وطن عزیز میں خواجہ سراء کمیونٹی کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور ناانصافیوں کی بِنا پر ملک کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا حصہ خیبر پختون خوا ، پنجاب اور بلوچستان پر مشتمل ہے۔ جہاں آئے روز تشدد کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اور بیشتر کیسز میں انصاف بھی نہیں ملتا۔ خواجہ سراؤں کے حقوق کے حوالے سے سندھ اتنا روشن خیال ہے کہ لگتا ہی نہیں کہ ہمارے ملک کا صوبہ ہے۔ فاطمہ بھٹو سال قبل شادی کے بندھن میں بندھیں۔ تقریب میں خواجہ سراء بھی نظر آئے۔ تصاویر میں نوبیاہتا جوڑا بندیا رانا جی سے دعائیں لیتا نظر آیا۔ بندیا رانا کی ٹیم کی تصاویر بلاول بھٹو، مراد علی شاہ، مرتضٰی وہاب وغیرہ کے ساتھ وائرل ہوتی رہتی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے کے-ایم-سی کے الیکشنز میں بھی خواجہ سراء کمیونٹی کو نمائندگی دی۔ مورت مارچ اور ہیجڑا فیسٹولز بھی سندھ میں ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
ملک کے پہلے خواجہ سراء ڈاکٹر، وکیل، ماڈلز وغیرہ کا تعلق کراچی شہر سے ہے۔ سندھ ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں خواجہ سراء عزت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے بھی نظر آتے ہیں۔ کراچی کے کچھ خواجہ سراء جس قسم کے لباس میں ٹک ٹاک بناتے نظر آتے ہیں ملک کی مشہور ترین ماڈلز بھی اس قسم کے لباس میں فوٹو شوٹ کرواتے وقت دس بار سوچیں گی۔ کراچی کے چند خواجہ سراء ہم جنس پرستی کو کھل کر سپورٹ اور مذہبی جماعتوں کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے نظر آتے ہیں۔ کچھ خواجہ سراء خبروں کی زینت بنے رہنے کے چکر میں آئے روز قتل اور تیزاب گردی کی دھمکیوں پر مبنی ویڈیوز بنا کر ڈالتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ دھمکیوں سے متعلق اتنی ویڈیوز بنا چکے ہیں کہ اب میں انکی پوسٹ پر ہمدردی کے کمنٹس بھی نہیں کرتا۔ خواجہ سراؤں کا یہ گروپ ملک کو درپیش کسی بھی مسئلے پر کچھ بھی کہہ جاتا ہے لیکن لوگ بُرا نہیں مناتے۔
صوبہ سندھ میں دو بڑی قومیں آباد ہیں پہلے سندھی ہیں جو خواجہ سراء کمیونٹی کو خدا سے زیادہ نزدیک سمجھتے ہیں اور دعائیں کرواتے ہیں۔ دوسرے اردو بولنے والے ہیں جو پڑھے لکھے کاروباری ذہن کے مالک ہیں۔ یہ لوگ بھی شدت پسندی پر یقین نہیں رکھتے۔
سندھ کے خواجہ سراء ایک طرف کاروبار اور ڈگریاں کر کے ملک کا نام روشن کر رہے ہیں تو دوسری طرف خواجہ سراؤں کا ایک گروپ قتل اور دہشتگردی کی خبریں پھیلا کر سندھ حکومت کیلئے درد سر بنا ہوا ہے۔
چنیوٹ سے تعلق رکھنے والی ہماری بہت اچھی دوست رانی خان نے تین سال قبل اسلام آباد میں خواجہ سراء کمیونٹی کیلئے دنیا کا پہلا مدرسہ قائم کیا۔ اس مدرسے کی خاصیت یہ ہے کہ یہ جنس اور فرقے کی قید سے آزاد ہے۔ یہاں صرف قرآن پاک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ کوئی بھی انسان یہاں آکر قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔ مدرسے کے اوپر شیلٹر ہوم ہے جہاں کوئی بھی خواجہ سراء مفت رہائش حاصل کر سکتا ہے۔ رانی خان نے خواجہ سراء کمیونٹی کو بھیک، سیکس ورک اور فنکشنز سے بچانے کیلئے ہنر سکھانے کا کام بھی شروع کیا ہوا ہے۔ اسکے علاوہ رانی خان نے اسلام آباد کے مختلف سکیٹرز میں خواجہ سراؤں کو اسٹال لگا کر دیئے ہیں۔ خواجہ سراء ریڑھیوں پر بچوں کے کھلونے اور خواتین کے استعمال کی اشیاء لے کر مختلف مارکیٹوں کے باہر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حق حلال کی مزدوری کرکے شام کو گھر آ جاتے ہیں۔
مدرسے اور شیلٹر ہوم کی تعمیر کے بعد رانی خان کے حوصلے مزید بلند ہوگئے۔ رانی خان کے ہاتھوں میں انکی قریب ترین خواجہ سراؤں نے دم توڑا ہے۔ اس لیے رانی خان ہسپتالوں میں خواجہ سراؤں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک سے اچھی طرح واقف ہیں۔ مدرسے کی تعمیر کے بعد رانی خان نے اس سے جڑے چار مرلے کے پلاٹ پر نظر جمالی اور پیسے جوڑنا شروع کر دیئے اور چند ماہ بعد کچھ ڈونرز کی مدد سے پلاٹ خرید لیا۔
یہ پلاٹ اسلام آباد کے سیکٹر ایف-گیارہ-ایک کی گلی نمبر ایک میں واقع ہے۔ پلاٹ خریدتے وقت اس جگہ زمین کی قیمت ساڑھے تین سے چار لاکھ روپے مرلہ کے درمیان تھی۔ لیکن رانی خان کو یہ پلاٹ چھتیس لاکھ کا ملا۔ پلاٹ کے ساتھ گلی نہیں لگتی تھی۔ مالک نے رانی سے وعدہ کیا کہ بلڈنگ مکمل ہو جانے کے بعد ہسپتال کو راستہ فراہم کیا جائے گا۔
دو سال کے مختصر سے عرصے میں رانی خان نے سلائی سینٹر، سٹالز، مدرسے کی کمائی اور لوگوں کی امداد سے بلڈنگ مکمل کر لی ہے۔ رانی خان کو اس وقت ادویات ڈاکٹرز اور ایک ایمبولینس کی ضرورت ہے۔ جن کی دستیابی کے بعد خواجہ سراء کے ہاتھوں سے بنا دنیا کا پہلا خواجہ سراء ہسپتال فنکشنل ہو جائے گا۔
کل شام رانی خان نے کال پر ہمیں بتایا کہ انھیں ہسپتال کیلئے گلی فراہم نہیں کی جا رہی جس کی وجہ وہ پریشان ہیں۔ رانی خان نے کہا کہ وہ اور میں ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ ہمارا مقصد انسانی حقوق کا احترام اور سر بلندی ہے۔ رانی خان نے ہمیں بتایا کہ انھیں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔ رانی خان نے ہمیں اپنے حق میں آواز بلند کرنے کی درخواست بھی کی۔
رانی خان اسلام آباد میں خواجہ سراؤں کیلئے دنیا کا پہلا مدرسہ قائم کر کے ملک کا نام روشن کر چکی ہیں۔ اسکے علاہ بہت سے خواجہ سراؤں کو بھیک اور سیکس ورک سے چھٹکارا دلا کر اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز میں اسٹال لگا کر دے چکی ہیں۔ رانی خان کا مدرسہ قرآن کے ساتھ ساتھ ووکیشنل ٹریننگ سینٹر کا کام بھی کرتا ہے۔ رانی خان کے سلائی سینٹر سے ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد بہت سے خواجہ سراء اپنا کاروبار بھی شروع کر چکے ہیں۔ اسکے علاوہ رانی خان بہت سے پڑھے لکھے خواجہ سراؤں کو پکی نوکریاں بھی دلوا چکی ہیں۔
رانی خان نے برائی کے راستے کو چھوڑ کر اچھائی کا راستہ چنا ہے۔ خواجہ سراء کمیونٹی کی خدمت کی اور دنیا میں ملک کا نام روشن کیا ہے۔ بند پلاٹ کیلئے گلی چھوڑنا قانون کا حصہ بھی ہے۔
رانی خان ہسپتال راولپنڈی اور اسلام آباد میں رہنے والے خواجہ سراؤں کو علاج کی سہولیات فراہم کرے گا تو دوسری طرف دنیا کو پاکستان کا روشن خیال چہرہ بھی دکھائے گا۔ہماری وزیر داخلہ، چیئرمین سی-ڈی-اے اور اسلام پولیس کے آئی-جی صاحب سے گزارش ہے۔ خواجہ سراء کمیونٹی کے پہلے ہسپتال کو نہ صرف راستہ فراہم کیا جائے بلکہ ایمولینس اور ادویات کی فراہمی میں رانی خان کی مدد کی جائے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں