فاٹا کا انضمام یقیناً پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کی جانب ایک بڑا قدم ہے جس پر قبائلی عوام اور ان کا علاقہ بھی اب غیر نہیں رہیں گے ۔ ہم پہلے ہی بہت تاخیر کرچکے ہیں جو کام آزادی کے کچھ عرصے بعد ہی کرنے کا تھا وہ اب ستر برس کے بعد تکمیل کو پہنچا ہے کہ نہ صرف فاٹا بلکہ گلگت ۔بلتستان اور آزاد جموں کشمیر کو مزید خود مختاریاں دی جا رہی ہیں ۔ قبائلیوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیےجس نے آواز اٹھائی وہ لائق تحسین اور انہیں ہمارا سلام ۔ لیکن تاریخ کی درستی کے لیے لازم ہے اس راستے میں روڑے اٹکانے والوں کے کردار بھی نمایاں ہونے چاہیئں ۔
حقیقیت یہ ہے کہ حکومت اس تاریخی قدم کے اٹھانے میں بھی اپنے اتحادیوں کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے فاٹا انضمام کا بل اس آخری سیشن میں بھی پیش کرنے سے کترارہی تھی ۔ حالانکہ 24 مئی کو پارلیمنٹ کے اجلاس میں بل پیش ہونے سے چھ دن پہلے ،19 مئی کے نیشنل سکیورٹی کے اجلاس میں یہ طے کرایا گیا تھا کہ کچھ بھی ہو پارلیمنٹ کے اسی اجلاس سےہی فاٹا کے انضمام کا بل پاس کرایا جائے گا ۔ اورنہ صرف فاٹا انضمام بلکہ ساتھ ساتھ گلگت ۔بلتستان اور آزاد جموں وکشمیر کے بھی اختیارات میں اضافہ کا معاملہ اسی اجلاس میں طےکردیا جائے گا ۔ 19 مئی کا یہ اجلاس پانچ گھنٹے جاری رہا تھا اور ایک ہی ہفتے میں بلایا جانے والا یہ دوسرا اجلاس تھا جس میں حکومت پہلے ہی میاں صاحب کے تجزیہ کارانہ انٹرویو کی وجہ سے بیک فٹ پر تھی ۔ کیا کرتی ، بے چاری چارونا چار ماننا ہی پڑا ۔ ہاں اتنا ضرور خیال رکھا گیا فیس سیونگ کے لیے خبر کی سرخی لائن آف کنٹرول پر بھارتی گولہ باری رکھ دی، جس کا ذکر سارے فسانے کے اختتام میں تھا ۔ یقین نہ آئے تو خود ہی خبر کھول کر دیکھ لیجیئے ۔
یہ درحقیقت 19مئی کے اجلاس کا دباؤ تھا جو24 مئی کے روز فاٹا انضمام کا بل پارلیمنٹ میں پیش بھی ہوا اور پاس بھی ہو گیا۔ ۔
https://tribune.com.pk/…/1-nsc-meeting-called-amid-rising-…/
حکومت کو چاہیے کہ جہاں وہ فاٹا انضمام کے تاریخی کارنامے پر کریڈٹ لے رہی ہے وہیں وہ اس کی تاخیر کی وجوہات اور اس میں روڑے اٹکانے والوں کا بھی ذکر کرے کہ وہ آخر کونسی مصلحتیں تھیں کہ جس کی وجہ سے خود اپنی ہی تیار کی گئی فاٹا ریفارمرز پر ایک سال سے زائد کی تاخیر ہوتی رہی ۔ آخرقبائلی عوام کا وہ کون دشمن ہے جس کو یہ قبول نہیں تھا کہ فاٹا کے عوام پولیٹکل ایجنٹس اور ایف سی آر کے شکنجے سے نکلیں ۔ پچھلے ایک سال میں کئی دفعہ فاٹا انضمام کا بل پارلیمنٹ کے اجلاس کے ایجنڈے میں تو آتا تھا لیکن پیش ہوئے بغیرہی واپس پلٹ جاتا تھا کیونکہ حکومت عین وقت پر اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن کے ہاتھوں بلیک میل ہو جاتی تھی۔
حکومت کو چاہیے کہ اس بات کی حقیقت بھی ملک کے عوام کے اور بلخصوص قبائلی عوام سامنے لائی جائے کہ مولانا فضل الرحمان اور اچکزئی بھارت اور افغانستان کی زبان کیوں بول رہے ہیں اور فاٹا کے عوام کے سامنے اسے امریکی، عالمی ، صیہونی ایجنڈا قرار دے ہیں ۔ حالانکہ اس معاملے میں تو سابق صدر زرداری نے بھی صاف کہہ دیا کہ مولانا کی مخالفت بالکل غلط ہے ۔
یہ تو تھی ریکارڈ کی درستی ,کہ فاٹا کی تاریخ کے اس اہم موڑ پر کون کس طرف کھڑا تھا ۔ خدانخواستہ یہ معاملہ اس سیشن میں حل نہیں ہوتا تو نا پھر اگلے کتنے سال قبائلی عوام کے اورلے جاتا ۔ لیکن جس طرح میں یہ عناصر صوبہ سرحد کا پاکستان میں انضمام نہیں روک پائے ویسے ہی آج فاٹا کے انضمام کو روکنے میں ناکام ہوگئے
https://tribune.com.pk/…/1-political-administration-abolis-…/
آنے والی حکومت کے کندھوں پر فاٹا اپ لفٹنگ کی بڑی بھاری ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں ۔ اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ فاٹا کے عوام سے کیے جانے والے وعدوں پر من و عن عملدرآمد بھی کیا جائے ۔ چاہے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوں یا لوکل گورنمنٹ سسٹم ، عدالتی دائرہ کار ہو یا لیویز پولیس کا معاملہ ۔ ان معاملات میں طے کردہ ٹائم فریم سے ہٹ کر تاخیر نہیں ہونی چاہیے ۔ اس دوران فاٹا کے عوام کو شکنجوں سے نکالا جائے جس کے لیے مہمند ایجنسی کا ماڈل دوسری ایجنسیاں اور ان کے پولیٹیکل ایجنٹ بھی اپنائیں۔
ماہ اپریل میں مہمند ایجنسی میں 17 میں سے 9 چیک پوسٹیں مقامی انتظامیہ اور لیویز کے حوالے کی گئیں اور جون تک 60 فیصد چیک پوسٹیں اور حوالے ہو جائیں گی ۔ مہمند ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ واصف سعید نے 38 کے قریب اشیا پر سے ڈیوٹی ختم کی ہے جس میں کھانے پینے کی اشیاء بھی شامل ہیں جس سے مہمند میں رہنے والے ایک عام قبائلی کی جیب پر سے سو ، سوا سو کا بوجھ ہلکا ہوا ہے ۔
افسوس تو یہ ہے حکومت کی جانب سے جہاں فاٹا کا بل پیش کرنے میں تاخیری حربے استعمال ہوتے رہے وہیں فاٹا کے دیئے جانے والا بجٹ بھی پورا فاٹا پر خرچ نہیں کیا گیا ۔ آج فاٹا کی تعمیر کے لیئے ہر سال 100 ارب خرچ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے والی حکومت کیا بتائیگی کہ اس نے فاٹا سیکریٹیریٹ میں پڑے فاٹا کے عوام کے لیئے رکھے 10 ارب روپے کیوں نہیں لگائے اور وہ واپس لیپس ہو گیئے جبکہ ان پیسوں سے 5000 ہزار کے قریب صحت اور تعلیم کی نوکریاں نکلنا تھیں ۔
https://tribune.com.pk/1-federal-govts-big-fata-funding
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فوج کی وجہ سے قبائلی علاقوں میں امن آیا یہ تو یہ حکومت بھی مانتی ہے پھر فوج نیشنل سکیورٹی کونسل میں فاٹا مرجر بھی کرالیتی ہے جسکا سب پھدک پھدک کر کریڈٹ بھی لے رہے ہیں تو پھراسکے باوجود بھی مظلوموں کا ایک نیا نیا ساتھی منظور پشتین اور اسکا ساتھی اچکزئی کا کارکن علی وزیر اپنے جلسوں میں یہ نعرے لگواتے ہیں کہ دہشت گردی کے پیچھے وردی ہے تو بات کچھی سمجھ نہیں آتی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں