسے اجتہاد فرماتے؟
(ب) ڈاکٹر حسابی نے ایران میں اسلامی انقلاب کے تیرہ سال بعد 1992ء میں سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں انتقال فرمایا۔ آئن سٹائن سے کسی رابطے کا انہوں نے کبھی ذکر نہیں کیا۔ گہری علمی بحثوں کا تو کوئی سر پیر ہی نہیں۔ ڈاکٹر حسابی کسی علمی گفتگو کی روداد نہ لکھ سکے، کیسے ممکن ہے؟ ایران میں اسلامی انقلاب آنے کے بعد تو لکھ سکتے تھے؟
(ج) آئن سٹائن کی دستاویزات میں آیت اللہ بروجردی تو کیا ڈاکٹر حسابی سے بھی کسی قسم کے رابطے کا ذکر نہیں۔
(ڈ) ڈاکٹر حسابی کے امریکہ جانے اور آئن سٹائن سے ملنے کا کوئی ریکارڈ نہیں، اگر آیت اللہ نے گہری علمی مباحث والے خطوط لکھے یا زبانی ڈاکٹر صاحب کو یاد کروا کر بھیجے ہیں تو ڈاکٹر صاحب کا کئی بار امریکا جانا بنتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس وقت ایران میں مختلف سرکاری اداروں کے انتظامی معاملات میں ہی مصروف رہے۔اس عرصے میں انہوں نے امریکا کا سفر نہیں کیا۔
(ل) جس وقت ڈاکٹر حسابی جوان ہوۓ، سائنسی دنیا میں نظریۂ نسبیت پر بحث ختم ہو چکی تھی اور کوانٹم میکینکس پر بحث ہو رہی تھی- لہذا اس کا ”مطرح“ ہونا اور آیت الله کا اس میں حصہ ڈالنا ممکن نہیں ہے۔
(م) ڈاکٹر حسابی کے گھر والوں نے بھی کبھی اس بات کی تائید نہیں کی کہ انکے آئن سٹائن سے کسی قسم کے تعلقات تھے یا علمی تبادلہ خیال ہوا تھا۔مذہبی حلقوں میں آئن سٹائن کے ساتھ مختلف اشخاص کی تصویروں کو ڈاکٹر حسابی کی تصویریں بنا کر پیش کیا گیا تو انکے بیٹے نے تردید کر دی۔
(ہ) نظریہ نسبیت کا ماورائے مادہ سے بالکل کوئی تعلق نہیں۔
(ی) آج کے مراجع کرام بھی نظریہ نسبیت پر علمی گفتگو نہیں کر سکتے۔ ایران میں شریف یونیورسٹی اور تہران یونیورسٹی میں بڑے اچھے سائنسدان بیٹھے ہیں، ان سے تو کبھی کسی آیت اللہ نے علمی گفتگو نہیں کی نہ انہوں نے اپنے کسی مقالے میں ان کو مصنفین میں شامل کیا ہے ۔اور اس میں کوئی برائی بھی نہیں۔ نجاست طہارت، نکاح طلاق، شکیاتِ نماز وغیرہ کے مسائل بتانے کیلئےان کو کائنات کے اسرار و رموز جاننا ضروری بھی نہیں۔
” قوی احتمال ہے“ لکھ کر اسکے بعد جھوٹ لکھ دینے سے جھوٹ سچ میں نہیں بدل جاتا۔ ”نہ انکار کیا جا سکتا ہے نہ اقرار“ والی بات بھی محض پانی گدلا کر کے مچھلیاں پکڑنا ہے۔ اب میں کہوں کہ چونکہ مفتی رفیع عثمانی ایک عظیم مقدس شخصیت ہیں لہذا ممکن ہے کہ وہ پاکستانی سائنسدانوں کی رہنمائی فرماتے ہوں تو یہ بات ایک مغالطہ ہو گی۔ آپ کہیں گے کہ میاں یہ کیا چونکہ چنانچہ میں گھما رہے ہو، اگر رہنمائی فرماتے ہیں تو اسے سامنے لایا جائے اور اگر نہیں فرماتے تو اس کو ماننے میں شرمانا کیسا؟کیا ہر جگہ انکی رہنمائی کی ضرورت ہے؟
3. آیت الله مہدوی کنی نے وہی آفیشل ویب سائٹ والی بات نقل کی تو اس کا یوں دفاع فرماتے ہیں:
”جہاں تک تعلق مضمون نگار کی جانب سے شئیر کی جانے والے اس ویڈیو کلپ کا جس میں آیت اللہ مہدوی کَنی کسی کتاب کے ریفرنس سے آئن سٹائن کے شیعہ ہونے یا اس کے نظریے نسبیت کی جانب اشارہ کررہے ہیں تو عرض ہے وہ چیز جو اس دستیاب مختصر کلپ سے ثابت ہے وہ نقلِ قول ہے۔ آیا آیت اللہ مہدوی کنی اس قول کی تصدیق بھی کرتے ہیں؟۔ یہ اس دستیاب کلپ سے ثابت نہیں ہے“۔ آگے چل کر کہتے ہیں: ” قوی احتمال ہے آیت اللہ نے صرف نقل ِقول کے طور پر بولے یا کسی احتمال کی بنا پر بات کی ہو۔ اس کی وضاحت پورا کلپ ملاحظہ کرنے سے ہی ہو سکتی ہے جو مضمون نگار نے بہرحال پیش نہیں کیا اور عین ممکن ہے مضمون نگار نے پورا کلپ سننے کی زحمت کی بھی نہ ہو اور صرف اپنے مطلب کی دو سطریں معاند وب بلاگز سے اٹھا کر ایک مضمون کی عمارت کھڑی کردی ہو“۔
احتیاط کا تقاضا یہ تھا کہ بھائی آیت الله مہدوی کنی کی تردید ثابت کرتے، اگر اس کلپ میں کچھ کمی ہے تو وہ پورے کلپ کا لنک پیش کرتے۔ جس چیز کا احتمال نہ ہونے کے برابر ہے اسے عزیز بھائی ” قوی احتمال“ کہہ رہے ہیں۔ دستیاب کلپ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ آیت الله اس مقدس جھوٹ کی تائید فرما رہے ہیں ورنہ حرکت کی نسبیت کو جوہری حرکت والی بات سے کیوں جوڑ رہے تھے، اور ایک مثال سے مریدین کو سمجھا کیوں رہے تھے کہ اس خاص حرکت میں مکانی فاصلہ طے نہیں ہوتا؟۔ ”حرکت کی نسبیت“ کو ”خاص قسم کی حرکت، یا نورانی حرکت“ قرار دینا اور پھر اس کو ملا صدرا کی ”جوہری حرکت“ سے جوڑنا آیت الله کی اپنی اختراع ہے، یہ بات مرحوم آفیشل ویب سائٹ پر چھپنے والے جھوٹ کے طومار میں موجود نہیں تھی، جس کو مدرسۃ القائم والی ویڈیو میں ہو بہو پڑھا گیا ہے۔ ملا صدرا سترہویں صدی عیسوی کے ایک شیعہ صوفی تھے جنہوں نے صوفیا کے منتشر افکار کو فلسفیانہ نظم دے کر صوفیوں کے قدیم مسلمان فلسفیوں سے اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش کی، کہ جس کی بدولت امام غزالی نے ابن سینا کو کافر کہا تھا اور ان کی تقلید میں صوفیا نے حکمرانوں سے مل کر قرون وسطیٰ کے مسلمان معاشرے کی سائنس کو ختم کیا تھا۔ ملا صدرا جسمانی نہیں، روحانی معراج کے ہی قائل ہیں البتہ اس کو جسم مثالی کی معراج کا نام دیتے ہیں۔ بغیر تصدیق کے، آفیشیل ویب سائٹ پر اعتماد کر کے تائید والا کام صرف انہوں نے نہیں کیا بلکہ متعدد آیت اللہ صاحبان نے کیا۔بیرونِ ملک چھپنے والی کتاب کونسی ہے؟ کہاں سے اور کس سال چھپی ہے؟ان سوالوں سے آیت الله کو کوئی غرض نہیں۔ آئن سٹائن کے نظریۂ نسبیت کو بہت پہلے سے واقعہ معراج سے جوڑا جا رہا ہے، اور یہ قصہ آیت الله کیلئے اسی سلسلے کی کڑی تھا۔
مضمون کافی طویل ہو گیا ہے۔ اس کے بعد بھائی نے جو کچھ فرمایا ہے اس کی حیثیت بھی انہی دعوؤں جیسی ہے جن کا اوپر جائزہ لیا گیا ہے۔ آیت الله مکارم ایک قابلِ احترام مرجع تقلید ہیں لیکن ان کی تفسیرِ نمونہ میں جہاں سائنس کی آمیزش ہوتی ہے وہاں کسی سائنس دان کو جان کی امان دے کر اسکی علمی حیثیت پوچھی جا سکتی ہے۔ قرآن و جدید سائنس کے عنوان سے لکھی گئی سب کتابوں کا یہی حال ہے اور وہ صرف نیم خواندہ طبقے میں ہی دھوم مچاتی ہیں۔ طبِ اسلامی کے نام پر آیت الله تبریزیان کو رہبر کی تائید حاصل ہے۔ طب، اسلامی یا غیر اسلامی نہیں ہوتی ۔طبِ اسلامی کے نام پر جو شگوفہ پیش کیا جا رہا ہے وہ اصل میں عرب یا یونانی معاشرے کی قدیم مہارتیں ہیں جو اسلام سے پہلے موجود تھیں۔ اب علمِ طب آگے جا چکا ہے اور ان چیزوں کی کوئی حیثیت نہیں ۔ جوطب اپنے زمانے میں طاعون، چیچک ، خسرہ یا دیگر بےشمار جان لیوا بیماریوں سے نہ بچا سکی وہ اب کیا کر لے گی؟ حضرت عمر کے زمانے میں طاعون کی وبا آئی تھی، اس کے بعد بھی آتی رہی۔ اس طب نے اس وبا کے خلاف کونسا تیر مارا تھا؟ اس کو اسلام سے نتھی کرنے سے اسلام کا نقصان ہو گا یا فائدہ؟ ۔ آیت الله تبریزیاں کی طب کے بارے میں کسی تعلیم یافتہ شخص سے پوچھ کر اپنا شک دور کر لیں۔ مسلمان سائنس دانوں نے سائنس میں جو کام کیا وہ سارا فقہی آئمہ کے زمانے کے کم از کم دو سو سال بعد ہوا اور اس کی بنیاد یونان اور ہندوستان کے علوم پر رکھی گئی ۔انہوں نے کبھی اپنے سائنسی علم کو اسلام سے نتھی نہیں کیا۔ طبِ اسلامی اور طبِ نبوی جیسی اصطلاحیں اب گھڑی گئی ہیں۔ ان سائنسدانوں کی عظمت بھی اسی لئے ہے کہ اس جہالت کے دور میں یہ کچھ جانتے تھے، ورنہ انکی کتب اب کسی کام کی نہیں ہیں۔ اس دور میں بھی علمائے کرام نے ان کے ساتھ جو کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
مدارس میں پھیلے ہوئے جھوٹ کئی طرح کے ہیں اور ، جیسا کہ ان دو مضامین سے معلوم ہو گیا ہو گا، ہر ایک جھوٹ کی اصلیت سامنے لانے کیلئے بہت وقت اور ذہنی توانائی چاہئیے- جھوٹ بولنا آسان ہوتا ہے لیکن اس کا تجزیہ کرنا اور عام قاری کو حقیقت سمجھانا مشکل ہوتا ہے۔ اگر وہ مقدس ہو تو یہ کام اور مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر وقت ملا تو کچھ مزید مقدس افواہوں کے بارے میں بھی لکھوں گا۔ زمانہ گھڑی کے چلنے سے نہیں، علم میں ترقی کرنےسے بدلتا ہے۔ ہمیں حقیقت پسندی اور سائنسی سوچ کو اپنانا ہو گا، ورنہ باقی دنیا تو ہمارا انتظار کئے بنا آگے جا رہی ہے۔ کب تک ہم علماۓ کرام کی جہالت کا دفاع کرتے رہیں گے؟