بادبان!ٹمٹماتے چراغوں کی داستان(قسط16)۔۔۔۔محمد خان چوہدری

گزشتہ قسط:

کہنے لگا کہ اس کے دوست شفقت کا چھوٹا چچا احمد نواز کاظم جو باوا جی سے مل چکا ہے وہ پہلے شیعہ ہوا،اب اسے دس بندوں کا حج کوٹہ ملا ہے، وہ چاہتا ہے کہ پہلی بار پکے شیعہ بزرگ لے کے جائے، تو کرنل انکل آپ تو عمرہ کر آئے ہیں زیارات بھی تو آپ، اور آپکی مسز،باوا جی، آنٹی زہرا ، انکی امی ، پانچ بندے تو گھر کے ہو گئے، صوبیدار انکل اور ان کی بیگم بھی جانے کو تیار ہونگے احسن کہہ رہا تھے۔۔۔۔
چلیں ڈن کریں۔
کرنل صاحب کھلکھلا کے ہنس پڑے،تم بھی چلو گے ؟ اصغر نے کہا میرا تو ابھی کوئی  محرم ہی نہیں  ہے۔اس دعوت میں اصغر کے مردانہ قوی پہلی بار بیدار ہوئے ، خاندان کی ہم مرتبہ ، ہم عمر اور ہم نشین ہونے کی آرزومند لڑکیوں کے جوانی سے مہکتے بدن کی خوشبو اس نے محسوس کی، سمجھے بغیر اسے اپنے بدن میں آہٹ سی ہوتی لگی، یہ کیفیت بڑی کیف انگین تھی۔۔۔

پچھلے تین دن سے روزانہ شیزان ہوٹل کے ہال میں تین نوجوان ایکسپرٹ دو وکیل ایک اکاؤنٹنٹ ، شفقت اصغر اور احسن مسلسل اس پر غور کر رہے تھے کہ اصغر کی آنٹی نے یوں کھلے بندوں ، نئی مکین کی بات کر کے شادی پر رضامندی کا اظہار کیا، یہ مزاح تھا ! اصغر کی شادی کی فرمائش تھی یہ کیا بات تھی۔

نئی قسط:

پنجاب یونیورسٹی کے ادبی اور تہذیبی ماحول کے باوجود اصغر۔احسن اور شفقت کی ٹریل ہموار نہیں رہتی تھی،گپ شپ میں احسن کا سرداری مزاج اور شفقت کے دستکاری انداز میں دبا دبا سا تصادم موجود رہتا، اصغر اس میں توازن برقرار رکھتا۔ بے تکلفی تینوں میں بہت تھی، گاؤں کی پوری رپورٹ زیر بحث زیادہ اس لئے رہی کہ ہوٹل پہ  بیٹھ کے چائے کے ساتھ لاحاصل جذباتی ڈسکشن سے بہتر وقت گزاری کوئی  نہیں۔شفقت نے بہر حال بہتر رائے دی کہ باوا جی اور آنٹی زہرہ کا کیس صوبیدار صاحب کی عدالت میں دوبارہ لگنا چاہیے۔
احسن نے اصغر کو علیحدہ لے جا کے بتایا کہ اس کے بہنوئی  کی گورنر ہاؤس ٹرانسفر ہو گئی ہے۔صوبیدار صاحب رات آرہے ہیں، گورنر صاحب سے ملاقات بھی کریں گے۔ اور بُری خبر یہ کہ وہ نیو کیمپس ہاسٹل شفٹ ہو رہا ہے، پتہ نہیں  شفقت سے یہ امر چھپانے کی وجہ کیا تھی ؟

نیو کیمپس میں احسن کے دو عزیز جو راجہ کہلاتے مقیم تھے، وہ اوراصغر کئی بار وہاں دن گزارنے جاتے تھے،آخری وزٹ میں تو ان کی ملاقات گرلز ہاسٹل میں مقیم لاء سٹوڈنٹس عاصمہ شاہ اور نویدہ کنول سے بھی ہوئی  تھی،واقفیت تو کالج میں تھی لیکن اس روز نہر کنارے ان کی طرف سے بائی  چانس انفارمل دعوت سے عاصمہ شاہ اور اصغر شاہ میں نادیدہ انسیت موجود تھی، احسن اور نویدہ سینئر اداکار بن گئے ۔گاؤں کے عید مِلن میں پڑھے سبق اصغر سمجھ چکا تھا ۔ موقع  ملنے پر عملی کام کی احتیاج جڑ پکڑ چکی تھی۔
احسن ہوٹل سے کینٹ چلا گیا ۔ شفقت بھی پُرسکون ہو گیا۔ اسے اب سینئر وکیل سے کیس تیار کرنے پر وظیفہ ملنے لگا تھا۔شیزان سے نکل کر دونوں مال روڈ پہ  سیر کرتے باتیں کرتے پیدل ہاسٹل پہنچ گئے۔ شفقت نے بتایا کہ اسکی والدہ اپنی بھتیجی سے اس کی فوری شادی کرنا چاہتی ہے ،ابا راضی نہیں ، دادا دادی نواسی لانا چاہتے ہیں ، اصغر نے ہنس کے پوچھا کہ دولہا کو کون دلہن من بھائی  ہے ؟ شفقت نے سنجیدہ اور رنجیدہ جواب دیا۔۔ کہا،تم اور احسن بڑے خاندان سے ہو، سوچ بھی نہیں  سکتے کہ یہ “کمی، کم ذات ” کی مہر کیا ہوتی ہے۔ تم جس طرح اپنے باپ کی دوسری شادی کی بات چلا رہے ہو اور خاندان سے کوئی  بول نہیں  سکتا، ہم ایسا کریں تو فٹ ہم پہ   بے شرم اور گھٹیا ذات ہونے کی گالیاں برسنے لگیں ۔

سی ایس پی اور پی سی ایس کی بہت آسامیاں خالی ہیں ۔ لیڑل انٹری کا امتحان ہو گا ۔ میں سول جج کا دوں گا۔ہاسٹل کمرے میں شادی کے دو کارڈ پڑے تھے، ملتان میں ذیشان کی شادی اسکے ماموں جی ایس ملک کی بیٹی جو ایم بی بی ایس کر رہی تھی دو دن بعد تھی، ذیشان تو بی اے کرتے بنک آفیسر بھرتی ہو گیا تھا۔سردار احسن نواز کا سامان سبز رنگ کے منی ٹرک پہ  کیمپس پہنچا ، راجہ صاحبان کے دل میں حسد جاگا،وہ اس سے پہلے ہاسٹل میں منفرد تھے احسن کے سٹائل نے انکے سوشل سٹیٹس کو زک پہنچائی  لیکن وہ اسے اپنا رشتہ دار بتاتے اس کے ساتھ کمرہ سیٹ کراتے اسے پورا کر گئے۔

صوبیدار صاحب گورنر ہاؤس سے لنچ کے بعد فارغ ہوئے، انکے لاہور قیام کے دوران استعمال کے لئے سرکاری کار ان کی ڈسپوزل پہ  کر دی گئی، احسن کیمپس سے واپس آ چکے تھے، اس کے ساتھ وہ اصغر شاہ سے ملنے کالج پہنچ گئے، وقار شاہ سے تعلق اصغر سے شفقت کا متقاضی تھا، وہ گاڑی میں ہی بیٹھے رہے، احسن اصغر کو بُلا لایا، شفقت بھی اسکے ساتھ تھا، کار پرنسپل آفس کے سامنے تھی، انکے آفس کے اہلکار سمجھے کہ پرنسپل سے ملنے کوئی  اہم شخصیت آئی  ہے، انہیں اطلاع دی تو وہ بھی باہر نکل آئے، اصغر شتابی صوبیدار صاحب سے ملنے دوڑا، ان کو بتایا سامنے پرنسپل ہیں تو وہ کار سے اتر آئے، وہ سردار بھی تھے، شخصیت بھی رعب دار، گورنر ہاؤس کی گاڑی ۔ تو پرنسپل صاحب نے بڑھ کے استقبال کیا، اصغر نے جب سب کا تعارف کرایا ،پرنسپل صاحب اس غلط فہمی سے محظوظ ہوئے، صوبیدار صاحب نے معذرت کرنی چاہی تو وہ انکا ہاتھ پکڑ کے انہیں دفتر لے گئے۔کہ سٹوڈنٹ کے بزرگوں سے اتفاقیہ ملاقات باعث شرف ہے، تینوں شاگرد ہاتھ باندھے مؤدب کھڑے رہے
یہ دلچسپ ملاقات ختم ہوئی، کار  کے پاس واپس آئے تو شفقت نے ادب سے سلام کیا، اس کا تعارف پوچھا،شفقت نے جھک کے کہا۔ سردار صاحب میں چک شاہ پور والی کے آپکے ہمنام مستری کا پوتا ہوں ۔۔۔
باوا جی وقار شاہ کی شفقت سے وکیل بن رہا ہوں ۔ صوبیدار صاحب نے شفقت سے اس کے سر پہ  ہاتھ رکھ کے فرمایا، ہنر مند تو پیدائشی اشراف ہوتے ہیں ، تم وکیل ہو اور جج بن جاؤ گے، دعا ہے میری۔۔۔
شفقت نے ڈبڈبائی  آنکھوں سے رخصت لے لی، اصغر شاہ اور احسن کے ساتھ صوبیدار صاحب واپس مال روڈ پے ” شیزان ہوٹل ” آ گئے، اس ہوٹل کے ساتھ انکے علاقے کے لاہور آنے جانے رہنے والے تمام معززین کی مشترکہ بیٹھک والی نسبت تھی، کالج یونیورسٹی سے لے کر سروس کاروبار تک سب نے شام یہاں گزاری ہوئی  تھی۔پرانا مخصوص ویٹر یونس بھی ان کو پہچان گیا ، منیجر کے ساتھ نشست پر آ کے سلام کیا۔کچن سے سپیشل چائے بنوا کے لایا، ٹیبل لوازمات سے بھر دی گئی،صوبیدار صاحب کو کچھ بریفنگ احسن نے دی تھی، انہوں نے اصغر سے بڑی شفقت سے تفصیل پوچھی۔۔
اس نے کرنل صاحب کی دعوت تک ہر بات بلا کم و کاست بیان کر دی۔ وہ کافی دیر سوچنے کے بعد بولے۔۔“ یہ وقار شاہ اپنے چھن پتال سے باز نہیں  آئے گا۔ کون سی بارات ڈولی ہونی ہے، گھر کا رشتہ ہے ،چار بول پڑھانے ہیں اور کیا ولیمہ کرنا ہے؟ ، بھولا تے جھلا سید ہے شروع سے ہی “۔۔

اصغر سے پوچھا ۔ تم لوگوں کے امتحان کب ہیں ؟ اس نے کہا میرے تو دو ماہ بعد ہیں اور احسن بھائی  کے اگلے ماہ ہیں۔
فرمانے لگے ۔ تم لوگ آرام سکون سے تیاری کرو، میں سارا بندوبست کر لوں گا۔ وہ بی بی تو گاؤں میں ہے نا؟
اصغر نے کہا کہ کرنل صاحب ان کو اور نانی جی کو اسلام آباد لے گئے تھے ۔ اگلے ہفتے واپسی ہے۔اب صوبیدار صاحب محسوس کر گئے کہ اصغر بہت ٹینشن لے رہا ہے، مسکرا کے اسے تھپکی دیتے کہا، بیٹا جی آپ اور احسن شاید  وقار کے نکاح کے چھوہارے نہ کھا پائیں ۔ بڑی عید پہ  ہم اپنے گاؤں میں وقار کی شادی کا جشن منائیں گے ۔ تب تک تو تم دونوں فارغ ہو گے، دعوت دے رہا ہوں ۔ آنا ضرور”۔

اصغر کافی ریلیکس ہو گیا۔ واقعی اس کا ذہن آنٹی زہرا کے ریمارکس کے بعد باوا جی کی عدم پیروی سے بغاوت پہ  مائل ہو گیا تھا احسن سے پچھلی گفتگو میں جو اس کی عاصمہ شاہ سے ملاقات  ہوئی  اس نے کھل کے کہہ دیا کہ مجھے کیا پڑی ہے اب ماں ڈھونڈنے کی ۔ میں اپنی شادی کر کے اپنے ہونے والے بچوں کی ماں کیوں نہ لے آؤں ۔
دوسرے اکبر شاہ کی بیگم کی چُر چُر کی وجہ سے باوا جی نے اسے بنک والی جیپ لاہور لانے سے روک دیا تھا۔
عاصمہ شاہ سے ملاقات میں وہ سوچتا رہا کہ جیپ ہوتی تو نہر والی سڑک پہ ڈرائیو کا کتنا مزہ آتا۔اُس نے تھوڑی ایکسائٹمنٹ میں صوبیدار صاحب سے فرمائش کی ۔۔
انکل ایک اور فیور چاہیے۔ لینڈ روور جیپ میں نے اپنے لئے خریدی، وہ اب گاؤں میں فیملی کار استعمال ہوتی ہے۔۔بھائی  جعفر کو فوکسی بھی میں نے دلوائی  ،بنک سے جیپ لینی تھی تو بڑی بھابھی نے رونا ڈال دیا تھا۔۔میرے پاس بڑی جیپ تھی تو کہہ دیا تھا کہ بنک والی جیپ انکی ہو گی، میں یہاں سال بھر سے رکشے پہ  پھرتا ہوں ۔ بنک کا سارا کام میں نے کرایا، چک میں نیا گھر اور دفتر بنوا دیا ہے
تو پلیز باوا جی کو بتا دیں ۔ کل شفقت اور میں ملتان جا رہے ہیں وی پی انکل کی بیٹی کی شادی میں ۔۔
واپسی میں جیپ لے آؤں گا۔۔۔ وہ جذبات میں بولے جا رہا تھا، صوبیدار صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے اسے چُپ کرا دیا۔ بلند آواز تھی ہوٹل میں دیگر لوگ متوجہ ہو رہے تھے۔صوبیدار صاحب نے بل لانے کو کہا تو منیجر نے ہاتھ جوڑ دیئے کہ آپ ہمارے پرانے مہربان ہیں مہمان ہیں،چائے کیا، آپ لوگ ڈنر بھی ہماری طرف سے کریں گے۔
شکریہ ادا کرتے صوبیدار صاحب نے موجود سب بیروں کو ٹپ بانٹ دی، وہ سب ڈور تک لائن میں کھڑے ہو گئے
کار میں بیٹھ کے اصغر کو پیار سے کہا۔  پُتر تو جیپ لے آنا ،وقار سے بات کر لیں گے۔

سالٹ رینج کا نمک اور یہاں کے باسی دنیا میں ہر جگہ ملتے ہیں۔نمک  زبان پر رکھتے اور بندے   کی زبان سنتے ۔ دونوں ہی پہچانے جاتے ہیں ۔ ذائقہ اور لہجہ بتا دیتا ہے ۔۔۔کہ یہ کوہ ہمالیہ کے گود لئے کوہستان نمک کی پیداوار ہیں ۔۔
نویدہ کنول کا جغرافیہ تو آسان ہے، اس کے بزرگ ، سردار احسن نواز کے گاؤں سے متصل قصبے سے اور ان کی برادری سے تھے وہ بڑی زمینداری کے لئے کسووال منتقل ہوئے تھے،زمین الاٹ ہوئی  آبادکار ہوئے، نویدہ کے والد اس کے دادا کے بڑے بیٹے تھے،ان کو حسب روایت لاہور سے پڑھا کے وکیل بنا گیا کہ خاندان میں اپنے مقدمات کے لئے وکیل گھر کا ہونا چاہیے،انہوں نے اپنے چھوٹے بھائیوں اور اپنے بیٹوں کے حصے کی تعلیم بھی حاصل کر لی۔ ان کے علاوہ کسی نے میٹرک  ،ایف اے سے آگے ایک جماعت پڑھ کے نہ دی، انکی وکالت بھی چوہدری والی تھی، ساہیوال چیمبر بنایا۔وہاں رہائش رکھی۔ ملتان کے مشہور وکیل شاہ صاحب سے دوستی تھی کیس یہ لیتے وکالت شاہ جی کرتے نویدہ کنول نے ضد کر کے بی اے کیا، پوزیشن لی اور شاہ صاحب کی بیٹی عاصمہ شاہ کے ساتھ لاہور لاء کالج میں داخل ہو گئی، احسن کے ساتھ علاقائی  تعارف اور برادری کی جان پہچان سے راہ رسم بن گئی۔

اصغر نے چک ڈیرے پہ  منشی چاچا مانے کو پیغام بھجوا دیا تھا کہ ٹریکٹر ڈرائیور سے جیپ سٹارٹ کرا کے سروس کرائے،اس کا انجن آئل بدلے، بیٹھک کی صفائ کرائے۔ شفیق ڈرائیور اور ساجد کو گاؤں منتقل کئے جانے سے اب اصغر کے ذاتی کام کاج دوبارہ منشی کے ذمہ لگ گئے۔
ذیشان کی شادی کا فنکشن بہت بڑا ایونٹ تھا ناظر صاحب تو ڈسٹرکٹ انتظامیہ کے روح رواں تھے ساتھ ملک غلام شبیر صاحب کا بنک کے زونل چیف ہوتے رتبہ کم نہ تھا، شہر اور علاقے کے معززین کا بڑا اجتماع تھا۔ اصغر کا جسم اب تھوڑا بھر گیا تو تھری پیس سوٹ ، برائیٹ نکٹائی ، چمکتے شوز پہنے وہ اپنے والد باوا وقار شاہ کی ماڈرن کاپی لگ رہا تھا، ساتھ شفقت کی تابعدار ہمراہی نے اسے اور نمایاں کر دیا، وہ ہمیشہ اس سے تھوڑا پیچھے چلتا،سٹیج پہ  دونوں جب دولہا دلہن سے مل رہے تھے تو خواتین و حضرات کی توجہ کا مرکز اصغر شاہ تھا، ملک صاحب، ناظر صاحب انکی بیگمات سب بڑی شفقت سے اسے ملے، سٹیج سے اترے تو ملک صاحب کی چھوٹی بیٹی بالکل سامنے تھی، ایک وہ بنی ٹھنی تو تھی دوسرا اصغر کے سنسر بھی فعال تھے، اس نے پیار کے انداز میں گلہ کیا “ ارے آپ ملتان چھوڑ گئے ! کہاں غائب ہیں ؟ “۔۔
اصغر نے قریب ہوتے جواب دیا۔ “ پون وکیل بن چکا ہوں ۔جیسے پورا بنا تو آپکے پاس آ جاؤں گا”
فنکشن میں نمایاں طور حاضری لگ گئی، تو یہ دونوں کھسک آئے۔۔
چک میں بنک دیکھا ، لگتا تھا کہ یہ عمارت تو یہاں شروع سے تھی، منیجر صاحب تو شادی میں گئے تھے،حاطے والی کوٹھی بھی لاک تھی، آفس پہ تا حال شاہ اینڈ شفقت کا بورڈ ہی آویزاں تھا۔کھڑے کھڑے شفقت کے گھر والوں کو خدا حافظ کیا اس نے کچھ سامان جیپ میں رکھا۔ ڈیرے پہنچے منشی ٹیم تو انکے رات رکنے کی توقع لئے تھی، سب اصغر شاہ سے مانوس جو تھے، اصغر نے ہنستے مسکراتے رخصت لی، منشی پیسے بنک سے نکال لایا تھا، اصغر کو دیئے، بنک کے زونل چیف والی جیپ بجائے گاؤں میں مسز اکبر شاہ پاس پہنچنے کے لاء کالج لاہور کے ہاسٹل پہنچ گئی ،صبح شفقت کورٹ چلے گئے
اصغر شاہ پورے سج دھج سے جیپ پے کالج آیا، ایڈمن بلاک کی پارکنگ میں جیپ کھڑی کرنے لگا تو یونیورسٹی بس سے عاصمہ اور نویدہ اتریں ۔ سلام دعا ہوئی ۔ عاصمہ کے چہرے کی خوشی دیدنی تھی، اس نے بتایا کہ پرنسپل صاحب سے ملاقات ہے۔
مل جل کے چلتے کلاس رومز پہنچے ، دو پیریڈ پڑھے تو چپڑاسی نے اصغر کو ڈھونڈ کے بتایا کہ سٹوڈنٹ آور میں اسے پرنسپل نے طلب کیا ہے، پریشان دیکھ کے اس نے تسلی دی کہ گورنر ہاؤس کی گاڑی پہ  آنے والے صاحب بارے کچھ معلومات کے لئے طلبی ہے فکر کی بات نہیں ،پرنسپل صاحب عاصمہ کے والد کے وکیل دوست تھے، یوں عاصمہ اور اصغر دونوں اکٹھے پیش ہوئے تو صوبیدار صاحب
کے کوائف پہ  باتوں میں یہ پتہ چلا کہ عاصمہ شاہ کے آباؤ اجداد کا تعلق بھی سالٹ رینج علاقے کے سادات کے مشہور گاؤں سے تھا، پرنسپل کسی ذاتی کام کے لئے گورنر سے ملنا چاہتے تھے، فون پہ  ملتان عاصمہ کے والد سے بات کی تو دوران گفتگو سردار حق نواز، سے دوستی ، سید وقار شاہ اور عاصمہ کے والد کی باہم رشتہ داری کڑیاں مل گئیں ۔
ان کے ددھیال اور وقار شاہ کے ننھیال ایک خاندان کے نکلے ، اصغر شاہ سے رشتہ داری نکل آنا شاید عاصمہ شاہ کی کوئی  مراد تھی جو پوری ہو گئی، اصغر کو بھی خوشی ہوئی  یوں کالج میں ادارے کے سربراہ سے تعلق منسوب ہونا بھی بڑی بات ہوتی ہے، اُس دن کالج سے کیمپس ہاسٹل واپسی پہ  عاصمہ بس پہ  نویدہ کے ساتھ جانے کے بجائے اصغر  کے ساتھ جیپ پہ  گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگلے ایک ماہ میں ملتان بنچ کے مشہور ترین وکیل کی اکلوتی بیٹی اور کالج کے سمارٹ ترین فائنل پارٹ کے سٹوڈنٹ وکیل کی دوستی کے چرچے کالج سے گرلز ہاسٹل تک کانا پھوسی کا مستقل موضوع بن گئے۔
جاری ہے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply