عورت کا سماجی کردار اور ہمارا معاشرہ۔۔۔محمد منشا طارق

میں کوئی پیشہ ور لکھاری نہیں ہوں اور نہ ہی کو ئی ماہر لسانیات ہوں جو اپنی تحاریر کو وزن دار اور ثقیل اردو کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے پرکشش بنا کر پیش کروں یا قارئین کو الفاظ کے جادو سے مسحور کردوں. جو کچھ بھی لکھتا ہوں اس کا زیادہ تر مواد اپنے ذاتی مشاہدہ اور رائے پر مبنی ہوتا ہے۔ آج جس موضوع پر قلم اٹھایا ہے اس بارے میں ویسے تو کروڑوں اوراق اور منوں سیاہی استعمال کی جا چکی ہے اور بڑے بڑے دانشوروں اور انسانی نفسیات کے ماہرین نے اپنی توانائیاں صرف کی ہیں. یہ موضوع بہت دلچسپ بھی ہے اور  مردوں کے   لئے خاص اہمیت کا حامل بھی  . تو جناب آپ سمجھ ہی گئے ہوں یہ موضوع ہمارے معاشرے کی خواتین کے بارے میں ہے اور تقریباً ہر گھر کی کہانی ہے.

میں ذاتی طور پر خواتین کے حقوق کے حوالے سے بہت مثبت انداز فکر رکھتا ہوں ہمارے معاشرے میں جہاں خواتین مردوں کے ہاتھوں جنسی و سماجی استحصال کا رونا روتی ہوئی عام نظر آتی ہیں. وہیں پر   خواتین  میں موجود  صلاحیتیں اور قابلیتیں بھی بہت اہمیت کی حامل ہیں. اگر پاکستان کی بات کریں تو جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ملک چار یا پانچ بڑی ثقافتوں کا مجموعہ ہے جو کہ اس مجموعی معاشرے کے رنگ ہیں اور ان معاشرتی رنگوں میں جہاں مردوں کا مخصوص کردار اور رویہ ہے وہاں پر خواتین کا کردار بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا. ہم اچھی طرح جانتے  اور مانتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ایک مرد بالادست معاشرہ ہے. یہاں خواتین کل آبادی کا نصف ہونے کے باوجود مرد کا کردار اور اختیار خواتین کے تناسب سے کہیں زیادہ ہے ،کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ گھر کے معاملات خواتین مردوں سے بہتر چلا سکتی ہیں لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہے ،مرد گھر کے معاملات میں بھی اسی سے نوے فیصد تک بااختیار اور باعمل رہتا ہے. اگر سماجی زندگی کی بات کی جائے تو اسی معاشرے میں جہاں مرد حضرات مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں تو خواتین بھی کسی طور پر پیچھے نہیں ہیں لیکن اگر ان کی آؤٹ پٹ کا موازنہ کریں تو یہاں بھی مرد کہیں آگے نظر آتے ہیں.

ذہنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کی اگر بات کی جائے تو تعلیم کے حصول کے حوالے سے پچھلی چند دہائیوں میں خواتین کی مجموعی سکورنگ بہت اچھی رہی ہے لیکن عملی زندگی میں داخل ہوتے ہی مردوں کی بالادستی پھر قائم دائم نظر آتی ہے.  تاریخی کرداروں پر بھی مردوں کی نہ صرف اجارہ داری نظر آتی ہے بلکہ عورت سماجی اور نجی استحصال کی بدنما مثالیں ملتی ہیں ،جیسے عورت کی جنس کی طرح خرید و فروخت، خدمت کے لئے غلامی، برائی کا شگون اور دیوتاؤں کی خوشنودی کے لئے بلی جیسی قبیح   رسومات . لیکن کچھ خواتین کے نام ضرور ملتے ہیں جنہوں نے اپنے اختیار و کردار اور فیصلوں سے تاریخ رقم   کی ہے۔

ماہرین کی رائے سے اگر استفادہ کیا جائے تو یہ عام سننے کو ملتا ہے کہ مرد اور عورت صرف جسمانی فرق رکھتے ہیں باقی ذہنی و جذباتی صلاحیتوں میں کوئی فرق نہیں البتہ عورت کا جسم کچھ کاموں کے کرنے میں رکاوٹ ہے جس کی عمومی مثال بھاری بوجھ اور سخت جسمانی مشقت کے کاموں کے بارے میں دی جاتی ہے لیکن دوسری طرف مردوں کے لئے  کچھ مانع کام ہیں جو صرف خواتین کے لئے ہی مخصوص ہیں. ان میں کچھ کام معاشرتی اور مخصوص خطے اور سماجی ماحول سے بھی تعلق رکھتے ہیں. اسی طرح کچھ ماہرین خواتین کی جسمانی کمزوری کے ساتھ ساتھ ذہنی کمتری کے بھی قائل ہیں. اس قسم کی رائے کا حامی زیادہ تر مذہبی طبقہ ہے. یہ طبقہ اسلام کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والا ہے لیکن مذہب سے قطع نظر بعض معاشرے جو اپنا مخصوص انداز  فکر  رکھتے ہیں وہ بھی عورت کے محدود کردار کے اس کی ذہنی صلاحیتوں کی بنا پر حامی ہیں.
دیگر مذاہب کی عورتوں کے سماجی کردار کے بارے میں کیا رائے ہے اس معاملے میں میں اپنی علمی کمزوری کا اعتراف کرتا ہوں لیکن ایک مسلمان ہونے اور اسلام کو اپنی طالب علمی حیثیت کی حد جانتے ہوئے عورت کے سماجی کردار کا ضرور احاطہ کرنے کی کوشش کروں گا.

اکیسویں صدی کو بلاشبہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے عروج کا دور کہا جاتا ہے اور انسانی حقوق کے حق میں مجموعی طور پر جس قدر آوازیں اس دور میں  اٹھ رہی ہیں شاید پہلے کبھی   ایسی مثالیں نہ مل سکیں، انہی آوازوں میں ایک آواز  خواتین کے حقوق کی بھی بھرپور اور پوری طاقت کے ساتھ اٹھ رہی ہے. لیکن ان حقوق کے مندرجات و جزئیات کے بارے میں کوئی متفقہ لائحہ عمل اور حدو قیود سامنے نہیں آئیں. مغرب میں خواتین کے حقوق کا دائرہ کیا ہے اور مشرق میں کون سی آزادی اور حدود مردوں کے لئے قابل قبول ہیں یہ سوالات ابھی باقی ہیں.

ایک مسلم معاشرے میں خواتین کے حقوق جو مردوں پر واجب ہیں اور مرد کس حد تک ان حقوق کو تسلیم کرنے پر رضا مند ہوں گے اس کے علاوہ خواتین کس طرح کی آزادی کی خواہش مند ہیں اور مردوں کے لئے یہ آزادی کس حد تک قابل قبول ہے اس کو پہلے مذہبی تناظر میں دیکھنا ہوگا.
اسلام جو انسانی حقوق کے تحفظ کا علمبردار دین ہونے کا دعوٰی دار ہے اس کی رہنمائی کو قرآن و حدیث پر مشتمل ہے، سب سے پہلے ہم اسی سے استفادہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.عورت اور مرد کی تخلیق کے حوالے سے قرآن کیا کہتا ہے؛

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا،

اے لوگو! اپنے اس رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک ہی جان سے پیدا کیا اور اسکی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیااور ان دونوں سے بہت سارے مرد اور عورتیں پھیلا دیں.4.1

ان آیات کو عموماً مرد اور عورت کی  برابری کی دلیل کے حوالے سے  پیش کیا جاتا ہے لیکن مذکورہ آیات سے  ایسی کوئی بات اخذ نہیں ہوتی.اسلام میں عمل اور اجر میں مرد وعورت مساوات کا دعوٰی ہے،چنانچہ قرآن پاک میں واضح کردیا گیا،

(وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبُوا ۖ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبْنَ ۚ وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا)

اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو جو کچھ مَردوں نے کمایا ہے اُس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق اُن کا  حصہ ،ہاں اللہ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو، یقیناً اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے.4.32

ان آیات پر ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا عورت کی کام کرنے کی صلاحیت بھی مرد کے برابر ہے یا نہیں؟ یا یوں کہہ لیں کہ عورت کے کام کی حاصل پیداوار مرد کے برابر ہے یا نہیں؟چلیں ذرا اور آگے بڑھتے ہیں اور اعمال کی بات کرتے ہیں.

(وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا)

اور جو نیک عمل کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت، بشر طیکہ ہو وہ مومن، تو ایسے ہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور اُن کی ذرہ برابر حق تلفی نہ ہونے پائے گی.4.132

طَلَبُ العِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ

عِلم کا حاصل کرنا ہرمسلمان مرد ( عورت)پرفرض ہے۔ (سنن ابن ماجہ)

یہاں تک تو بات کافی حد تک واضح ہوگئی کہ عمل و اعمال اور حصول علم میں مذہب اسلام میں عورت اور مرد میں بظاہر کوئی تفریق نہیں.

اب ذرا  اصل سماجی معاملے کی طرف آتے ہیں جس میں آج کی عورت اپنے آپ کو استحصال زدہ تصور کرتے ہوئے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتی ہے اور اپنی سماجی حیثیت سے غیر مطمئن نظر آتی ہے.

الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ

زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو، اگر تم اللہ تعالیٰ اور روز آخرت  پر ایمان رکھتے ہو ،اور ان کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود رہے۔24.2

وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں، ان کو اسی کوڑے مارو اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو، اور وہ خود ہی فاسق ہیں۔24.4

وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.

اور اے نبیؐ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر اِن لوگوں کے سامنے: شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں، ا پنے مملوک، وہ زیردست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں وہ ا پنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے، اے مومنو، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے۔24.31

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا

اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں اُن میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ اُن کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا اُن عورتوں کو زوجیت میں لاؤ جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں، بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ زیادہ قرین صواب ہے۔4.3

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ ۚ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ۚ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ۚ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا

تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ: مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے، اگر (میت کی وارث) دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انہیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے، اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے اگر میت صاحب اولاد ہو تواس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے اور اگر وہ صاحب اولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہو ں تو ماں کو تیسرا حصہ دیا جائے اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصہ کی حق دار ہوگی (یہ سب حصے اُس وقت نکالے جائیں) جبکہ وصیت جو میت نے کی ہو پوری کر دی جائے اور قرض جو اُس پر ہو ادا کر دیا جائے تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے یہ حصے اللہ نے مقرر کر دیے ہیں، اور اللہ یقیناً سب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے۔4.11

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ ۚ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا

مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں اُن سے علیحدہ رہو ، پھر اگر   وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو، یقین رکھو کہ اوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالا تر ہے۔4.34

وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا

اور اگر تم لوگوں کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو، وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ اُن کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے۔4.35

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًى فَاكْتُبُوهُ ۚ وَلْيَكْتُب بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ ۚ وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَن يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ ۚ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا ۚ فَإِن كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لَا يَسْتَطِيعُ أَن يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ ۚ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِن رِّجَالِكُمْ ۖ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَن تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَىٰ ۚ …

اے ایمان والو! جب تم کسی وقت مقرر تک آپس میں ادھار کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو اور چاہیے کہ تمہارے درمیان لکھنے والے انصاف سے لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اس کو اللہ نے سکھایا ہے سو اسے چاہیے کہ لکھ دے اور وہ شخص بتلاتا جائے کہ جس پر قرض ہے اور اللّہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور اس میں کچھ کم کر کے نہ لکھائے پھر اگر وہ شخص کہ جس پر قرض ہے بے وقوف ہے یا کمزور ہے یا وہ بتلا نہیں سکتا تو اس کا کارکن ٹھیک طور پر لکھوا دے اور اپنے مردوں میں سے دو گواہ کر لیا کرو پھر اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ان لوگوں میں سے جنہیں تم گواہو ں میں سے پسند کرتے ہو تاکہ اگر ایک ان میں سے بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے .2.282

امت مسلمہ سے  خواتین کے حوالے سے جو بنیادی غلطی رائج ہوئی وہ یہ تھی کہ ہم نے اسلام میں چند رشتوں کے درمیان دیے گئے مراتب کو مرد و زن کے درمیان فرق تصور کرلیا۔ یعنی اسلام میں شوہر کو بیوی پر ایک درجہ فضیلت دی گئی ہے تاکہ خاندان کا ادارہ اچھے طریقے سے چلے لیکن دوسری جانب یہی فوقیت ایک ماں کو باپ اور بیٹے کے رشتوں پر حاصل ہے لہذا یہ چند رشتوں کے درمیان مراتب ہیں لیکن ہم نے بلاوجہ یہاں جنس ٹھونس کر عورت و مرد کا مسئلہ بنا دیا جس سے انتہائی پیچیدہ مسائل ہمارے مسلم معاشروں میں پیدا ہوئے۔

مثال کے طور پر ایک خاتون گھر میں بیوی ہے جہاں اس کا شوہر گھر کا سربراہ ہے لیکن گھر سے باہر اگر وہی خاتون ایک ڈاکٹر ہے تو وہ ہسپتال میں اپنی تعلیم اہلیت یا تجربے کی بنیاد پر مرد ڈاکٹروں کے پینل بلکہ پورے ہسپتال کی سربراہ یا نگران ہوسکتی ہے۔ دیگر دنیا کی اکثریت بہت حد تک اس مسئلے سے نکل آئی ہے لیکن ہماری سمجھ چونکہ ایک مذہبی تشریح پر مبنی ہے لہذا ہم آج بھی اسے پکڑ کر بیٹھے ہیں۔ اسی کے نتیجے میں ہمارے مذہبی طبقے نے جو پہلے ہی مردوں پر مشتمل ہے نے بلاوجہ اپنے آپ کو عورت ذات پر نگران، قوّام و حاکم مقرر کرلیا۔ لہذا اب عورت قیامت کے دن تو اپنے اعمال کیلئے اللہ تعالی کو جوابدہ ہے لیکن دنیا میں وہ مرد کو جوابدہ ہے چنانچہ وہ مرد کی طرح اپنا مذہب اپنے لیے خود انٹرپریٹ نہیں کرسکتی۔

اسی مذہبی انتہاپسندی کے  نتیجے میں ہماری خواتین کیلئے عجیب و غریب مذہبی و معاشرتی تشریحات کی گئیں۔ کہیں عورت پر برقعے کا غلاف چڑھا کر یا اسے گھر میں بند کرکےاور ایک نام نہاد عظمت کی تصویر بنا کر اسکے تمام حقوق غصب کرلیے جاتے ہیں، مساجد میں اسکے لیے جگہ ہی نہیں ہے اور ہے تو دوسرے درجے کی شہری کی حیثیت سے۔ اور اس طرزعمل کے  نتیجے میں مخالف انتہا پسندی پیدا ہوتی ہے اور دوسری جانب دوسرا انتہاپسند طبقہ سامنے آتا ہے جو آزادی کو کپڑے اتارنے سے تعبیر کرکے عورت کا استحصال کرتا ہے۔ اور ان دونوں طبقوں کے مرد ہمیشہ ایک دوسرے کی قبیح حرکتوں کو مثال بنا کر اپنی اپنی دکان چلاتے ہیں حالانکہ مسئلہ ان کے اپنے دماغوں میں ہوتا ہے کہ یہ عورت کو ایک object کے طور پر لینے کے عادی ہوتے ہیں لہذا ایک کو برقعے میں چھپی عورت قید نظر آتی ہے اور دوسرے کو برقعے سے باہر یا گھر سے تعلیم و نوکری کیلئے نکلی عورت پورے لباس میں بھی  برہنہ  نظر آتی ہے۔

ان دو انتہاؤں کے درمیان اگر دیکھا جائے تو متوازن سطح پر ایک تبدیلی کا عمل جاری ہے لیکن یہ ہمیشہ بتدریج ہوتا ہے اور سوائے مطلق کے ہر کسی کو نظر آجاتا ہے لہذا ساری دنیا جانتی ہے کہ جہاں کہیں عورت کو اپنے مذہب کو سمجھنے، اپنے لئے اس کی تشریح کرنے اور اپنانے کی آزادی ہے یا پھر مذہب سے ماورا صورتحال میں بھی جہاں اسے معاشرے میں تعلیم نوکری و آزادی رائے کے یکساں مواقع میسر ہیں وہاں خواتین نہ  برہنہ  ہیں اور نہ مقفل کمروں میں ہیں بلکہ وہ ڈاکٹر ہیں، انجنیئر ہیں اور زندگی کے تمام شعبہ جات میں کارہائے نمایاں سرانجام دیتی ہیں اور یونیورسٹیز یا دیگر اداروں سے لیکر ملکوں کی سربراہی تک سب کچھ کر رہی ہیں۔

لہذا اصل خناس جنسیاتی مرض ہے اور جب یہ مذہبی  بنیاد پرستی سے ملتا ہے تو نتیجے میں صرف تباہی  ہوتی ہے،کیونکہ مذہبی بنیاد پرست کی تعریف ہی یہ ہے کہ یہ وضاحتی ہے اور حکمت سے عاری ہے لہذا یہ دین و دنیا کی ہر بات میں حتمی فیصلہ مانگتا ہے چنانچہ  کسی بھی معاملے میں اختلاف رائے نامی چیز اس کے ہاں موجود نہیں۔ اور بدقسمتی سے یہ کام دیگر مذاہب کی طرح اسلام میں بھی عام ہو چکا ہے تبھی مساجد سے لیکر مذہب کے تمام شعبہ جات پر مرد قابض ہیں۔

حالانکہ دیگر معاملات کی طرح عورت و مرد کے درمیان بھی اسلام نے بڑی حکمت سے عدم اطمینان کا درس دے کر معاملہ دونوں کے درمیان چھوڑ دیا لیکن ہمارے بنیاد پرستوں اور مردانہ کمزوری کا شکار چند “قوام” مرد عورت کے لباس کے رنگ، لمبائی اور موٹائی سے لیکر اسکی آواز کے ردوبدل، اسکی آنکھوں کا اتنے ڈگری اٹھنا، اسکا لب و لہجہ، اسکی خوشبو کی حدود غرض ہر ایچی بیچی اسکے لیے ڈیفائن کرکے ڈاکٹر کی طرح پرچی لکھنے بیٹھ جاتا ہے کہ عورت کی آواز بھی awrah ہے اور فلاں بھی اور ڈھمکاں بھی، اسکے ڈرائیونگ کرنے سے معاشرے میں یہ برائی پھیلے گی اور گھر سے اتنے کلومیٹر دور جانے سے وہ مسئلہ ہوگا۔ اور پھر اپنے ذہن میں ایجاد کردہ مکمل قواعد و ضوابط اور حدود و قیود کا ایک ڈھیر اسکے سامنے رکھ کر کہتا ہے کہ اس پر لفظ بہ لفظ عمل کرو ورنہ تم حرام کاری کی مرتکب ہو۔ البتہ اگر تم اُن حدود میں رہو گی جو میں نے تمہیں دی ہیں تو پھر تو وہ اعلیٰ مقام تمہیں ملے گا جو اسلام نے تمہیں دیا ہے۔

اور فطری بات ہے کہ جب نام نہاد مذہبی پابندیوں کا ایک بوجھ عورت پر گدھے کی طرح لاد دیا جاتا ہے اور اسے کہا جاتا ہے کہ تم فساد کی جڑ ہو، ناقص العقل ہو، ہر معاملے میں مرد سے کم تر ہو، تمہاری گواہی آدھی ہے، تو پھر کسی بھی مقفل اور پِسے ہوئے انسان کی طرح اسے آزادی میں کشش نظر آنے لگتی ہے لیکن بدقسمتی سے اُس آزادی میں بھی ایک اور مرد اسکے لیے دلآزاری کا سامان ک تیار رکھتا ہے۔لہذا ہمارے معاشرے کو اس رویہ سے نجات حاصل کرنا ہوگی ، جس دن یہ کرلیں گے اُسی دن سے ہمارے مسائل حل ہونا شروع ہو جائیں گے۔

عورت کے مقام کو مذہب کے پیرائے میں دیکھنے والے اور یہ ثابت کرنے  والے کہ اسلام نے خواتین کو جو حقوق دئیے ہیں وہ کسی اور مذہب نے نہیں دئیے وہ دانشور اور لکھاری انہی آیات کو اپنی تحریروں میں مزین کرتے ہیں اور لمبے لمبے مضامین لکھتے ہیں لیکن اگر غور کیا جائے تو وہ طبقہ جو مذہب اسلام پر جرح کرتا ہے وہ بھی انہی آیات کو نشانہ بناتا ہے. یہی وہ ذخیرہ آیات جن کی روشنی میں عمومی طور پر خواتین  کی سماجی و قانونی حیثیت کو دیکھا جاتا ہے، انہی آیات کو علما اور سماجیات کے ماہرین اپنے  فکری تناظر میں پیش کرتے ہیں اور عورتوں کے حقوق کا دفاع یا نقب زنی کرتے ہیں.

لیکن مردوں اور خواتین کے حوالے  سے کچھ باتیں اور ذمہ داریاں واضح طور پر طے اور حدیں بھی مقرر کردی گئی ہیں. ان آیات کا زیادہ تر فوکس مرد اور عورت کی ازدواجی زندگی پر ہے. عورت جب اپنے ماں باپ کے گھر میں ہوتی ہے تو عمومی طور پر نہ ہی اسے اپنے حقوق کا خیال آتا ہے نہ ہی مردوں  کا رویہ   استحصالی لگتا ہے   ،جبکہ ہمارے جیسے معاشرے میں استحصال کی ابتدا عورت کے اپنے والدین کے گھر سے ہوتی ہے. عورت کو پرایا دھن کہنا، جائیداد میں حصہ نہ دینا، شادی کے وقت لڑکی  کی مرضی اور خواہش کا احترام نہ کرنا، پیشہ ورانہ زندگی اختیار کرنے کی شدید مخالفت کرنا، اسی طرح کے اور دیگر استحصالی رویے شامل ہیں اس کے علاوہ  کچھ جاہلانہ رسومات جن کی بھینٹ عورت کو چڑھایا جاتا ہے ہمارے معاشرے کے ماتھے پر بدنما داغ ہیں.

ان سارے ظلم اور زیادتیوں کے باوجود کچھ سوالات ہیں جو ہمارے معاشرے کی خواتین کو کٹہرے میں لا کھڑا کرنے والے ہیں ہمارے معاشرے کی وہ الٹرا ماڈ خواتین جو ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ چلنے اور ہر میدان میں برابر کی شرکت کی طلبگار ہیں جو شمع محفل بن کر بھنوروں کے جلنے پر معترض ہیں، جو سراپا سنگھار اور جاذب نظر ہو کر نظروں کے تیروں کی چبھن کی شکایت کرتی ہیں کیا وہ اپنے مردوں اور اولاد کی طرف سے سپرد کی گئی یا ازدواجی زندگی کے فرائض کے ساتھ انصاف کا معاملہ کر رہی ہیں؟ کیا مرد جو اپنے خاندان کے لئے اپنی ذات کی نفی کردیتا ہے اپنی عورت سے سکون اور راحت کا متمنی ہے وہ نہ ہو؟

آج کی عورت حقوق یعنی میرا جسم میری مرضی کی آڑ میں کیا اور کون سے مطالبات منوانا چاہ رہی ہے . یہ تسلیم ہے کہ اس کا جسم اسی کی مرضی ہے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ صرف عورت ہی نہیں مرد بھی رشتوں اور تہذیبی قدروں میں بندھے ہوئے ہیں جن رشتوں کے کچھ تقاضے ہیں، کسی بھی تہذیب میں رہتے ہوئے ہم الگ تھلگ اور مکمل طور پر انفرادی زندگی نہیں گزار سکتے. جہاں ہمارے حقوق ہیں وہیں ہم سے وابستہ دوسروں کے حقوق ہیں جنہیں فرائض کہا جاتا ہے اور جنہیں پورا کئے بغیر ہم اپنے حقوق کے حصول کی توقع نہیں کر سکتے.

ہم مرد اعتراف کرتے ہیں کہ عورت کا صدیوں سے استحصال ہوتا آیا ہے لیکن آج اسی مرد بالادست دور میں بھی عورت زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہے، سیاست، صنعت، ایڈمنسٹریشن، قانون، صحت، تعلیم، انصاف حتی کہ کوئی ایسا شعبہ نہیں جس میں خواتین کی شرکت نہ ہو. عورت اس وقت بہت سے شعبوں کے لئے ناگزیر ہوچکی ہیں.

اگر عورت مذہب کے حوالے سے آدھی گواہی کی شکایت کرتی ہے یا مرد کی ایک سے زیادہ شادیوں پر اعتراض کرتی ہے یا تاریخ میں اپنی لونڈی کی حیثیت کا گلہ کرتی ہے تو یہ بھی یاد رکھے کہ لونڈیوں کا رواج عرب کلچر کا حصہ تھا وہاں بھی عرب کی مقامی عورت کی حیثیت کسی سردار سے کم نہیں تھی اور یہ معلوم ہے کہ اسلام کے اول مخاطبین عرب تھے. ہندوستانی معاشرے میں عورت کو بہرحال بہت بہتر مقام حاصل رہا ہے ہندوستان کی مذہبی کتابوں میں عورت ماتا، دیوی، درگا، لکشمی، رادھا اور دیگر کی حیثیت سے جانی جاتی ہے.

میں اس رائے سے اتفاق کرتا ہوں ہمارے معاشرے کی عورتوں کی ذہنی سطح ابھی ایسی نہیں کہ وہ برابری کا مفہوم سمجھ سکیں، یہ پہلے اپنی آزادی کا تعین کریں یا حقوق و فرائض کے باہمی تعلق کے ساتھ انصاف کرسکیں. کہا جاتا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اسی طرح ناکام کے پیچھے بھی عورت ہی ہوتی ہے کچھ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ناکام مرد کے پیچھے ایک سے زیادہ عورتوں کے ہاتھ ہوتے ہیں. یہ عورت ہی ہوتی ہے جس کے مطالبات پر مرد اپنے ایمان، خودداری اور نیک نیتی کا بھی سودہ کر لیتا ہے لیکن یہ مطالبات کم ہونے کا نام نہیں لیتے.

طلاق کا حق اگر مردوں کو حاصل ہے تو میں سمجھتا ہوں یہ خدا کی بڑی رحمت اور حکمت ہے ورنہ ہمارے معاشرے میں جس قدر عورت باتوں سے پسیج جاتی ہے مرد اور اولادیں رل جاتیں.ہمارے سماج میں شادی سے پہلے عورت اور مرد کی ازدواجی حوالے سے ذہنی تربیت نہ ہونے کے برابر ہے.شادی کے لئے لڑکے کا برسر روزگار اور لڑکی کا جوان اور خوبصورت ہونا کافی سمجھا جاتا ہے حالانکہ   جوانی اور خوبصورتی ایک فطری مرحلہ ہے نہ کہ عورت کی قابلیت، لڑکیاں آج بھی شادی شدہ زندگی کے بارے میں کسی شہزادے یا رئیس کی منتظر ہوتیں ہیں اور لڑکے کسی ہیروئین یا ماڈل گرل کے خواب دیکھتے ہیں. والدین کی طرف سے دونوں یعنی لڑکے اور لڑکی کو آئندہ زندگی کے بارے میں نہ ہی ذہنی طور پر تیار کیا جاتا ہے اور نہ ہی ازدواجی و خاندانی ذمہ داریوں سے کوئی معلومات فراہم کی جاتی ہیں. شادی شدہ جوڑے جب ذہنی طور پر پختہ ہوتے ہیں اور ازدواجی زندگی کی باریکیوں سے آگاہ ہوتے ہیں تب تک ان کی اولادیں جوان ہو چکی ہوتی ہیں.

ہمارے ملک کی  آدھی آبادی جو خواتین پر مشتمل ہے ان سے یہ بھی سوال کیا جا سکتا ہے کہ ان کا معاشرے کی اصلاح و تعمیر میں کتنا کردار ہے؟ بچے پیدا کرکے پال لینا، یہ تو جانور بھی کرتے ہیں. ایک مرد جو شادی کرنے اور اولاد پیدا کرنے کے بعد ان کی خوراک اور تربیت کا بندوبست کرتا ہے اسی خاندان کے ساتھ دوسرا بڑا شریک یعنی “عورت” مرد کی طرح ایک مکمل دماغ اور ہاتھ پاؤں رکھنے کے باوجود کس قدر خاندان کی تعمیر کا سبب بنتی ہے؟
بات تلخ ضرور ہے لیکن کھرا سچ ہے کہ ہمارے معاشرے کی خواتین بچپن سے جوانی تک والدین کو کھاتی ہیں، شادی سے بڑھاپے تک شوہروں کو اور بڑھاپے سے موت تک بیٹوں کو اور اس  بارے میں عام جواب جو شوہروں کو سننے کو ملتا ہے وہ ہے کہ ہم نے اولاد پیدا کی ہے یعنی وہ خود ہی اپنے آپ کو بچے  پیدا کرنے والی مشینیں ثابت کر رہی ہوتی ہیں.

پاکستان جیسا بڑی آبادی کا ملک جہاں پہلے ہی آمدنی اور  بنیادی ضروریات کے مسائل وافر ہیں ، اپنی آدھی آبادی کا غیر فعال اور غیر تعمیر ہونے کا متحمل نہیں ہو سکتا. اس وقت دنیا میں ہزاروں کام ہیں جو کسی مرکز کے بغیر اپنے گھروں پر بھی کئے جا سکتے ہیں.جس عورت کو اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس نہ ہو اسے حقوق کا شعور دلانا، مرد کا اپنی ازدواجی زندگی کو جہنم بنانے کے مترادف ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ امید ہی کی جاسکتی ہے کہ ہمارے معاشرے کی خواتین اپنے حقوق کے مطالبے کے ساتھ ساتھ اپنے فرائض کی آگاہی اور ادائیگی کو بھی اہمیت دیں اور معاشرے میں اپنے کردار کو مزید تعمیری بنانے اور اپنی اہمیت و افادیت کو ثابت کرنے پر بھی توجہ مرکوز رکھیں .”آپ اپنی سماجی اہمیت ثابت کیجیے آپ کو حقوق کا مطالبہ نہیں کرنا پڑے گا”

Facebook Comments

محمدمنشاء طارق
چوہدری محمد منشاء طارق ورک، مقیم ابوظہبی متحدہ عرب امارات. تعلق اسلام آباد پاکستان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply