• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی، ڈومیسٹک اور چند تجاویز

پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی، ڈومیسٹک اور چند تجاویز

پاکستان کرکٹ ٹیم جو ماضی میں ستاروں کا جھرمٹ تھی۔ پاکستانی ٹیم کے سنہری دور میں عمران خان، وسیم اکرم،وقار یونس،شعیب اختر، جاوید میانداد اور عاقب جاوید جیسے ستارے بیک وقت ٹیم کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ پاکستانی فاسٹ باؤلرز کا شمار دنیاۓ کرکٹ کے انتہائی خطرناک پیسرز میں ہوتا تھا۔ وقت گزرتا گیا، عمران خان کے دیے ہوۓ پلئیرز کو ہم نے ان کی اہلیت سے بڑھ کر استعمال کیا۔ سفارش پروان چڑھی،پرچی سسٹم مضبوط ہوا اور میرٹ کی دھجیاں اڑتی رہیں۔ کھلاڑی آۓ اور چلے گئے۔ مناسب موقع کسی کو نہ ملا۔ پھر سپاٹ فکسنگ کا سکینڈل منظر عام پر آیا، پلیئرز پر پابندی لگی ،پھر پابندی ہٹ بھی گئی مگر پاکستانی کرکٹ نیچے سے نیچے جاتی گئی۔ ایک وقت تھا پاکستانی ٹیم وحشت کی علامت تھی لیکن آج ایک گھناؤنے مذاق سے کم نہیں۔ غیر مستقل مزاجی ہمارا وطیرہ تھا، لیکن اب ہم مستقل مزاجی سے ہار رہے ہیں۔
پاکستان کرکٹ ٹیم اس وقت ٹیسٹ فارمیٹ میں تیسری،ایک روزہ میں آٹھویں جبکہ مختصر طرز کے فارمیٹ میں ساتویں پوزیشن پر براجمان ہے۔ گزشتہ چار،پانچ سالوں میں پاکستانی ٹیسٹ ٹیم کی کارکردگی سب سے بہتر تھی اور مسلسل جیتتے آۓ۔ٹیم کی اس کارکردگی پر جہاں مصباح کی کپتانی کا عمل دخل تھا،وہیں پاکستانی باؤلرز خاص طور پر اسپن ڈیپارٹمنٹ کی غیر معمولی کارکردگی نے اہم کردار ادا کیا۔ سعیداجمل کے جانے کے بعد پاکستانی کو ایک اچھا لیگ اسپنر ملا۔ یاسر شاہ کی غیر معمولی کارکردگی نے اس کو بہت جلد صف اول کا لیگ بریک باؤلر بنا دیا۔ دائیں ہاتھ کے اسپنر کا سب سے بڑا ہتھیار گگلی اور لیگ اسپن ہوتا ہے جبکہ یاسر شاہ صرف اور صرف فلپر پر انحصار کئے ہوۓ ہے۔ اماراتی وکٹیں جہاں گیند” گوڈے ” کے نیچے ہوتی ہے وہاں پر تو یاسر شاہ کا یہ آرٹ کامیاب ہے لیکن آسٹریلیں پچز جہاں گیند کانوں کے پاس سے گزرتی، وہاں صرف اور صرف Variations ہی کامیاب ہوتے ہیں اور ایک اچھے لیگ اسپنر کے لئے گگلی اور لیگ بریک کے علاؤہ کوئی آپشن نہیں ہوتا۔ جس سے گیند کو اچھال ملتا ہے اور کیچ ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔
اسی طرح اماراتی کنڈیشنز میں کھلاڑی بیک فٹ پر اچھا کھیل سکتا ہے جبکہ باؤنسی ٹریکس پر فرنٹ فٹ پر آکر باؤلر کی پیس اور لائن لینتھ کو توڑنے والا بلے باز ہی کامیاب رہتا ہے۔پاکستان ٹیم میں سواۓ سرفراز احمد کے کوئی کھلاڑی بھی اس معیار پر پرا نہیں اترتا۔ یونس کی تکنیک بھی ابہام کا شکار ہے جبکہ اظہرعلی جو بنیادی پر ایک لیگ سپنر ہے،سواۓ گیند روکنے کے اور کوئی کام نہیں آتا۔ اننگز کو بلڈ اپ کرنا اور پھر ایکسلریٹ کرنا ہی دراصل ایک ورلڈ کلاس کھلاڑی کی نشانی ہوتا ہے، جبکہ اظہر علی میں غیرملکی کنڈیشنز میں شدت سے کمی ہے۔ اسد شفیق جو تکنیکی اعتبار سے دنیا کا بہترین بلے باز ہے اور نمبر چھ پر اس کے اعدادو شمار داد کے مستحق ہیں، لیکن غیر مستقل مزاجی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
مصباح الحق کو دفاعی کپتان کا طعنہ دیا جاتا ہے، لیکن میرا ماننا ہے جس طرح کے کھلاڑی مصباح کو ملے اگر عمران خان کو بھی ایسے کھلاڑی ملتے تو وہ بھی دفاعی کہلاتے۔ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کا نہ ہونا بھی ایک وجہ ہوسکتا ہے۔لیکن ہماری ڈومیسٹک کرکٹ کا معیار بھی اتنا خاص نہیں۔ ٹیموں کی بھرمار ہے،ڈیپارٹمنٹس اور ریجنز کے پاس کوالیفائیڈ کوچز کی کمی ہے۔ سفارش عام ہے۔ پاکستانی ٹیم اس وقت جدید کرکٹ کے ضوابط اور تکنیک سے لاعلم ہے۔خاص طور پر ون ڈے کرکٹ میں ہمارا معیار کوئی خاص نہیں ہے اور کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ ٹیم کی گراوٹ میں جہاں کھلاڑی قصوروار ہیں وہاں ہمارا سسٹم بھی برابر کا حصے دار ہے۔ ہماری ڈومیسٹک کا معیار بہت خراب ہے، سکول کرکٹ ہم کھیلتے نہیں، کلب کرکٹ ہماری کچھ خاص ہے نہیں اور رہے ریجنز اور ڈیپارٹمنٹ تو وہاں سفارش اور ذاتی تعلق کی زیادہ اہمیت ہے۔
پاکستان کے ڈومیسٹک نظام کو دنیاۓ کرکٹ سے ہم آہنگ کرنے کے لئے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ڈومیسٹک ٹیموں کو کوالیفائیڈ سٹاف اور ویڈیو اینالسٹ دینا چاہیے۔ ایمپائرنگ کے نظام کو درست کرنا چاہیے اور جدید ٹیکنالوجی فراہم ہونی چاہیے۔کیونکہ بیشتر کھلاڑی تین بار آؤٹ ہونے کے باوجود سنچری اسکور کرجاتے ہیں، جس کی بنیادی وجہ ناقص ایمپائرنگ ہوتی ہے۔ ڈومیسٹک میچز میں پچز کے معیار کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے اور پچز کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ڈھالنا چاہیے۔ کیوریٹرز کو بھرتی کریں، کیونکہ ہماری بیشتر پچز مالی خود ہی بنا ڈالتے ہیں۔ گیند کا استعمال بین الاقوامی میچز کے معیار مطابق ہونا چاہیے اور گریس بال کی جگہ کوکابورا کا استعمال یقینی بنایا جاۓ۔ نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں اعلی کوچز کا تقرر ہونا چاہیے ۔ جو کھلاڑیوں کی تکنیک پر کام کریں۔
بے شک پی۔ایس۔ایل ایک اچھا اقدام ہے۔لیکن اس سے کھلاڑیوں میں موجود تکنیکی خامیوں پر قابو پانا ممکن نہیں۔ ہمیں ڈومیسٹک نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا اور خاص کر ایک روزہ کرکٹ کی زبوں حالی کو مدنظر رکھتے ہوۓ۔ڈومیسٹک سطح پر آٹھ،آٹھ ٹیموں کے تین سے چار ٹورنامنٹ ہر سال ہونے چاہیں۔ جس میں ٹاپ پلئیرز پرفارم کریں اور پچز و ایمپائرنگ کا معیار بین الاقوامی معیار کا ہو۔ ون ڈے ٹیم کی کارکردگی میں بہتری لانے کےلئے ہنگامی طور پر اظہر علی کی بطور کپتان تبدیلی ناگزیر ہے۔ ون ڈے ٹیم میں عمراکمل اور احمد شہزاد کی واپسی کو یقینی بننا چاہیے۔ کیونکہ ایک روزہ کرکٹ میں اسٹرائیک ریٹ کی بڑی اہمیت ہے۔ امپیکٹ پلیئرز کی موجودگی اور ڈیتھ اوورز میں پاور ہٹنگ عمر اکمل سے بہتر موجودہ حالات میں کوئی نہیں ہے۔

Facebook Comments

محمود شفیع بھٹی
ایک معمولی دکاندار کا بیٹا ہوں۔ زندگی کے صرف دو مقاصد ہیں فوجداری کا اچھا وکیل بننا اور بطور کالم نگار لفظوں پر گرفت مضبوط کرنا۔غریب ہوں، حقیر ہوں، مزدور ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply