بابری مسجد فیصلہ : جو میں محسوس کرتا ہوں …مشرف عالم ذوقی

٩ نومبر . سپریم عدلیہ نے فیصلہ سنا دیا . مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کے لئے ایودھیا میں پانچ ایکڑ زمین دینے کا فیصلہ کیا اور رام جنم بھومی کو ہندوؤں کے حوالے کر دیا . فیصلہ آنے سے قبل پانچ برسوں میں پہلی بار حکومت ، کابینہ ، آر ایس ایس ، وشو ہندو پریشد ، سب کے جو بیانات آے ، ان میں جمہوریت اور سالمیت کا ذکر کیا گیا . ایسا پہلی بار ہوا . شنوایی کے چالیس دنوں میں ، خاص کر راجیو دھون نے مثالوں اور ثبوتوں کی جھڑی لگا کر سپریم عدلیہ کے بھی ہوش اڑا دیے تھے اور عدلیہ نے بھی راجیودھون کی تعریف کی تھی . فیصلہ آنے کے بعد فیصلہ تو یاد رہے گا . عدالت کی ، چالیس دنوں کی کاروایی فراموش کر دی جائے گی . ہمارے خوش ہونے کے لئے وہ چالیس دن کافی ہیں . جیسے جیسے عدالت کا فیصلہ قریب آ رہا تھا ، ملک میں سیکولرزم اور جمہوریت کا ذکر زور پکڑنے لگا تھا . مسلمانوں کو یہ احساس اسی وقت ہو جانا چاہیے تھا ، کہ فیصلہ مختلف ہوگا اور اس بار ہائی کورٹ کی طرح آدھا ادھورا فیصلہ نہیں ہوگا . گگویی ریٹائرمنٹ سے قبل خود کو تاریخی شخصیت بنانے کی کوشش کریں گے . لیکن عدلیہ کے الفاظ میں بار بار امن و شانتی ، مذاہب کا احترام اور جمہوریت کا حوالہ دیا جائے گا . مسلم تنظیموں کی بات چھوڑ دیجئے تو ہندوستان کے عام مسلمانوں کو زیادہ پرواہ اس بات کی نہیں تھی کہ فیصلہ کس کے حق میں آتا ہے . کیونکہ برسوں سے چلنے والے مقدمے میں دو ہزار چودہ کی سیاسی تبدیلی کے بعد مسلمان جان چکا تھا کہ جب بھی فیصلہ اہے گا ، اس کی حقیقت کیا ہوگی ؟ مسجد یا مندر ، آستھا یا عقیدت سے انکار کیا ہی نہیں جا سکتا . یہ آستھا تھی کہ سو کروڑ ہندو رام جنم بھومی کا جشن منانا چاہتے تھے . یہ آستھا تھی کہ مسلمان بابری مسجد کے مالکانہ حق یا وقف بورڈ کی ملکیت کو کھونا نہیں چاہتے تھے . اور اسی لئے مسلم تنظیموں کی طرف سے بار بار یہ بیانات اہے کہ جہاں مسجد ہو ، نماز پڑھی جا چکی ہو وہاں کوئی بت خانہ تعمیر نہیں ہو سکتا . اس بات سے مجھے بھی انکار نہیں . مگر یہ بات بار بار اس ملک میں کہی جا رہی تھی جہاں اکثریت سو کروڑ سے بھی زیادہ ہے اور اکثریت نے اس مسلہ کو فتح و شکست کا مسلہ بنا دیا ہے ، وہاں کویی بھی
ایسا فیصلہ آنا مشکل ہے جس سے اکثریت کا غرور خاک میں مل جائے . یہ وہ مسلہ تھا جس نے بی جے پی کی بنیاد رکھی . یہ وہ مسلہ تھا ، جس نے بیروزگاری تک عوام لے تمام مسائل کو کنارے کر دیا تھا . یہ وہ مسلہ تھا جس کے حساب سے حکومتیں بننے لگی تھیں . ایک فیصلہ آنا ضروری تھا . مگر یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ اس فیصلے کے بعد تین ہزار مسجدوں کو لے کر دوبارہ نیا مسلہ سامنے نہ آ جائے . ١٩٩٢ میں تین ہزار مسجدوں کے لئے بھی آواز اٹھ چکی ہے .
عدلیہ نے تسلیم کیا کہ انیس سو انچاس میں مورتی رکھنا اور بابری مسجد کی شہادت غیر قانونی ہے . عدلیہ نے آستھا کی جگہ زمین کی ملکیت کو اہمیت دی مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ سارا معاملہ آستھا کا ثابت ہوا . اب غور کرنے والی بات یہ ہے کہ اگر فیصلہ مسلمانوں کے حق میں آتا تو کیا صورت ہوتی ؟ کیا ایسی فضا بنانا مشکل کام تھا ، جہاں آخر میں مسلمانوں کو خود کہنا پڑتا کہ آپ مندر بنا لیجئے . کیونکہ ہائی کورٹ کے فیصلے سے قبل بھی ہم وشو ہندو پریشد اور ہندو مہا سبھا کے بیانات کو بھولے نہیں ہیں . اور یہ کہنا آسان ہے کہ پورے ملک کو سلگنے میں دیر نہیں لگتی . اس بار آر ایس ایس سپریمو بھی مصلحت اور امن قائم رکھنے کی بات کرتے نظر اہے . امن کی فضا کو قائم رکھنے کے لئے کیی بار ہندو مسلم تنظیمیں ایک ساتھ نظر آین . اور ملک کے ماحول کو خوشگوار بناہے رکھنے کے لئے بہت دنوں بعد کچھ لوگوں کے منہ سے جمہوریت کی آواز بھی سننے کو ملی . دو ہزار چودہ سے انیس تک اس سے زیادہ کچھ ممکن ہی نہیں تھا . اسلئے ریویو پٹیشن ڈالنا میرے نزدیک مناسب عمل نہیں . اس سے کویی فائدہ نہیں ہوگا . سپریم کورٹ کا آخری فیصلہ آ چکا ہے . ہم عدلیہ کے فیصلے کا استقبال کرتے ہیں . اس بار کانگریس کی حکومت کی طرح کویی فریب نہیں دیا گیا ..جمہوریت ، سیکولرزم ، امن کے بار بار استعمال نے واضح کر دیا تھا کہ فیصلہ کیا اے گا . مسلمان کشادہ دلی کا ثبوت دیں ، جو بہتر برسوں میں ہمیشہ سے دیتے اے ہیں . وہ تاریخ فراموش کر دی جاےگی کہ شنوایی چالیس دنوں تک چلتی رہی . ان چالیس دنوں کو ہم تاریخ کا حصّہ بنا لیں ، کہ سپریم عدلیہ کے چالیس دنوں میں ہر لحاظ سے مسلمانوں کا پلڑا بھاری رہا . ہماری اصل جیت یہی ہے کہ ہم ہمیشہ سے حب الوطن رہے ہیں . اور ہر آزمائش میں کھرے اترے ہیں .

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply