احسان مند قوم اور احسان فراموش مملکت۔۔۔ سلیم فاروقی

آج کوئی بھی پاکستانی ترکی جاتا ہےتو وہ یہی بتاتا ہے کہ پاکستان کا نام سنتے ہی عام ترکی کی آنکھوں میں محبت اور احسان مندی کے ستارے ٹمٹمانے لگتے ہیں۔ ان کا بس نہیں چلتا ہے کہ وہ آپ کے آگے بچھ بچھ جائیں۔ بالکل ایسا تاثر ہوتا ہے جیسے کوئی بچھڑا ہوا بھائی برسوں بعد ملا ہو۔
.جب وجہ کی تحقیق جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ترکی میں خلافتِ عثمانیہ کے بزورِ بازو خاتمے کے وقت متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں نے جو تحریک خلافت 1919ء سے 1922ء کے دوران چلائی تھی، ترک عوام اس کو آج بھی بھولے نہیں ہیں۔ وہ اس کو مسلمانانِ ہند کا ترکی پر ایک احسان مانتے ہیں اور اسی کی وجہ سے وہ آج پاکستانی مسلمانوں کو بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
.صرف یہی نہیں ترک خلافت عثمانیہ کے دور میں 1912ء سے1913ء تک ہونے والی جنگ بلقان بھی ترک عوام ابھی تک نہیں بھولے ہیں۔ اگرچہ اس جنگ میں خلافت عثمانیہ کو کافی زک اٹھانا پڑی اور مشرقی یورپ اور لیبیا سمیت کافی علاقے ترکی کے ہاتھ سے نکل گئے۔ اسی جنگ کے ردِ عمل میں یورپ میں مسلمانوں کے خلاف پرتشدد واقعات اور قتلِ عام کی باعث یورپ سے مسلمانوں کی ہجرت شروع ہوگئی۔ ایک اندازے کے مطابق 1913ء میں صرف استنبول میں ہی اتنے یورپی مسلمان آگئے کہ وہاں پیدل چلنے کی جگہ بھی نہ بچی. ممکن ہے یہ جملہ محاورۃً استعمال ہوا ہو لیکن اسی سے اندازہ لگا لیں کہ اس وقت خود استنبول کی اپنی آبادی دس لاکھ سے بھی کم تھی اور ایسے میں پچیس لاکھ مہاجرین کی آمد یقیناً ایک بہت بڑی آزمائش تھی۔
.
ایسے کڑے وقت میں برما کے مسلمان آگے بڑھے اور انہوں نے چندہ کرکے ترک حکومت کو مہاجرین کی امداد کے لیے ایک خطیر رقم بھیجی۔ ترک قوم اس احسان کو بھی نہیں بھولی ہے اور آج طیب اردگان اسی احسان کے صلے میں برما کے مسلمانوں کے لیے پوری دنیا میں سب سے توانا آواز ہیں اور پوری ترک قوم دامے درمے اور سخنے برما کے مسلمانوں کے ساتھ کھڑی ہے۔صرف ترک قوم ہی اسلامی روایات کی امین نہیں ہے بلکہ خود برما کے مسلمان صلہ رحمی میں ہم سے یقیناً آگے ہیں۔ اگر ایک طرف انہوں نے 1913ء میں ترکی کی مدد کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا دوسری جانب جب 1947ء میں قیامِ پاکستان کے وقت پاکستان پر مہاجرین کی بھاری ذمہ دارن آن پڑی تھی تو یہی برما کے مسلمان تھے جنہوں نے مہاجرین کی خوراک کے لیے پاکستان کو چاولوں کا تحفہ بھیجا تھا۔
.افسوس ترک عوام تو ایک صدی قبل کا احسان بھی نہیں بھولے لیکن ہم ستر سال پرانا احسان بھی بھلا بیٹھے ہیں۔ بلکہ ہم نے اگر احسان کا کچھ صلہ دیا بھی تو اتنا کہ ایوب خان نے 1960ء کے عشرے میں برما کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر خود برما جاکر برمی مسلمانوں کو پاکستان آجانے کی دعوت دی اور لاکھوں برمی پاکستان آگئے۔ وہ برمی مسلمان آج بھی اپنی شناخت کے لیے بھٹکتے پھر رہے ہیں اور ہم ان کو شناختی کارڈ شائد اس لیے جاری نہیں کر رہے ہیں کہ ان کی بود و باش بنگالیوں کی طرح ہے۔ اور جب ہم اپنے ہی سابق ،قدیم شہریوں کو اپنا بھائی ماننے کو تیار نہیں ہیں، ان کو بنگلادیش کے کیمپوں  میں غیرانسانی ماحول میں زندگی گذارنے پر مجبور کر رہے ہیں، تو یہ برمی کیا ہیں۔ شائد انہوں نے جو چاول خوراک کے لیے بھیجا تھا ہم تو اس کی شراب بنا کر پی گئے ہیں۔
.ساتھ ہی ہمیں اس بات پر بہت ناز ہے کہ ہم دنیا کی واحد اسلامی مملکت ہیں جو اسلام  کےنظریے کی بنیاد پر بنی۔ بلکہ دنیا میں دو ہی تو مملکتیں ہیں جو کسی نظریے کی بنیاد پر بنی ہیں اور ان میں سے ایک ہم ہیں۔ پھر ہم دنیا کی واحد اسلامی مملکت ہیں جو جوہری ہتھیار سے لیس ہے۔ اور پھر ہماری عسکری قوت کا معترف تو ایک زمانہ ہے۔ سعودی عرب اور شام سمیت جب بھی کسی اسلامی مملکت پر آزمائش کا وقت آیا ہماری ہی افواج نے ان کی مدد کی۔
.ہمارے پاس سب ہی کچھ تو ہے افسوس اگر نہیں ہے تو احسان مندی بالکل نہیں ہے، ویسے ہمیں اپنی روایات پر بہت فخر ہے۔

Facebook Comments

سلیم فاروقی
کالم نگار، کہانی نگار، بچوں کی کہانی نگار، صد لفظی کہانی نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply