لوگ اب شکایت بھی نہیں کرتے۔۔نذر حافی

لاہور میں راوی روڈ کا ایک علاقہ ہے۔ وہاں   دکان کے مالک نے ملازم کو تشدد کا نشانہ بنایا، تشدد کی ویڈیو وائرل ہوچکی ہے۔[1] چار دن پہلے پشاور میں ایک خاتون بدر سلطان پر اس کے بھائیوں نے بدترین تشدد کیا، ویڈیو وائرل ہوئی۔ ویڈیو میں دو مردوں کو دو خواتین پر ہتھوڑے اور ہیلمٹ سے تشدد کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ [2] تقریباً چار دن پہلے ہی پیر سید اظہر حسین شاہ اور ان کے مریدوں نے کچھ لوگوں کو اغوا کیا اور انہیں مرغا بنا کر خوب پٹائی کی۔ ساتھ ہی ویڈیو بھی فخر کے ساتھ وائرل کی گئی۔[3] گذشتہ روز گولڑہ پولیس تھانے کی حدود میں سیکٹر ای-11/2 کی ایک عمارت میں 5 سے 6 افراد نے ایک مرد اور ایک خاتون کو ایک کمرے میں حبسِ بیجا میں رکھ کر بندوق کے زور پر برہنہ کیا اور ۔۔۔[4] یہ کوئی پرانی باتیں نہیں، اسی ہفتے میں رونما ہونے والے صرف چند واقعات کی  ایک جھلک ہے۔ گذشتہ روز ملتان میں ندیم سہو نامی ایک جوان کے گلے میں زنجیر ڈال کر اسے کتا بنایا گیا، اس سے پاؤں پر ہاتھ رکھوا کر بار بار معافی منگوائی گئی اور ویڈیو وائرل ہوئی۔ ایسی متعدد ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں کہ جن میں چند لوگ کسی کو یرغمال بناکر اس کا عقیدہ تبدیل کراتے ہیں اور اس سے معافیاں منگواتے ہیں۔

چلتے چلتے یہ بھی جانتے جایئے کہ گذشتہ روز بابوسر میں ہمارے طالبان بھائیوں نے ایک مرتبہ پھر سر نکالا ہے۔ ان کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنا اظہار وجود اس وقت کیا ہے، جب پاکستان کے ہمسائے میں طالبان کو تازہ آکسیجن فراہم کی جا رہی ہے۔ ویڈیو دیکھنے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ان دنوں طالبان کو آکسیجن کے سلنڈر پاکستان میں بھی سپلائی کئے جا رہے ہیں۔ بابوسر جیسے سیاحتی مقام پر انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی طرف سے جو  لکھا لکھایا سکرپٹ پڑھ کر پاکستانی عوام کو سنایا گیا ہے، اس میں عقل والوں کیلئے واضح نشانیاں ہیں۔ جو نشانیاں سمجھتے ہیں، وہ یہ نہیں پوچھتے کہ طالبان کیلئے سکرپٹ کون لکھتا ہے بلکہ وہ ملکی سلامتی اور عوام کی حفاظت کیلئے دعائیں کرنے لگ جاتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ایک مرتبہ پھر سیاحوں، مسافروں اور نہتے مقامی لوگوں کا خون بہایا جائے۔ ظاہر ہے کہ ملک کو جو مضبوطی خون سے ملتی ہے، وہ پانی سے نہیں مل سکتی۔

یہاں تک تو غیر سرکاری طاقتور لوگوں کی کارروائیاں تھیں، اب سرکاری طاقتور ہستیوں کا بھی ایک کرشمہ ملاحظہ فرمایئے۔ جاری ہفتے میں بھونگ پریس کلب کے صدر اصغر علی کو پیپلز پارٹی کے ایم پی اے اور مقامی وڈیرے نبیل رئیس کی ایما پر پولیس نے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ ایسا تشدد کہ آنکھیں پھوڑ دی گئیں اور ناخن کھینچ لئے گئے۔ اب ہم یہاں ملکی قانون، انسانی حقوق اور سائبر کرائم کی بات ہرگز نہیں کریں گے۔ چونکہ ہم جانتے ہیں کہ اس کے بعد بھی وہی ہوگا، جو اس سے پہلے ہوتا چلا آرہا ہے۔ ماضی میں ایک گونگے ذہنی مریض صلاح الدین، سانحہ ساہیوال اور 22 سالہ طالب علم  اسامہ ندیم ستی وغیرہ کے قاتلوں کو جیسا انصاف ملا ہے، ویسا ہی اصغر علی اور دیگر تشدد کا نشانہ بننے والوں کو بھی ملے گا۔

ٹھہریئے! جلدی کیسی!؟ یہ خبر بھی پڑھتے جایئے کہ   دارالعلوم کورنگی میں معروف عالمِ دین مفتی تقی عثمانی پر اپنے ہی مدرسے میں چاقو سے قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔ خوش قسمتی سے مفتی صاحب بال بال بچ گئے ہیں اور حملہ آور بھی گرفتار ہوگیا ہے۔ اس موقع پر حملے کی پرزور مذمت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ان مذمت کرنے والوں میں ہماری آواز بھی شامل ہے۔ ہم مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ مفتیانِ دین تک یہ بات بھی پہنچانا چاہتے ہیں کہ دین صرف مفتیانِ دین کی جان و مال کی حفاظت کیلئے نہیں آیا۔ ہمارے مولوی، قاری، حافظ اور مفتیانِ دین جس طرح اپنے پیٹی بھائیوں کی مدد کیلئے آستینیں چڑھا لیتے ہیں، کاش اسی طرح دوسرے انسانوں کی حفاظت کیلئے بھی میدان میں اترتے۔ یہ جس طرح اپنی برادری پر قاتلانہ حملے کرنے والوں کی مذمت کرتے ہیں، کاش اُسی طرح نواسہ رسولﷺ کے قاتل کی بھی مذمت کرتے۔

انہوں نے معاشرے میں جبر و تشدد اور وحشت و بربریت اور مارو مارو کے کلچر کو جس طرح پروان چڑھایا ہے، کاش یہ اس کے بجائے اتنی ہی یکسوئی سے لوگوں کو انسانی حقوق، رواداری، احترام باہمی اور اخلاقیات سکھاتے۔ انہوں نے یکساں نصاب تعلیم میں باہمی رواداری کو جس طرح یکسر نظر انداز کیا ہے، اگر یہ اس کے بجائے دیگر مسالک کو دل و جان سے قبول کر لیتے تو ہمارا مستقبل بھی بدل جاتا۔ انہوں نے آج تک جتنی تقاریر، وعظ، دروس اور فتوے خواتین کی ناخن پالش کے خلاف دیئے ہیں، اگر اتنے ہی یہ لوگوں کے ناخن کھینچنے والوں کے خلاف بھی دیتے تو آج ہمارے ملک کی صورتحال مختلف ہوتی۔ خیر اب یہاں اغوا کرنے، لاپتہ کرنے، جہاد کرنے، تشدد کرنے، پٹائی کرنے، تذلیل اور بے عزتی کرنے میں۔۔۔ وردی و غیر وردی، فوجی و سویلین، پولیس و ڈاکو کا فرق مٹ چکا ہے۔ لوگ اب شکایت بھی نہیں کرتے! اونچا بھی نہیں بولتے! جامشورو میں ارشد سومر و نے اپنی بے عزتی ہونے پر انڈس ہائی وے پر دھرنا دیا، ویڈیو وائرل ہوئی، پھر کیا ہوا۔؟

کراچی میں مسنگ پرسنز کے لواحقین نے طولانی دھرنا دیا، بہت روئے اور بہت شکایتیں کیں، لیکن پھر کیا ہوا!؟ اب لوگوں کو صبر آگیا ہے۔ لوگ اب سمجھ گئے ہیں کہ شکایت کریں بھی تو کس سے کریں۔۔۔؟ توبہ توبہ ڈنڈے والوں کی شکایت، مفتیوں کی شکایت، طالبان کی شکایت، طالبان بنانے والوں کی شکایت، ملک لوٹنے والوں کی شکایت، سیاستدانوں کی شکایت، وردی والوں کی شکایت۔۔ الامان والحفیظ۔ طاقتوروں کی شکایت یعنی خواہ مخواہ اپنے ناخن کھنچوائیں، کھال اتروائیں، آنکھیں زخمی کرائیں، سلاخوں کے پیچھے جائیں، عدالتوں کے دھکے کھائیں اور  پھر جب جان چھوٹے تو ایک دوسرے کو جان بخشی ہونے پر مبارکبادیں دیتے پھریں۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

[1] https://jang.com.pk/news/953614
[2] https://www.independenturdu.com/node/72201
[3] https://m.facebook.com/100024031639300/posts/1004031093741269/?sfnsn=scwshmo%DB%94
[4] https://www.dawnnews.tv/news/1163612

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply