لو جی , ہمیں بھی ٹیکہ لگ ہی گیا ۔۔سیّد عارف مصطفیٰ

یقیناً بات ٹیکے سے ڈرنے کی نہ تھی بس کچھ معاملہ پسِ ٹیکہ وافر خدشات کا بھی تھا ۔۔۔
ورنہ بچپن میں تو لگتا یہ تھا کہ سبھی بڑے ٹیکے مجھ ہی پہ آزمانے کے لئے بنائے گئے ہیں، جن کے ادھ کٹی چھالیہ ٹائپ ہلکے ہلکے سے نشانات اب بھی جسم میں جہاں تہاں بکھرے دیکھے جاسکتے ہیں‌۔
اور پھراس ٹیکے کی بابت اتنی تاخیر ہونے میں سارا قصور میرا بھی نہ تھا ، بس اپنے دفتر والوں ہی نے ویکسین لگوانے کا نوٹس دینے میں بڑی تاخیر کردی ۔

ویسے بھی مجھے کورونا ویکسین لگوانے کے لئے بس اسی طرح آمادہ کیا جاسکتا تھا۔ اسی لئے صرف انتظار تھا تو دفتر کی جانب سے وارننگ ملنے کا ،اور جب یہ حجت تمام ہوئی تو تمام ‘پاکستانی دفتریوں’ کی مانند میں بھی اندھا دھند سوئے منزل دوڑ پڑا ۔۔۔ گو کہ اس سے متعلق وسوسوں‌کی گنتی درجن بھر سے زائد تھی مگر تاریخی طور پہ کسب معاش کو لاحق خطرہ ہر ایسے خدشے کو ناک آؤٹ کرنے میں ہمیشہ کامیاب ہی رہتا ہے اور ایسی وارننگ کو تعمیل کے لئے دوڑتے لپکتے قدموں کی داد جھٹ پٹ مل کے رہتی ہے۔۔۔ ویسے بھی کسی کرونا ویکسین سینٹر میں یہ خاص دل شکن طبی فقرہ سننے کا ذرا احتمال نہ تھا کہ ” آپنے آنے میں‌بڑی دیر کردی”

کرونا کے ویکسین سینٹر کے لئے آرٹس کونسل میں بنا مرکز ہمارا مرکز نگاہ تھا ,سو دو رفیق ‘دفتریوں’ علی عمران جونیئر اور محمد علی گجر کی معیت میں سرپٹ وہاں جاپہنچا جہاں ایک دلفریب میلہ سا لگا پایا ، وقوعے پہ جمالیاتی لیول اس قدر بلند تھا کہ پیچے چھوڑ آئے ہرکام کو ہمیشہ کے لئے چھوڑا جاسکتا تھا ۔ اس رنگین منظر نامے کو دیکھ کے ایسا لگتا تھا کہ جیسے کئی لوگ تو یہاں آئے ہی اسی لذت دید کی کشید کے لیے ہیں اور آکر واپس جانا وانا بھول بھال گئے ہیں۔ وہاں لابی میں بیشمار جوڑے کہیں بیٹھے اور کہیں ٹہل رہے تھے اور ان نظاروں سے بہتیرے سنگل وہاں کھڑے بیٹھے بہل رہے تھے ۔ کچھ کرونا کے دہشتائے سے ہونق اور نظر بٹو بھی موجود تھےجیسا کہ ہرجگہ رکھےاور خلاؤں میں گھورتے سے پڑے مل جاتے ہیں ،ان کا دم غنیمت تھا کیونکہ ان کو دیکھ کر ہڑبڑا کر حواس بحال کرنا اور یہ یاد آنا ممکن ہوجاتا تھا کہ ہم یہاں کس لیے آئے ہوئے ہیں۔

وہاں آرٹس کونسل کی لابی میں حسن انتظام قابل ستائش پایا ۔ جابجا لگی کئی میزوں پہ کچھ مستعد اور کچھ اونگھتے لوگ استقبالیہ سجائے بیٹھے تھے ۔ وہاں بیٹھے جن صاحب کو ضروری اندراجات کے لئے میں نے اپنا شناختی کارڈ دیا وہ انہوں نے مسلسل دوسری بار 6 انچ لمبی جمائی لے کر وصول کیا اور شناختی کارڈ میں جھانک کے ایک پرچی بنادی پھر ایک دوسرے اونگھتے سے فرد کے سپرد کیا گیا کہ جس نے نیم غنودگی کے  عالم میں ایک فارم پہ کچھ ایسی نشاناتی تحریر میں اندراجات کئے کہ مجھے یقین ہے کہ اسکے ہاتھ کے بھرے فارموں کو پڑھنے کے لئے بھی اسے خود ہی جانا پڑتا ہوگا ۔ اندراجاتی کام کے دو مراحل سے گزار کے ہمیں ایک ٹوکن پکڑا دیا گیا اور فرسٹ فلور پہ جانے کی ہدایت کی گئی۔ اوپر جاکے دیکھا تو ایک کشادہ ایئرکنڈیشنڈ ہال میں پھر کئی میزیں لگی  تھیں ، جن پہ مامور عملہ ٹھنڈے ماحول کی بدولت خندہ پیشانی سے کام کررہا تھا۔ یہ مرحلہ کچھ تفتیشی سی نوعیت کا تھا کہ جہاں ہر آنے والے سے اسکی صحت سے متعلق چند بنیادی سوالات کئے جارہے تھے اور ان میں سے کوئی سوال بھی جھینپادینے والا نہیں تھا سو اطمینان سے بلڈ پریشر چیک کرواکے اندراجات کرلئے گئے اور پھر ہمیں ایک کارڈ تھمادیا گیا کہ جس پہ ان سب تفتیشی تحریروں‌ کا نچوڑ حاضر کیا گیا تھا ۔وہاں ہال میں عمومی طور پہ شانتی کا راج تھا ۔۔۔ تاہم چند ایسے بھی تھے جن کے چہروں پہ تشویش امڈی پڑ رہی تھی اور جن کی نظریں مستقلاً بیرونی دروزے ہی پہ گڑی تھیں اور اندازہ ہوتا تھا کہ جیسے موقع ملتے ہی وہ بھاگ نکلیں گےشاید انہیں ان کے گھر والے ان سے زیادہ کنبے کے دیگر افراد کے تحفظ کے ارفع مفاد میں پکڑ کے لے آئے تھے ۔ ہال میں بچھی بہت سی کرسیوں پہ کئی لوگ براجمان تھے جن میں کچھ غافل اور چند ہشیار تھے یعنی کچھ لوگ تو اپنی باری کے منتظر تھے اور کچھ کو دفتری ذمہ داریوں سے جان چھڑا کرخنک ماحول میں یہاں شاید آرام کرنے اور سستانے کا نادر موقع ہاتھ لگا تھا ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس ہال کے اندر ہی کئی پولنگ بوتھ جیسے خلوت خانے بنے ہوئے تھے جہاں کم ازکم ایک خاتون کی دستیابی ماحول کی سنگینی کو قدرے  کم کررہی تھی لیکن ساتھ کچھ مرد رضاکار بھی معاونت کے لئے موجود تھے ۔ ایک صاحب جب ایسے ہی ایک بوتھ سے باہر آئے تو انکے کولہے حد سے زیادہ نمایاں اور بڑھے ہوئے سے لگے جنہیں دیکھ کے بدگمانی سی ہوئی کہ شاید یہاں‌ ویکسین بازو پہ نہیں لگائی جارہی ہے مگر پھر ان صاحب کی چلت پھرت میں یہی انداز دیکھ کے احساس ہوگیا کہ وہ نارمل طور پہ ابنارمل سے ہیں، یعنی انکا باڈی فریم کچھ عجب سی افراط و تفریط کا شکار ہے۔ ہماری باری جلد ہی آگئی اور اندر بوتھ میں حاضرایک مستعد و خشک خاتون نے میکانیکی انداز میں میرا ہاتھ پکڑکے بایاں بازو سامنے لاکے جھٹ ایک چھوٹی سی سرنج سے گھونپ کے گویا مہر سی لگادی کہ  یوں اب ہم مستند ویکسین یافتہ بدرجہ دوم ہوگئے ہیں اور درجہ اؤل والوں میں پہنچنے کی نوبت ایک ماہ بعد آئے گی کہ جب اس ویکسین کی دوسری ڈوز گھونپی جانی ہے۔ وہاں ہمیں پندرہ منٹ آرام کرنے کی آپشن بھی دی گئی تھی لیکن ہم تو دھڑکتے دل سے اپنی حسیات کی پڑتال کر رہے تھےاور یہ جانچنے میں لگے ہوئے کہ تھے کہ چائنیز ویکسین لگوانے کے ما بعد کی دنیا ہمیں کیسی لگ رہی ہے ۔ اتنے میں ہمارا دوست شاہد محمود ہمیں مل گیا جس نے فٹافٹ گلرنگ چائے خانے میں لے جاکے تگڑی چائے پلادی اور وہاں ہمیں چائے کے ذائقے سے لے کر رنگین پیراہنوں کے مشاہدے تک سب کچھ نارمل ، جی ہاں بالکل ہی نارمل محسوس ہوتا رہا اور یہی نہیں ، بلکہ بعد میں بھی ہمیں آس پاس سے گزرتے کسی چوہے یا چھپکلی میں کوئی رغبت مطلق محسوس نہ ہوئی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply