• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • خواجہ سراء اپنے خاندان کیلئے ناقابل ِ قبول کیوں؟-ثاقب لقمان قریشی

خواجہ سراء اپنے خاندان کیلئے ناقابل ِ قبول کیوں؟-ثاقب لقمان قریشی

زنایہ چوہدری خواجہ سراء کمیونٹی کی مشہور ایکٹوسٹ ہیں۔ چند روز قبل زنایہ نے لاہور چنگی کی رہائشی خواجہ سراء نشاء کی میت کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی۔ پوسٹ میں قبولیت پر سوالات کیئے گئے۔ نشاء کی وفات ہارٹ اٹیک سے ہوئی۔ گھر والوں کو اطلاع دی گئی تو انھوں نے میت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
خواجہ سراؤں کے گھر والے اتنے سنگدل کیوں ہو جاتے ہیں؟ کیوں انھیں عید، خوشی اور غمی میں شرکت کی اجازت نہیں دیتے؟ انکے جنازوں کو قبول کرنے سے کیوں انکار کر دیتے ہیں؟ سارے سوالات اہمیت کے حامل ہیں۔ خاندان والوں کی مجبوریاں اور خواجہ سراؤں کی غلطیوں کو جاننے سے پہلے دو مثالیں دینا چاہتا ہوں جسکے  بعد مسائل کی وجہ اور حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔
ایڈوکیٹ نشاء راؤ وطن عزیز کی پہلی خواجہ سراء وکیل ہیں۔ ایک ماہ قبل نشاء کے والد صاحب کی وفات ہوئی۔ اس صدمہ سے بھائی کو ہارٹ اٹیک ہوا۔ جس کے بعد بائی پاس ہوا۔نشاء کیلئے دونوں صدمات بہت بڑے تھے۔ بھائی کو دیکھ کر نشاء بھی بیمار ہوگئیں۔ نشاء کا بھی آپریشن ہوا۔ نشاء کے آپریشن کا سارا خرچہ بہنوئی نے اٹھایا۔ آپریشن کے وقت ولدیت میں اپنا نام درج کروایا۔ اللہ تعالی نشاء اور انکے بھائی کو صحت کاملہ عطا فرمائے اور انکے خاندان کو مزید پریشانیوں سے بچائے۔
نشاء کا تعلق گجرانوالہ سے ہے۔ میٹرک کرنے کے بعد نشاء نے ایک اور خواجہ سراء کے ساتھ ملکر گاؤں چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ دونوں سمندر دیکھنے کے بہانے کراچی چلے گئے۔ نشاء جن خواجہ سراؤں کے ساتھ جڑیں وہ بھیک مانگ کر زندگی گزارتے تھے۔ گھر فون کرتیں تو بھائیوں اور بہنوں کی تعلیمی قابلیت کا پتہ چلتا۔ جس سے نشاء میں جذبہ پیدا ہوا۔ نشاء دن کے وقت بھیک مانگتیں، شام کو محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتیں۔ نشاء کی زندگی اسی طرح گزرتی گئی۔ ایف-اے، بی-اے اور اس کے بعد بین الاقوامی تعلقات عامہ میں ایم-اے کیا۔ نشاء میرے گھر بھی آچکی ہیں۔ میرے بچوں کو سمجھاتے ہوئے نشاء نے انھیں بتایا کہ وہ اتنا اچھا پڑھاتی تھیں کہ محلے کے جس گھر میں کوئی نالائق بچہ ہوتا تو محلے والے اسے مشورہ دیتے کہ اسے کھسرے سے ٹیوشن پڑھاؤ۔ پھر کسی نے نشاء کو ایل-ایل-بی کا مشورہ دیا۔ نشاء اسی طرح دن میں بھیک مانگتیں شام کو لاء کالج چلی جاتیں۔ اسی دوران نشاء کو جاب بھی مل گئی اور نشاء مشہور ہوگئیں۔ نشاء اس وقت ¬ایل-ایل-ایم کر رہی ہیں جو جنوری 2023ء میں مکمل ہونے والا ہے۔ اسکے بعد نشاء بیرسٹری کیلئے لندن جانا چاہتی ہیں۔ نشاء نے زندگی میں کبھی ناچ گانا یا سیکس ورک نہیں کیا۔ پابندی سے نماز پڑھتی ہیں۔ نشاء کے گھر والے اور دوست ان سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ انھیں ذرا سا کوئی مسئلہ درپیش ہو تو دوستوں کی لائن لگ جاتی ہے۔
میری ایک اور قابل احترام دوست میڈم صباء ہیں۔ انڈس ہوم اور تڑپ کی صدر ہیں۔ صباء گل کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے۔ بچپن میں صباء گل علاقے کی مسجد کی صفائی اور نمازیوں کیلئے گرم پانی کا بندوبست کرتی تھیں۔ ساتھ ہی گائے، بکریاں اور دیسی مرغیاں پالتی تھیں۔ صباء نے گاؤں میں بکریوں کا ایک بڑا ریوڑ بنا لیا تھا۔ پھر صباء راولپنڈی آگئیں اور یہاں بھی یہی کام شروع کر دیا۔ 2018ء تک صباء کے ڈیرے پر 300 بھینسیں، بکریاں اور دیسی مرغیاں ہوا کرتی تھیں۔ پھر صباء کو ایک بھینس نے ٹکر مار دی جس کے بعد انھوں نے دودھ کا کام ترک کرکے این-جی-او بنا لی۔ صباء گل بھی باقاعدگی سے نماز پڑھتی ہیں۔ انھوں نے بھی زندگی میں کبھی ناچ گانا وغیرہ نہیں کیا۔ صباء کے گھر والے بھی صباء کے پاس آتے ہیں۔ انھیں ہر خوشی غمی پر عزت کے ساتھ مدعو کرتے ہیں۔ صباء کے ساتھ بھی ہر اونچ نیچ پر خاندان دوست احباب سب انکے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔
نشاء نے دس سال بھیک تو مانگی لیکن کبھی کسی غلط کام میں نہیں پڑی، میڈم صباء گل بھی گائے اور بکریاں پالتی رہیں۔ اسی لیئے ان کے خاندان والے نا صرف انھیں قبول کرتے ہیں بلکہ ان پر جان نچھاور کرتے ہیں۔ اسکے برعکس جو خواجہ سراء غلط کاموں میں پڑ جاتے ہیں انھیں گھر اور معاشرے میں قبولیت نہیں ملتی۔ ایک بات اور واضح کرتا چلوں کہ ایسا نہیں ہے کہ فنکشنز اور سیکس ورک کرنے والے خواجہ سراؤں سے گھر والے تعلق ختم کر لیتے ہیں۔ بھیک، فنکشنز اور سیکس ورک کے کاموں میں بہت پیسہ ہے۔ خواجہ سراء ان کاموں سے کمایا گیا پیسہ جب گھر بھیجتے ہیں تو وہ خوشی سے لے لیتے ہیں اور ساری زندگی لیتے رہتے ہیں۔ جب وہ خواجہ سراء بوڑھا، بیمار یا ریٹائرڈ ہو جاتا ہے تو گھر والے آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ میری نظر سے ایسے بھی کیسز گزرے ہیں جن میں والدین خود یا دوسرے بچوں کے کہنے پر خواجہ سراء کو گھر سے نکال دیتے ہیں۔ پھر بیٹے شادیاں کر کے الگ ہو جاتے ہیں اور آخر میں گھر سے نکالا گیا خواجہ سراء ہی والدین کی کفالت کی ذمہ داری اٹھاتا ہے۔
خواجہ سراؤں کو گھر سے بے دخل کیوں کیا جاتا ہے؟ اور انکے جنازوں تک کو قبول کیوں نہیں کیا جاتا؟
ہوش سنبھالنے کے بعد خواجہ سراء کو گھر، خاندان، محلے، سکول اور معاشرے سے جو دباؤ ملتا ہے۔ اسکے بعد ذیادہ تر خواجہ سراء باغی ہو جاتے ہیں پڑھائی اور کام چھوڑ دیتے ہیں اور اپنے جیسے دوسرے لوگ ڈھونڈنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہیں سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ گھر والوں پر ایک طرف خاندان اور معاشرے کا دباؤ ہوتا ہے تو دوسری طرف وہ خواجہ سراؤں کے ساتھ روابط بڑھا رہا ہوتا ہے۔ اپنی عزت اور دوسرے بچوں کے مستقبل کو بچانے کیلئے خواجہ سراء پر گھر سے دباؤ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ ایسے بچوں کو بعض اوقات والد، بھائی اور رشتہ دار خود قتل کر دیتے ہیں۔ پچاس فیصد سے زائد خواجہ سراء خود بھی خودکشی کی کوشش کرتے ہیں۔ باغی خواجہ سراء ماحول سے تنگ آکر گھر چھوڑ دیتے ہیں۔
گھر چھوڑنے والے زیادہ تر خواجہ سراء برائی میں پڑ جاتے ہیں جسکی وجہ سے گھر والے ان سے تعلق ختم کر لیتے ہیں اور کسی خوشی غمی کا حصہ نہیں بننے دیتے۔
نشاء اور صباء گل کے علاوہ بھی میرے پاس بہت سے خواجہ سراؤں کی مثالیں ہیں جو برائی میں نہیں پڑے اس لیئے آج بھی خاندان کے ساتھ رہتے ہیں اور بہترین زندگی گزار رہے ہیں۔
خواجہ سراء بچہ سکول جاتا ہے تو اسے پڑھنے نہیں دیا جاتا، بچوں کے ساتھ کھیلنا چاہتا ہے تو اسکا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ جوانی تک پہنچتے پہنچتے بہت سے خواجہ سراؤں کے متعدد بار ریپ ہوچکے ہوتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں ہمارے سامنے ہوتی رہتی ہیں لیکن ہم انکے خلاف آواز نہیں اٹھاتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مجھ سمیت ہم سب خواجہ سراؤں کے مجرم ہیں اور روز قیامت ہمیں ان معاشرتی ناانصافیوں کا حساب دینا ہوگا۔
خواجہ سراء کمیونٹی کیلئے ہمارا یہی پیغام ہے کہ آپ کی مشکلات ہم سب سے کہیں زیادہ  ہیں۔ لیکن راستہ ایک ہی ہے اور وہ ہے اچھائی کا راستہ۔ انسانی معاشروں کو تبدیل ہونے میں وقت لگتا ہے جو نہیں بدلتے وہ تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ جیت ہمیشہ انسان اور انسانیت کی ہوتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply