انسانیت نوحہ کناں۔۔۔عبد القدوس قاضی

کہاں سے ابتدا کریں اور کہاں نقطہ انجام، نہ حرف آغاز کا پتا اور نہ ہی نکتہ انجام معلوم. جہد مسلسل سے ذخیرہ الفاظ سے چند تعبیرات مستعار لیں تاکہ رقمطراز ہوں، داستانِ ستم کی منظر کشی کر سکیں. قیامت سے پہلے قیامت خیز مناظر اور طوفان بدتمیزی کا احوال سنائیں لیکن میرے الفاظ اسے بیان کرنے سے عاجز و لاچار ہیں کیونکہ جہاں انسانی جان، مال، عزت و آبرو کی کوئی قیمت نہ ہو وہاں چند الفاظ چہ معنی دارد! لیکن ظلم پر خاموش رہنا بھی بدتر ظلم ہے. اسی لیے ظالم کے سامنے حق گوئی کو افضل جہاد قرار دیا گیا ہے۔

برما میں مسلم کشی کی، تو ایک طویل داستان ہے لیکن گذشتہ چند ہفتوں سے جس بربریت کا مظاہرہ کیا گیا اس پر شیطان بھی انگشت بدنداں ہے۔قتل غارت گری میں ٹریڈمارک کے حامل فرعون و ہٹلر کی روحیں تڑپ اٹھیں. آسمان بھی ورطہ حیرت میں ڈوبا ہے کہ چشم فلک نے بڑی جنگ و جدل دیکھیں لیکن اس قدر درندگی شاید کبھی نہ دیکھی۔  ایسی آگ و خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے کہ بنی آدم کو اپنے وجود سے شرم بلکہ گھن آنے لگے۔

ہم نے پٹنے کی قسم کھا رکھی ہے، ظلم جھیلنا اور ستم کا شکار رہنا ہم اللہ کی رضا سمجھ لیتے ہیں. مانا کہ ہمیں مصیبت میں صبر کی تلقین ہے لیکن تختہ مشق بننے کی قطعاً نہیں،ہم فلسطین، کشمیر، چیچنیا اور بوسنیا سے لے کر اب افغانستان، عراق، شام اور یمن تک لاشیں اٹھاتے، کفناتے اور دفناتے چلے آئے ہیں پر ایسے اذیت ناک اور ذلت آمیز مناظر کہیں نہیں دیکھے جیسے برمی بدھ مت دہشتگردوں نے نہتے مسلمان بوڑھے، بچوں اور عورتوں کا نہ صرف قتل عام کیا بلکہ اکیسویں صدی کی جدت پسند اور تہذیب یافتہ دنیا میں انسانوں لاشوں کوگاجر مولی کی کی طرح کاٹا جا رہا ہے،بار بار کے تجربات ہمیں یہ باور کراتے ہیں کہ دنیا مسلم کشی پر متفق ہو چکی ہے۔ترک مرد مجاہد طیب اردگان کہا کرتے ہیں کہ

“دنیا بہری بھی ہے اور گونگی بھی ہے”

ہاں دنیا بالکل بہری بھی ہے اور گونگی بھی لیکن صرف ہمارے لئے، اسے اپنے کتے کی بھی پرواہ ،ہے لیکن انسانی جانوں کی شاید اس لیے نہیں کیونکہ وہ مسلمان ہیں. سوڈان میں اگر کوئی مسیحی مرتا ہے تو اس کے لیے الگ ریاست کا نہ صرف مطالبہ ہوتا ہے بلکہ چند ہفتوں میں ریاست کے اندر علیحدہ ریاست بنا کر دیدی جاتی ہے. لیکن کشمیر، فلسطین اور برما جیسے دیگر کئی ممالک میں مسلمان برسوں سے کسمپرسی کی حالت میں ظلم و ستم کا شکار رہیں کوئی پرسان حال نہیں! جی ہاں! بالکل دنیا گونگی و بہری ہے صرف ہمارے لئے!

عالمی برادری کی مسلسل مجرمانہ خاموشی ہمیں یہ ذہن نشین کراتی ہے کہ دنیا مسلم کشی پر متفق ہے. ہمارا استحصال ہو رہا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے۔انسانی حقوق کی تنظیمیں یہاں کیوں خاموش ہیں. حقوق نسواں کی تنظیمیں برما کی مظلوم عورتوں کے قتل عام اور عصمت دری سے چشم پوشی کیوں کر رہی ہیں؟ یہ خاموشی یوں ہی نہیں . . . . یہ خامشی باوجہ ہے، یہ بامعنی سکوت ہے، اگر ہم سمجھیں تو!

یونائیٹڈ نیشنز اقوامِ عالم کی وہ مقدس گائے ہے جس پر جرح گستاخی خیال کی جاتی ہے۔ جس کے قوانین سے انحراف بغاوت کہلاتا ہے لیکن اپنی تاریخ میں آج تک یہ ادارہ کسی عالمی مسئلہ کا تصفیہ نہ کر سکا اور نہ کوئی ثمرآور کردار ادا کر سکا. یہ عالمی طاقتوں کی پشت پناہی کا بھیانک کھیل ہے جسے قانونی جامہ پہنایا گیا ہے اور رہتی دنیا کو ایک لالی پاپ اور ویٹو پاور یافتہ عالمی وڈیروں کا طوقِ غلامی ہے. مسٹر تباہی، امریکا بہادر جو عالمی امن کا ٹھیکیدار کہلاتا ہے، نے مزید بدامنی اور تباہی پھیلانے کے علاوہ دنیا کو کسی متنازعہ معاملہ کا حل دیا ہو. تاریخ کے اوراق پلٹیں، عالمی برادری اس معاملے میں انتہائی کنجوس واقع ہوئی ہے.

بہرکیف! یہ تو اغیار کی داستان ہے. وہ کبھی ہمارا بھلا نہیں چاہیں گے اور نہ چاہا ہے لیکن ہم خود کہاں کھڑے ہیں؟ پورے عالم اسلام علاوہ ترکی، نے برما میں جاری حالیہ ظلم و ستم پر آواز تک نہیں اٹھائی، نہ کوئی بامعنی احتجاج درج کرایا ۔پاکستان کو شاید چین سے دوستی مجبور کئے ہوئے ہے، سعودی عرب جیسے امت کے سرکردہ ملک کی انتظامیہ کو شاید شہنشاہت زیادہ عزیز ہے. امت کی ناؤ ڈوب جائے لیکن آل سعود کی بادشاہت قائم رہے. کہیں “سر” ناراض نہ ہو جائیں!

یاد رکھئے!اللہ کی پکڑ انتہائی سخت ہے، اس ظلم سے صرف نظر کر کے عذابِ الہیٰ کو دعوت مت دیجئے جو ظالموں کے ساتھ سب کا صفایا کر دے گا. “واتقوا لا تصيبن الذين ظلموا منكم خاصة” اور مظلوم کی فریاد رسی کریں، اس کی آہ عرش کو ہلا دیتی ہے. ان سسکتے کپکپاتے لبوں سے کبھی تمہاری بے حسی پر بھی آہ نکلی ہو گی. خدا را بے سہاروں کا سہارا بنیے، مظلوموں کی آواز بنئے۔

اگر اکیلا ترک صدر بغیر کسی ایٹمی قوت کے اسرائیل جیسے درندہ صفت قاتل کو للکار سکتا ہے، غزہ کا محاصرہ چیلنج کر کے لوگوں کی مدد کر سکتا ہے. سابقہ سپر پاور روس کی سرحدی خلاف ورزی پر سرزنش کر سکتا ہے. امریکا اور یورپی طاقتوں کو شٹ اپ کال دے سکتا ہے. یورپی مرد لاغر کو عالمی معاشی طاقتوں کے مدمقابل کھڑا کر سکتا ہے. سعودی شدید مخالفت کے باوجود قطر کے مقاطعہ ختم کر کے مدد کر سکتا ہے. ہندوستان میں کھڑا ہو کر کشمیر کی آزادی اور کشمیریوں کے حقوق کی بات کر سکتا ہے تو پھر پاکستان، سعودی عرب اور مصر جیسی دیگر مضبوط اسلامی ریاستوں کے حکمران بھی اس کی پیروی کر سکتے ہیں لیکن ضرورت ہے تو صرف اتحاد، خود داری اور جذبہ ایمانی کی.

مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی!

Advertisements
julia rana solicitors london

الہٰی مسلم قائدین کو خودی اور جذبہ ایمانی عطا فرما. احساس اور امت کا درد عطا فرما. آمین

Facebook Comments

عبدالقدوس قاضی
اپنا لکھا مجھے معیوب لگے ۔ ۔ ۔ ۔ وقت لکھے گا تعارف میرا ۔ ۔ ۔ !

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply