نسوانی حسن کا مسئلہ ۔۔۔حِراایمن

زیرِ جامہ جات، کاروباری خواتین کیلئے نہایت منافع بخش کاروبار ہے، ہر بڑے شہر میں ایسے سٹور موجود ہیں جہاں مالک سے لے کر اسٹاف صرف خواتین پر مشتمل ہوتا ہے، جہاں سے بنت ِحوّا با آسانی خریداری کرتی نظر آتی ہیں۔ انڈرگارمنٹس کے علاوہ کچھ متفرق ادویات بھی بیچی جاتی ہیں جن میں سر فہرست ، نسوانی حسن بڑھانے کی کریمز اور گولیاں ہیں۔

میری ایک ڈاکٹر دوست کے پاس ایسی لڑکیوں کا تانتا بندھا رہتا ہے جو نسوانی حسن میں کمی کے باعث پریشان ہو کر آتی ہیں، زیادہ تر یہ لڑکیاں ٹین ایجرز ہوتی ہیں جن کی ابھی شادی ہونے والی ہوتی ہے، ایک تعداد شادی شدہ خواتین کی بھی ہوتی ہے۔

لڑکیوں کی ماؤں کا کہنا ہوتا ہے انکی بیٹی کی جسامت کی وجہ سے بار بار رشتے والے انکار کر دیتے ہیں، جس سے بچیوں کو ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لیے وہ اسکا علاج کروانا چاہتی ہیں۔

اوپر درج دونوں پیراگراف کو اب میں ایک لڑی میں پروتی ہوں۔ گائینی ڈاکٹر اور لیڈیز شاپ دونوں ہی جگہوں پر نسوانی حسن کی کمی کا شکار خواتین کا رش ہوتا ہے۔

ڈاکٹر ہارمونز کے ٹیسٹ کر کے کچھ ادوایات لکھ کر دیتی ہے جس سے ایسٹروجن لیول بڑھایا جاتا ہے یوں مطلوبہ نتائج کسی حد تک حاصل ہو جاتے ہیں۔ اس مسئلہ سے دوچار زیادہ عوام اتنی باشعور نہیں ہوتی کہ ڈاکٹر سے علاج کروائے۔ اکثریت لیڈیز شاپس میں بکتی بے فائدہ کریمز خرید کر پیسے کا ضیاع کرتی ہے۔ عام سے تیل اور کریمز جن کی کوئی میڈیکل حیثیت بھی نہیں، مہنگے دام فروخت کی جاتی ہیں۔ بالکل ویسے جیسے جعلی حکیم مردانہ ادویات بیچتے ہیں۔

نسوانی حسن کی کمی سراسر ہارمونز کی کمی کی وجہ سے ہے، ایک عمل دخل اس میں خوراک کا اور موروثیت کا بھی ہے۔

موروثیت کو ہم بدل نہیں سکتے مگر خوراک پر توجہ دی جا سکتی ہے۔ تیسری دنیا کی خواتین خوراک کی کمی کا شکار ہیں، جس سے انکی جسمانی نشوونما درست طریقے سے نہیں ہو پاتی۔ پاکستان میں بھی خواتین کی صحت کے معاملات دگرگوں ہیں حالانکہ انکی صحت پر خاص توجہ دینے کیلئے آگاہی منصوبے اور موثر اقدامات، منسٹری آف ویمن کے بینر تلے شروع کرنے کی ضرورت ہے۔

بچیوں نے چونکہ نئی نسل کو پروان چڑھانا ہوتا ہے انکی غذائی ضرورتوں کو بچپن سے ہی بھرپور توجہ دینی چاہیے۔ دیہاتوں اور چھوٹے شہروں میں ابھی بھی ایسے لوگ ہیں جو اچھی خوراک صرف مرد کا حق سمجھتے ہیں۔

اگر بچیوں کو بچپن سے ہی متناسب خوراک ملے گی تو کسی بھی قسم کے جسمانی عارضے کے لاحق ہونے کے مواقع کم ہو جائیں گے۔ دوسری چیز ہے سن بلوغت میں ہونے والے جسمانی اور جذباتی مسائل۔ ایسٹروجن لیول کی کمی کی وجہ سے مخصوص زنانہ اعضاء کی نشوونما متاثر ہوتی ہے جس کا سیدھا سادہ حل اچھی گائنی ڈاکٹر سے رجوع کرنا ہے۔ بازار میں ملنے والی کریمز اس ضمن میں کچھ نہیں کرنے والی۔ بلاوجہ کے کمپلیکس کی وجہ سے جعلی ادوایات بنانے والوں کی چاندی ہوئی ہے۔

اس مسئلہ کا ایک معاشرتی پہلو یہ بھی ہے کہ رشتوں کے لیے عورت کے ظاہری حسن و جمال کو دیکھا جاتا ہے۔ لڑکی کا فربہ ہونا بھی مسئلہ ، کمزور ہونا بھی مسئلہ، رنگ کالا ہونا اس سے بھی بڑا مسئلہ۔

تعلیم و تربیت کو یکسر پسِ پشت ڈال کر بھیڑ بکریوں کی طرح لڑکیوں کے دام لگانے والی میریج بیورو آنٹیوں نے بھی اس نظریے کو خوب ہوا دی ہے۔ ایک مذہبی میریج بیورو کے رجسٹر میں، میں نے سانولی اور گوری لڑکیوں کی الگ الگ فہرست بنی دیکھی، اسی طرح طبقاتی تقسیم کی بنیاد پر بھی کئی صفحے کالے ہوتے دیکھے۔

مزید براں، اکثر مردوں کو اشتہا دلانے والی عورت دیکھنے میں اچھی لگتی ہے، ایسا نہ ہو تو پنجابی اور اردو تھیٹر ہاؤس فل نہ ہوں، پورن سائٹس پر بسٹی اور ملف کی کھوج تمام سرچ سے زیادہ نہ  ہو، مرد کو گھر والی میں وہ تمام اوصاف بھی چاہیے ہوتے ہیں جو وہ باہر میڈیا کی عورت میں دیکھتا ہے، اسکو آگاہی نہیں ہوتی کہ دیدہ زیب دکھنے والے جسمانی اعضاء کئی سرجریاں کروانے کے مرہون منت ہیں اُن کو تو بس گھر کی عورت میں اوصاف حمیدہ کے علاوہ جسمانی پرفیکشن درکار ہوتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مان لیتے ہیں کہ عورت ، مرد کی پسلی سے پیدا کی گئی ہے مگر انسانی حقوق دونوں کو یکساں ملے ہیں۔ اب ضرورت ہے کہ مرد پسلی کی تخلیق کو اپنے نچلے دھڑ سے اوپر ہو کر سمجھے اور جسمانی خدوخال سے ہٹ کر اندرونی حسن کو بھی سراہے۔

Facebook Comments

Hira Ayman
بینک کار، نو آموز لکھاری اور شاعرہ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”نسوانی حسن کا مسئلہ ۔۔۔حِراایمن

  1. خدا آپ کو جزائے خیر دے!
    حکیموں کی طرف سے لوٹ مار کے لئے پھیلائی گئی دھمکیوں اور غلط فہمیوں کے خلاف لکھ کر نوجوان نسل کو نفسیاتی پریشانیوں اور بیماریوں سے نجات دلانا اہل قلم کا فرض ہے۔ اشتہارات اور دیواروں پر لکھے جھوٹ نے نوجوان نسل کے اذہان کو مفلوج اور سوچنے سمجھنے سے محروم کر دیا ہے۔ جوان لڑکوں میں مشت زنی کے بارے میں معلومات کیلئے اس مضمون کا مطالعہ کریں اور دوستوں تک پہنچائیں۔
    https://www.mukaalma.com/79086/

Leave a Reply to حمزہ ابراہیم Cancel reply