کرتار پور راہداری۔۔۔محمد اشفاق

کرتار پوری کاریڈور کا جب افتتاح ہوا تو اسے پاک بھارت تعلقات میں ایک نئی پیشرفت کے طور پر ہر جانب سے سراہا گیا۔ امید تھی کہ یہ دونوں ملکوں کے عوام سے عوام کے روابط میں بہتری لائے گا جو بالآخر حکومت سے حکومت کے تعلقات میں بہتری کا سبب بنے گی۔ بدقسمتی سے اس کے بعد خطے میں کچھ ایسی ڈویلپمنٹس ہوئیں جنہوں نے اس منصوبے کے متعلق ہمارے ریاستی فیصلہ سازوں کی سوچ کا رخ موڑ دیا۔

نواز شریف اور مودی کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں کو جن قوتوں نے سبوتاژ کیا، موجودہ حکومت کے ساتھ وہ ایک صفحے پر پائی جاتی تھیں اس لئے جناب وزیراعظم اور مقتدر ادارے کا خیال تھا کہ مودی جب نیا مینڈیٹ لے کر آئے گا تو پاک بھارت مذاکرات کی بحالی اور ان سے مثبت نتائج کا حصول، ممکن ہو سکے گا۔ مودی جبکہ کچھ اور ارادے لے کر آئے۔

پہلے بالاکوٹ واقعے اور پھر اگست میں کشمیر پہ بھارت کے یکطرفہ جارحانہ اقدام نے ان سب خام خیالیوں پہ پانی پھیر دیا۔ اس کے بعد ہمارے پالیسی سازوں نے کرتار پور کاریڈور کو بھارت کے خلاف ایک تزویراتی آلے کے طور پر استعمال کرنے کی پالیسی اپنائی۔

یہ پالیسی بھی بجائے خود ایک سمارٹ موو تھی۔ لیکن ہماری بدقسمتی کہ اسے نافذ کرنے کی کوشش ایسے بھدے اور بھونڈے طریقے سے کی جا رہی ہے کہ جو ثمرات ہمیں حاصل ہو سکتے تھے، نہ صرف وہ کھٹائی میں پڑتے دکھائی دے رہے ہیں بلکہ ہر ناکام جارحانہ سفارتی و سیاسی اقدام کے جو مضر اثرات ہوتے ہیں، خدشہ ہے کہ ہمیں وہ بھی بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔

وزیراعظم کی حلف برداری کی تقریب میں سدھو کو جادو کی جپھی ڈال کر کرتار پور معاملے پر آرمی چیف نے جو یقین دہانی کروائی، آئینی اور قانونی طور پر وہ اس کے مجاز ہی نہیں تھے۔ یہ ہماری پہلی غلطی تھی جس نے بھارتی حکومت کو چوکنا کیا۔ جناب عمران خان نے اس اقدام کو اون کر کے سمجھداری کا مظاہرہ کیا۔ مزید سمجھداری کا تقاضا یہ تھا کہ فوج کم از کم اوپر اوپر سے، ظاہری طور پر خود کو اس معاملے سے علیحدہ کر لیتی۔ جب آپ ایک تیر سے کئی شکار کھیلنے کا ارادہ رکھتے ہوں تو یہ ضروری ہوتا ہے کہ دشمن اندازہ نہ کر پائے کہ آپ کہاں بیٹھے تیراندازی فرما رہے ہیں۔ بدقسمتی سے آرمی چیف کشاں کشاں اس تقریب میں بھی جا پہنچے۔ یہ دوسری غلطی تھی۔

پاکستان میں ایک دو نہیں درجنوں تعمیراتی کمپنیاں بغیر کسی سرکاری سرپرستی کے، ایف ڈبلیو او سے کہیں زیادہ مہارت، تجربے، افرادی قوت اور وسائل کی حامل ہیں۔ گزشتہ دس سال میں مختلف ہائی ویز، ایکسپریس ویز، سٹیٹ آف آرٹ ہاسپٹلز، انڈر پاسز، فلائی اوورز اور تین میٹروز ان پاکستانی کمپنیوں نے ریکارڈ مدت میں مکمل کر رکھے ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے یہ قطعی ضروری نہیں تھا کہ فوج کا ایک ذیلی ادارہ ایف ڈبلیو او گوردوارے کی تعمیر کا بیڑا اٹھاتا۔ یہ تیسری غلطی تھی۔

ایف ڈبلیو او نے یہ ٹھیکہ بغیر ٹینڈر جاری ہوئے، بغیر متعلقہ محکمے کی منظوری کے حاصل کیا۔ اب مطالبہ یہ ہے کہ اس پراجیکٹ کو پیپرا رولز اور آڈٹ سے بھی مستثنیٰ قرار دیا جائے وہ بھی بیک ڈیٹ میں، کیونکہ پراجیکٹ کا پہلا مرحلہ تو آلریڈی مکمل ہو چکا۔ وفاقی کابینہ نے پہلا مطالبہ مان لیا ہے دوسرے پہ تادم تحریر مزاحمت کر رہی ہے- سات ارب کا پراجیکٹ بغیر ٹھیکے کے کسی اور کمپنی نے لیا ہوتا اور حکومت اسے پیپرا رولز سے پچھلی تاریخوں میں مستثنیٰ قرار دیتی تو یہ جی آئی ڈی سی جتنا بڑا سکینڈل بنتا مگر یہاں چونکہ متعلقہ کمپنی فوج کی ہے اس لئے میڈیا نے خاموش رہنے ہی میں عافیت سمجھی۔

میں اسے چوتھی غلطی سمجھتا ہوں کیونکہ بھارتی پنجاب اور وفاق کی حکومت نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کاریڈور کی منظوری بھی فوج ہی نے دی ہے اور اسے بنایا بھی فوج ہی نے ہے اور وہ اس کی تعمیراتی تفصیلات کو بھی خفیہ رکھنا چاہ رہی ہے-

آئی ایس پی آر کی گزشتہ چند برسوں سے رقص و موسیقی کے ساتھ جو غیرمعمولی obsession دیکھنے میں آئی ہے، عمومی طور پر پاکستانی اس سے نالاں ہیں مگر کرتار پور راہداری پر نغمہ ریلیز کر کے تو ہمیں انگشت بدنداں ہی کر دیا گیا ہے- بھائی یہ نغمے سکھ ریلیز کرتے تو ان کی خوشی سمجھ میں بھی آتی، آپ کو کیا پڑی تھی؟

پھر یہیں پہ بس ہو جاتی تو خیر تھی، اس نغمے کی وڈیو میں بھارت کے تین علیحدگی پسند سکھ راہنماؤں کی تصاویر شامل کرنے سے آپ کو سوائے بدنامی اور ایک مذہبی پراجیکٹ کو متنازعہ بنانے کے کیا حاصل ہوا۔ جواز یہ بتایا جا رہا کہ سکھوں کیلئے یہ تینوں راہنما قابل احترام ہیں۔ آج دنیا میں اربوں مسلمانوں میں سے شاید ہی کچھ ایسے ہوں جو خالد شیخ، الیاس کاشمیری یا ابوبکر بغدادی کو اپنا ہیرو سمجھتے ہوں۔ اسی طرح بھارتی سکھوں کی اکثریت کیلئے بھی یہ تینوں راہنما مذہبی شدت پسند ہیں اور بس۔ یہ بیڈ موو تھی مگر اس سے بھی برا اسی وڈیو میں خالصتان 2020 کا پوسٹر دکھا کر کیا گیا۔ یعنی آپ یہ کاریڈور بنا کر بھارت کو پیغام دے رہے ہیں کہ سکھ ہماری اس راہداری سے اتنے خوش ہوں گے کہ اگلے برس وہ اپنا علیحدہ ملک بنا لیں گے۔ مطلب سیریسلی؟

گانا ریلیز کرتے ہی ہماری ففتھ جنریشن ہائبرڈ وار کے مجاہدوں نے سوشل میڈیا پر “خالصتان 2020” اور “کرتار پور کاریڈور” کا ٹرینڈ بھی چلا دیا۔ اس ٹرینڈ میں پیش پیش ہارلین کور اور پریت کور قسم کے درجنوں جعلی ہینڈلز کو چیک کیا ہے، تقریباً سب کے سب اگست 2019 میں تخلیق کئے گئے ہیں۔ یعنی بھارت سے کشمیر کے محاذ پہ سیاسی، سفارتی اور تزویراتی ہزیمت اٹھانے کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ اب کاریڈور پراجیکٹ کو بطور ایک تزویراتی ہتھیار کے استعمال کیا جائے۔

یقین جانیں مجھے کرتار پور کاریڈور کے تزویراتی استعمال پر کوئی اعتراض نہیں۔ اعتراض اس حکمت عملی پر ہے جس میں آپ چیخ چیخ کر، ڈھول بجا بجا کر اپنے جارحانہ عزائم کا اعلان کرتے پھر رہے ہیں۔ مذکورہ بالا ٹرینڈز میں انٹرنیز یہ باور کرانے میں مصروف ہیں کہ کاریڈور بننے سے بھارتی سکھ ہمارے اتنے ممنون احسان ہوں گے کہ جنگ کی صورت میں وہ ہم سے لڑنے سے انکار کر دیں گے، بھارت کے ناجائز تسلط کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے، کشمیر کی آزادی کی راہ ہموار ہو جائے گی، وغیرہ وغیرہ۔

حضور والا یہ سب نیک عزائم اسی صورت میں ممکن ہوتے ہیں جب آپ دائیں ہاتھ سے کوئی کاریگری دکھائیں تو بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو۔ آپ کی اس بھونڈی مہم کو ہم گھر بیٹھے فارغ لوگ سمجھ رہے ہیں تو کیا بھارتی حکومت اور ادارے اس سے بے خبر ہوں گے؟ اور کسی سے نہیں تو بھارت ہی سے سیکھ لیتے کہ اپنے جارحانہ عزائم کو خفیہ کیسے رکھا جاتا ہے؟

کم و بیش دو عشروں سے بھارت بلوچستان کی علیحدگی پسند تحریک کی پشت پناہی کر رہا ہے- کئی باغیوں کو اس نے پناہ دے رکھی، دنیا بھر میں فری بلوچستان کی مہم سے مالی تعاون کر رہا۔ اس کا ایک اہم ترین جاسوس ہم نے پکڑ رکھا اور اس پر عالمی عدالت میں مقدمہ بھی لڑ چکے۔ اس کے باوجود بھارت نہ صرف ان تمام دخل اندازیوں سے انکار کرتا ہے، بلکہ انسانی حقوق کی آڑ لے کر بلوچستان کا معاملہ اچھالنے کے سوا اس نے کبھی ایسے بلند و بانگ دعوے یا اعلان کرنے کی زحمت نہیں کی۔ وجہ یہی ہے کہ خفیہ تزویراتی پالیسیوں کا ٹویٹر اور فیسبک پہ ڈھنڈورا پیٹنا کاؤنٹر پروڈکٹو ہوتا ہے-

بھارت جان بوجھ کر کچھ لوگوں کو بار بار کرتار پور بھیجے، پھر چند ماہ بعد انہیں علیحدگی پسندوں کے روپ میں دنیا کے سامنے کھڑا کر دے، ان کی امدورفت کا ریکارڈ دکھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے کہ پاکستان انہیں تربیت دیتا رہا ہے- تو ہمارے جاری کئے ہوئے نغمے، ان کی وڈیوز، ہمارے یہ جعلی ٹرینڈ اور شیخ رشید جیسے احمقوں کے وڈیو بیانات ہی ہمیں مجرم ثابت کرنے کو کافی ہوں گے اور ایف اے ٹی ایف اور دیگر عالمی اداروں کی جانب سے ہم پر جو دباؤ اور پابندیاں موجود ہیں، ان کے ہوتے ہوئے ایسے کسی منظرنامے کا سوچ کر ہی خوف آتا ہے-

جناب وزیراعظم کی جانب سے ایک روز بغیر پاسپورٹ اور فیس کے سکھوں کے داخلے کا اعلان اور تیسرے دن فوج کے ترجمان کی جانب سے اس کی تردید اس اہم ترین مسئلے پر کوارڈینیشن کے فقدان کو آشکار کر رہی ہے- جب خارجہ امور پر فیصلہ سازی کے مراکز بھی ایک سے زیادہ ہو جائیں تو یہی کچھ ہوتا ہے-

یہ تو ہوئے تکنیکی اعتراضات۔ اب لگے ہاتھوں معاملے کو کشمیریوں کے نقطہء نظر سے بھی دیکھ لیا جائے۔

کشمیر میں بالخصوص اور پاکستان میں عمومی طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ بھارت کے اگست کے اقدام کے بعد ہمارا ردعمل نرم ترین الفاظ میں تسلی بخش نہیں تھا۔ ہم اہم ترین ارکان میں سے ایک ہونے کے باوجود موتمر عالم اسلامی اور او آئی سی کے ہنگامی اجلاس بلوانے تک میں ناکام رہے۔ سلامتی کونسل اور انسانی حقوق کی کونسل میں ناکامی ہمارا مقدر بنی اور ہماری اب تک کی کوششوں کا سم ٹوٹل خان صاحب کے جنرل اسمبلی والے تاریخی خطاب کو چھوڑ کر صفر ہے۔ اس پس منظر میں ڈھائی کروڑ بھارتی شہریوں کو پاکستان کے اندر ویزا فری رسائی دیا جانا کشمیریوں کیلئے کس حد تک اطمینان اور مسرت کا باعث ہو گا، یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں۔ مگر کرتار پور معاملے سے کشمیریوں کا ایک اور تعلق بھی ہے-

سینکڑوں برس کشمیریوں نے ڈوگروں کی غلامی سہی ہے- اس دور کے سکھوں کے مظالم کی خوفناک داستانیں آج بھی کشمیری لوک کہانیوں کا حصہ ہیں۔ دور نہ جائیں، قیام پاکستان کو ہی دیکھ لیں۔

اکتوبر اور نومبر 1947 کو ڈوگرہ افواج نے پنجاب سے آنے والے مسلح سکھوں اور ہندوؤں کے جتھوں کے ہمراہ جموں کے مسلمانوں کے خون سے جو ہولی کھیلی اس سے پہلے تک جموں اسی فیصد مسلمان اکثریتی علاقہ تھا۔ دو سے تین لاکھ مسلمانوں کی شہادت، ہزاروں بہنوں بیٹیوں کے اغوا اور عصمت دری اور لاکھوں کے زبردستی پاکستانی حدود میں دھکیل دیے جانے کے بعد جموں ہندو اکثریتی خطے میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ بیسویں صدی میں ethnic cleansing کی بدترین مثالوں میں سے ایک ہے۔

کل یعنی چھ نومبر کو کشمیریوں نے سکھوں کے ہاتھوں ہونے والی اس خوفناک نسل کشی کی یاد میں “یوم شہداء جموں” منایا اور دو دن بعد جناب وزیراعظم ساڑھے پانچ سو سکھوں کے وفد کا پرجوش استقبال فرما رہے ہوں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب لگے ہاتھوں جموں کے شہداء کیلئے بھی ایک گانا ریلیز کر دیں۔ اس سے زیادہ کی اب آپ سے امید ہی نہیں رہی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply