ہادی عالم ﷺ

نبی مہربان ﷺ ۔۔۔۔رحمت اللعالمینﷺ۔۔۔محسن انسانیتﷺ۔۔۔۔ختم الرسلﷺ۔۔۔۔ ہادی عالم ﷺ
زباں پہ بار الہا یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے میری زباں کے لئے ۔
ہادی عالم ﷺ، کائنات کے سب سے بڑے انسان ۔۔۔جن پر ہمارے ماں باپ قربان۔۔۔ حضرت ابو طالب نے کہا تھا کہ” وہ گورے مکھڑے والا، جس کے روئے زیبا کے واسطے سے ابر رحمت کی دعائیں مانگی جاتی ہیں، وہ یتیموں کا سہارا، وہ بیواؤں اور مسکینوں کا سر پرست،محبت ، سراپا محبت، اعلیٰ اخلاق کا نمونہ، دنیا کی تما م تر خوبیوں کےمالک، کائنات کے سب سے بڑے سیاست دان، عالمین کے لیے رحمت، سب سے بڑے معیشت دان، سب سے بڑے قاضی۔۔۔۔۔۔ میرا محبوب نظرمحمد ﷺ۔۔۔۔ ابو کبیر ہذلی نے لکھا ہے کہ: ” جب میں نے اس کے روئے تاباں پر نظر ڈالی، تو اس کی شان رخشندگی ایسی تھی جیسے کہ کسی ابر میں بجلی کود رہی ہو۔سوچ رہا ہوں اس ہستی کے بارے میں کیا لکھوں کہ جس نے میرے لیے چودہ سو سال پہلے دعائیں مانگیں۔ میں تو ان کے بہائے گئے ایک آنسوں کا بدلہ نہ دے سکوں۔ ہزاروں درود و سلام کے باوجود میں تو احد میں گرائے خون کی بوند کا بدلہ نہ دے سکوں۔ میں تو طائف میں ایڑھیوں پر گرے خون کا صلہ نہ دے سکوں۔اللہ نے اس امت پر خاص کرم کیا کہ اس امت میں آخری نبی بھیجا۔ جس نے عرب کے بدوؤں سے لے کر عجم کے بادشاہوں تک کو تہذیب سکھا دی۔ میں کیا احاطہ کروں گا ان کی سیرت کا۔بس آنکھیں ان کا ذکر کرتے ہوئے نم ہیں سوچتا ہوں کہ سب ظلم و ستم کے باوجود ان کے چہرے پر شکن نہیں آتی تھی۔ کیا کیا تکالیف نہیں دی گئیں۔لیکن جب جب آپ ﷺ کو موقع ملا تب تب اپنے دشمنوں کو معاف کیا۔گناہ چھپانے کو آئے تو صحابہ کو آغوش میں لے لیا۔ سوچتا ہوں اس پیغمبر کے وارث ہم ہیں۔۔۔؟؟؟ کس بات کا ذکر کروں کس بات کا نہ کروں ۔ اس ایک مضمون میں کس بات کا احاطہ کروں۔چلیے چلتے ہیں نبی مہربان ﷺ کی محفل میں ،وہاں کی ایک تصویر کا تذکرہ کرتے ہیں۔کہ وہ نبی کس قدر مہربان تھے۔ کس قدر لوگوں کا پردہ رکھتے تھے۔” ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، اور کہا : میں نے زنا کیا ہے ، آپ ﷺنے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا ، انہوں نے پھر کہا: میں نے زنا کیا ہے ، آپﷺ نے پھر منہ پھیر لیا، انہوں نے پھر کہا: میں نے زنا کیا ہے ،آپﷺ نے پھر منہ پھیر لیا، انہوں نے پھر کہا: میں نے زنا کیا ہے ،آپ ﷺ نے پھر منہ پھیر لیا یہاں تک کہ چار بار زنا کا اقرار کیا۔ روایات میں ہے کہ آپ ﷺ نے صحابہ سے کہا کہ آپ میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو ان کو مجھ سے دور لے جاتا اور وہ اس گناہ کا تذکرہ میرے سامنے نہ کرتے، اللہ سے معافی مانگ لیتے۔” یعنی کہ نبی کریم ﷺ ان کا جرم لوگوں کے سامنے نہیں لانا چاہ رہے تھے۔پردہ رکھنا چاہ رہے تھے۔ سوچتا ہوں اس پیغمبر کے وارث ہم ہیں۔ جو لوگوں کے گناہ چھپایا کرتے تھے۔ آج کون ایسا ہے جو اس سیرت پر عمل کرے۔ آج ہم نبی کریم ﷺ کا تذکرہ تو کرتے ہیں کیا ہم ان کی سیرت کو اپنانے کی کوشش کی؟کیا ہم نے ویسا بننے کی کوشش کی۔ یا بس صرف تذکرہ اور واقعات کو ہی پورا سمجھا۔ بقول عنایت علی خان ۔”مجھے صرف تیرے روایتوں کی حکایتوں نے مزہ دیا۔”چلیے ایک اور تصویر دیکھتے ہیں اسی سیرت کی۔۔۔یہ ثمامہ بن اثال کا کا واقعہ ہے سیرت نگاروں نے لکھا ہے ” چھٹی ہجری میں رسول اللہﷺ نے دعوت اِلی اللہ کا دائرہ وسیع کرنے کا عزم فرمایا تو عرب و عجم کے بادشاہوں کی طرف آٹھ خطوط لکھے اور انھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ جن سربراہوں کو خطوط لکھے ان میں ثمامہ بن اثال بھی شامل تھے۔ ثمامہؓ بن اثال کا شمار زمانہ جاہلیت کے بارعب عرب بادشاہوں میں ہوتا تھا۔ یہ قبیلہ بنو حنیفہ کے قابلِ رشک سربراہ تھے کہ جس کی کبھی بھی حکم عدولی نہ ہوتی تھی۔ زمانہ جاہلیت میں ثمامہ کو جب نبی اکرم ؐ کا خط ملا تو اس نے بڑی حقارت سے دیکھا۔ اس کی سطوت و نخوت نے اُسے گھناؤنا جرم کرنے پر آمادہ کیا۔ اور اس کو یہ جنون طاری ہوا کہ(نعوذ باللہ) رسول ؐ کو شہید کردے اور آپؐ کے مشن کو ناکام کردے۔ ایک مرتبہ وہ آپؐ پر پیچھے سے وار کرنے ہی والا تھا کہ اس کے چچا نے اس کا ہاتھ روک دیا۔ رسولؐ پر تو وہ حملہ نہ کرسکا لیکن ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ بہت سے صحابہ کرامؓ کو گھیر کر ان کو شہید کردیا۔یہ اندوہناک خبر سُن کر نبی ؐ نے فرمادیا کہ ثمامہ جہاں ملے اس کو قتل کردیا جائے۔ اس دلخراش واقعہ کے چند دنوں بعد ثمامہ بیت اللہ کی زیارت کرنے مکہ معظمہ روانہ ہوا تاکہ بتوں کی پوجا کرے اور ان کے نام پر قربانی کرے۔جب ثمامہ مدینہ منورہ کے قریب راستے میں ہی تھا کہ مجاہدین اسلام کے ایک گروپ جو مدینہ کی نگرانی پر مامور تھا اس نے
ثمامہ کو گرفتار کرلیا۔ لیکن انھیں یہ معلوم نہ تھا کہ یہ کون ہے وہ اسے پکڑ کر مدینہ لے آئے۔ ثمامہ بن اثال ایک نڈر جرنیل تھا، تاجور تھا، گورنر تھا، پکڑ کر لایا گیا، مسجد نبوی میں ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ رسول پاک ؐ تشریف لے گئے۔دیکھا، خوبصورت چہرہ، لمبا قد، توانا جسم، بھرا ہوا سینہ، اکڑی ہوئی گردن، اٹھی ہوئی نگاہیں، تمکنت، شان و شکوہ، سطوت، شہرت ہے۔ حکمرانی کے جتنے عیب ہیں سارے پائے جاتے ہیں۔ رسول اکرم آگے بڑھے، کہا ثمامہ! کیسے ہو؟ ثمامہ بولا:گرفتار کرکے پوچھتے ہو کیسا ہوں۔ رسول پاک ؐنے فرمایا:کوئی تکلیف پہنچی ؟ کہتا ہے:تمہاری تکلیف کی کوئی پروا، نہ تمہاری راحت کا کوئی خدشہ، جو جی چاہے کرلو۔ رسول پاک ؐنے فرمایا: بڑا تیز مزاج آدمی ہے۔ اپنے صحابہ کو دیکھا، پوچھا، اس کو دکھ تو نہیں پہنچایا؟ عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ ؐ گرفتار ہی کیا ہے دکھ کوئی نہیں پہنچایا۔ پیکر حسن و جمال نے فرمایا:ثمامہ ذرا میری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھو تو سہی ، ثمامہ کہتا ہے:کیا نظر اٹھا کر دیکھنے کی بات کرتے ہو، میں نہیں دیکھتا، مجھ کو مارا جائے گا تو میرے خون کا بدلہ لیا جائے گا۔ عمر فاروقؓ کی پیشانی سلوٹوں سے بھر گئی، تلوار کے میان پر ہاتھ تڑپنے لگا، اشارہ ابرو ہوتو گردن اڑا دوں، یہ کیا سمجھتا ہے لیکن رحمۃ للعالمینﷺ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہے، فرمایا، جتنا غصہ ہے جی چاہے نکال لو، لیکن ہمارا چہرہ تو دیکھ لو۔ ثمامہ نے جواب دیا: تمہارا چہرہ کیا دیکھوں۔ لوگو! یہ ہے وہ پیغمبر رحمۃ للعالمین ﷺجن کے نقش قدم پر تم کو چلنا تھا۔ جب بے آسرا تھا تب بھی شکن نہیں ڈالی، آج تاجدار تھا لیکن پیشانی پر شکن نہیں ڈالتا ہے۔ فرمایا: کوئی بات نہیں، میری بستی کی طرف تو نگاہ ڈالو۔ اس نے کہا: میں نے روم و یونان ، ایران و مصر کی بستیاں دیکھیں ۔ اس بستی کو کیا دیکھوں؟ رحمۃ للعالمینؐ نے کہا کوئی بات نہیں، دوسرے دن آئے پھر وہی جواب، تیسرے دن آئے فرمایا:ہم تجھ سے کچھ نہیں مانگتے، ذرا دیکھ تو لوکہتا ہے:نہیں دیکھتا، اب سب منتظر تھے، دیکھیں! آج اس نبی رحمت ﷺکی زبان سے کیا حکم صادر ہوتا ہے، اس گستاخ کو کیا سزا ملتی ہے۔ لوگوں نے دیکھا، کائنات نے دیکھا، آسمان طیبہ نے دیکھا، مسجد نبوی نے دیکھا، اس ستون نے دیکھا جس کے ساتھ ثمامہ بندھا ہوا تھا، اب حکم صادر ہوگا اس کی گردن اڑ جائے گی مگر ہمیشہ مسکرانے والے پاک پیغمبرﷺ مسکرائے، فرمایا :جاؤ! ہم نے اسے چھوڑ دیا ہے چلے جاؤ، ہم نے اسے رہا کردیا ہے، ہم تجھے کچھ نہیں کہتے تو بڑا آدمی ہے، بڑے ملک کا حکمراں ہے، تو نہیں دیکھتا ہم تجھے کیا کہیں گے، جاؤاور اپنے صحابہ کرام کو جن کی تلواریں ثمامہ کی گردن کاٹنے کیلئے بیتاب تھیں، ان کو کہا، بڑا آدمی ہے عزت کے ساتھ لے جاکر اس کو مدینہ سے رخصت کردو۔ انہوں نے چھوڑا، پلٹتے ہوئے اسکے دل میں خیال آیا، بڑے حکمراں بھی دیکھے، محکوم بھی دیکھے، جرنیل بھی دیکھے ، صدر بھی دیکھے ،کمانڈر بھی دیکھے، اتنے حوصلے والا تو کبھی نہ دیکھا، اس کے چہرے کو دیکھوں ہے کیسا ؟پھر آپ ﷺ کی طرف ایک نگاہ اٹھا کے دیکھتا ہے، دیکھ کر سرپٹ گھوڑا بھگادیا، ثمامہ کہتے ہیں! قدم آگے کی طرف بھاگ رہے تھے دل پیچھے کی طرف بھاگ رہا تھا، دو میل بھاگتا چلا گیا اور جتنی رفتار سے گیا تھا اس سے دگنی رفتار سے واپس پلٹ آیا، وہ ماہ ِکامل ﷺننگی زمین پہ اپنے صحابہ کے ساتھ بیٹھےہوئےتھے، نبی کریم ﷺنے نگاہ ڈالی سامنے ثمامہ کھڑا ہے، فرمایا ہم نے تو تجھے چھوڑ دیا تھا پھر آگئے؟ کہا کیسی رہائی ہے اپنا بنا کر چھوڑ دیا۔ چھوڑا تب تھا جب آپ کا چہرہ نہیں دیکھا تھا، اب آپ کا چہرہ دیکھ لیا، اب…. زندگی بھر کیلئے آپؐ کا غلام بن گیا ہوں۔
ثمامہ نے پھر رسول اللہ ﷺاور صحابہ کرام ؓ کے سامنے بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھا۔
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں‘‘
بعد ازاں محبت بھرے انداز میں یوں گویا ہوئے میرے پیارے محمدﷺ کی قسم! آج میرے لئے کائنات میں تمام چہروں سے محبوب ترین چہرہ آپؐ ہی کا ہے۔ اللہ کی قسم! آج سے پہلے آپؐ کایہ شہر دنیا کے تمام شہروں سے زیادہ برا معلوم ہوتا تھا اور آج یہ مجھے تمام شہروں سے زیادہ محبوب دکھائی دیتا ہے۔ قارئین سوچیں ذرا ثمامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلے دن قتل کر دیئے جاتے تو یہ اعزاز ملتا؟ سوچتا ہوں اسی پیغمبر کے وارث ہم ہیں؟
رسول پاک ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں مجھے ڈرانے دھمکانے کے لیے وہ کچھ کیا گیا کہ کسی دوسرے کے لیے نہیں کیا گیا۔اللہ کی راہ میں مجھے اتنا دکھ دیا گیا کہ کسی دوسرے کو نہیں دیا گیا۔ اور مجھ پر تیس دن رات مسلسل ایسے گزرے ہیں کہ میرے اور بلال رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے کوئی ایسا کھانا مہیا نہیں تھا جسے جاندار کھاتے ہوں۔ آپ ﷺ اپنے شہر مکہ کےباسیوں کے اس سلوک کی بنیاد پر اتنے دکھی تھے کہ غزوہ بدر کے مقتولین کو مخاطب کر کے فرمایا:”کسی نبی کے لیے اس کے قرابت دارجس درجہ برے ہو سکتے ہیں ، تم اپنے نبی کے حق میں اتنے ہی برے ثابت ہوئے!۔ تم نے مجھے جھٹلایا اور دوسرے لوگوں نے میری صداقت کی گواہی دی۔تم نے مجھے وطن سے نکالا!اور دوسرے لوگوں نے مجھے پاس جگہ دی۔تم میرے خلاف لڑنے اٹھے اور دوسرے لوگوں نے میرے ساتھ تعاون کیا۔” اس کے باوجود جب نبی مہربان ﷺ نے مکہ فتح کیا تو اہل مکہ سے پوچھا کہ ” تمہیں معلوم ہے کہ میں تم سے کیا سلوک کرنے والا ہوں؟”گھبرائے تو ہوں گے وہ لوگ جنہوں نے سالوں آپ ﷺ کو ستائے رکھا۔ مکہ میں چین لینے دیا نہ مدینہ میں۔ لیکن اس موقع پر بھی آپ ﷺ نے فرمایا کہ: ” تم پر آج کوئی گرفت نہیں جاؤ تم آزاد ہو”۔۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔۔سوچتا ہوں اس پیغمبر کے وارث ہم ہیں؟
یہ تو کھلے دشمن تھے جو تلواریں لے کر سامنے آئے تھے۔ ایک رئیس المنافقین بھی تھا۔ جس کو عبداللہ بن ابئ کہا جاتا تھا۔ جس نے منافقت کی تمام حدیں پار کی تھیں۔ لیکن جب وہ مرا تو اس کو خود آپ ﷺ نے نہ صرف لحد میں اتارا بلکہ اپنی چادر بھی اس کے اوپر ڈالی۔۔۔ قسم اللہ کی وہ رحمت ہی رحمت لے کے آئے ہیں۔
ذی وقار شہری، صادق و امین تاجر، افصح العرب خطیب، اولوالعزم مبلغ، اعلی ترین معلم ، کامیاب ترین داعی، بے مثال مربی و مزکی، سپہ سالار اعظم، عظیم مدبر و منتظم، لاثانی مقنن، عدیم النظر منصف و قاضی، حقوق انسانی کا محافظ۔۔۔۔۔ یہ تھے میرے محبوب ﷺ کہ جن کا طلوع ربیع الاول میں ہوا تو یہ آقا ﷺ ربیع الاول میں ہی اپنے رفیق اعلیٰ کے پاس حاضر ہو گئے کروڑوں درود و سلام ان پر ۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

پروفیسر محمد عمران ملک
پروفیسر محمد عمران ملک وزیٹنگ فیکلٹی ممبر پنجاب یونیورسٹی لاہور پی ایچ ڈی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply