رسمی اسلام کا مختصر جائزہ

رسمی اسلام کا مختصر جائزہ
شاکرجی
اہل علم و دانش! جوں جوں اسلام کی حقیقی تاریخ کے اوراق سے بوسیدہ عقائد کی گرد چھٹتی جا رہی ہے ، اُسی طرح اہل علم، اسلام کی منفرد و یکتا تصویر بامطابق ریاستی اسلام کا نقشہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتے جا رہے ہیں ۔ دین اور مذہب میں بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ دین اجتماعی سانچے میں ڈھلے ضابطہ کو فرد کی انفرادیت سے نکال کر اُسے معاشرہ کی کُلی یگانگت میں ڈھالتا ہے اور یوںانسانیت اپنی پوری توانائی کے ساتھ بقا کے فلاحی راستے پر گامزن ہو جاتی ہے ۔کامیابی کے ساتھ ہی ریشہ دوانیوں بھی شروع ہو جاتی ہیں جس طرح اسلام کے ساتھ پیش آیا ۔ وضعی روایات کی اس طرح آمیزش کی گئی کہ اسلام اپنی حقیقی تصویر ہی بھول گیا ، اور آج کا اسلام ایک رسم و رواج کا جمود وپیکر بن کر رہ گیا ہے ۔۔ آئیے مروجہ عبادات کے اس اسلام کی آفاقی لڑیوں کے چند مشاہداتی منظر دیکھتے ہیں ۔۔۔۔
کلمہ ،
اپنی پہلی فرضیت پر فائض یہ کلمہ حق ہےجس نے روئے زمین پر انسان کو صرف اور صرف اللہ کا عاجز بندہ بنایا ۔ حاکمیت کا سرچشمہ صرف بزرگ و برتر خدائے واحد ہے لیکن عملی طور پر ایسا دکھائی نہیں دیتا ۔۔ معاشرہ کئی خدائوں کو اپنا وسیلہ نجات بنا چکا ہے ۔
نماز ،
روح بلالی کی وہ گونج اب ناپید ہو گئی ہے اور اجتماعی طور پر نماز کی فرضیت کی وہ یگانگت ماند پڑھ گئی ہے ۔۔ اب صرف مردہ اجسام لئے چند حرکات و سکنات کو عین نماز کا نام دے کرہم ایمان فراموشی کا کھلا ثبوت پیش کرتے ہیں ، معاشرہ میں اس فرض کے باریک مشاہدے سے یہ بات واضع دکھائی دیتی ہے کہ امامت پر فائض وظیفہ و تنخواہ و صدقات سے اپنی زندگی گذارنے ولا شخص شام میں ملنے والے ہر طرح کے لذیذ کھانے کے تصور میں امامت کر ارہا ہوتا ہے اور اُسی امام کے پیچھے کھڑا نمازی اپنے بچوں کے چہروں پر پڑی بھوک و افلاس کی حسرتوں کا تماشہ لئے شام کو زندہ درگور ہونے کی سازشیں کر رہا ہوتا ہے
روزہ ،
یہ مہینہ خالص اللہ کے لئے ہے جہاں معاشرہ اُس کی ربوبیت کی عملی صورت پیش کرتا ہے ، لیکن آج کل معاشرہ میں طبقاتی تقسیم اس فرض کے آگے بھی تماشہ حیرت بنی ہوتی ہے ۔۔۔۔ کسی کے پاس افطار کے لئے ایک کھجور بھی میسر نہیں اور کہیں افطار پارٹیاں و ڈنر کی محافل سجائی جاتی ہیں ۔۔۔۔
زکوٰۃ ،
ریاستی امور کے اولین کاموں میں سے بہترین کام معاشرے کے ہرفرد کو بنیادی ضروریات فراہم کرنا ہے لیکن اس اہم رکن کو صرف حرام و ناجائز مال کو ““ پاک ““ کرنے کا ٹول سمجھ لیا گیاہے ۔۔۔ معاشرتی راہیں ہموار کرنے میں اس رکن کا کوئی ثانی نہیں لیکن آج کل اسکا استعمال صرف اور صرف چند ہاتھوں میں محدود ہے ۔۔ اسلئے کوئی سادہ لوح اپنی زکوٰۃ،ریاست کو دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار دکھائی دیتا ہے ۔۔وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اُس کی حلال کمائی کسی نادار ومفلس کے پیٹ میں نہیں جائے گی ۔۔
حج ،
ملت ابراہیمی کی یگانگت کے لئے اس اہم فریضے کی منشا ئے ربی اُمت واحدہ کو تشکیل دینا تھی ، لیکن مرکز کی نام نہاد اتھارٹی نے اس اہم رکن کو کاروبار کی صورت دے دی ہے ۔ دوران حج صرف لفاظی ادائیگی کو بروئے کار لایا جاتا ہے اور مقصدیت کو بعد از فرائض وہیں دفن کر دیا جاتا ہے ،، پھر ““ حاجی ““ ہونے کا لیبل ساری زندگی اُس کے کئی کردہ ناکردہ گناہوں پر ایسے شفقت کے ہاتھ رکھ دیتاہے جیسے ایک ماں اپنے لال کو سخت گرمی سے بچانے کے لئے اپنی عصمت کی چادر تک اُتار دیتی ہے ۔

Facebook Comments

شاکرجی
میری سوچ مختلف ہو سکتی ہے ۔۔ میری کاوش غیر سنجیدہ نہیں ۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply