ہر ماں شوکت خانم ہوتی ہے ۔۔۔انعام رانا

سن تھا  92 کا اور ورلڈکپ ہم جیت چکے تھے۔ عمران کا سحر اپنے عروج پہ تھا جب عمران کی تصویر والی ٹکٹیں دیکھیں۔ آرمی پبلک سکول سیالکوٹ میں ٹیچرز نے ہمیں ٹکٹ بکس دیں کہ جاؤ  اور بیچو۔ ۔سکول میں یا آرمی آفیسرز کے بچے تھے، بیوروکریٹس کے یا پھر سیالکوٹ کے امرا ء کے۔مجھے یاد ہے کہ ہم سب نے کئی کئی بکس زبردستی اپنے انکل، آنٹیوں کو بیچیں اور جو بچ گئیں ا ن کے پیسے باپوں سے زبردستی نکلوا کر سکول میں جمع کروائے۔ وجہ فقط عمران کا سحر یا اپنے ہم جماعتوں سے مقابلہ ہی نہ  تھا اور لالچ فقط زیادہ ٹکٹ بیچنے پہ ملنے والی کیپ یا ٹی شرٹ ہی نہ  تھے۔ دراصل ٹیچرز کا وہ لیکچر جس میں عمران کی والدہ کا کینسر کے مرض سے مرنا اور اب عمران کا اپنی ماں کے لیے ہسپتال بنانا ہم سب بچوں کے لیے تحریک بنا۔ ہم سب ہی کے سامنے اپنی  اپنی ماؤں کی تصویر تھی، ہم سب ہی اپنی ماؤں کی محبت کے اسیر ہو کر کسی شوکت خانم نامی خاتون کے نام پہ بنے اک اسپتال کے لیے  تگ و دو کر رہے تھے کیونکہ اس کا بیٹا اس ماں کی محبت میں ایک  ہسپتال بنا رہا تھا، تاکہ پھر کوئی ماں بنِا علاج ،کینسر کے ہاتھوں زندگی نہ ہار دے۔

زندگی نے کئی کروٹیں بدلیں، 12سال کا بچہ اب 39 سال کا جوان ہے مگر آج بھی اپنی زندگی کے مختصر اچھے کام شمار کرے تو شوکت خانم ہسپتال  کے لیے  بیچی ٹکٹوں کو سرِفہرست رکھتا ہے۔ مانیے یا نہ  مانیے، عمران کی سیاسی جدوجہد میں بھی شوکت خانم اور اس کے پیچھے موجود “ایک بیٹے کی ماں سے محبت” ہمیشہ ایک اہم فیکٹر رہی۔ ووٹر اور سپورٹر کو یقین تھا کہ ماں سے محبت کرنے والا اور یہ دعویٰ رکھنے والا کہ وہ دیگر ماؤں کو اس اذیت کا شکار نہ  ہونے دے گا، ایک ہمدرد حکمران ہو گا۔ اتنے سال وہ حکومت میں نہ  تھا تو عوام نے کبھی شوکت خانم کو نقصان نہ  ہونے دیا، ہمیشہ چندوں سے اس کا خزانہ قائم رکھا تاکہ کوئی اور ماں شوکت خانم کی سی اذیت کا شکار نہ ہو۔ سیاسی مخالفین شوکت خانم کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے باوجود اسے نقصان پہنچانے کی جرات نہ کر سکے کہ ماؤں کو نقصان پہنچا تو ہر سیاسی جماعت کا بیٹا احتجاج پہ اتر آئے گا۔ حمایت کرنے والوں کو یقین تھا کہ جب حکمران بنا، چندوں کا محتاج نہ  رہا تو پھر یہ بیٹا نئے قدم اٹھائے گا، مزید ہسپتال بنائے گا تاکہ سرکاری سطح پہ مریضوں کا علاج شوکت خانم سے بھی بہتر ہو سکے۔

رضوان یوسف نے تڑپتے ہوئے ایک افریقی ملک سے جب مجھے فون کیا تو مجھے یقین ہی نہ  آیا۔ اپنے طور پہ معلومات لیں، حالیہ دنوں میں لاہور میں پتہ کیا تو دل دکھ سے بھر گیا۔ شہباز شریف کے دور میں پنجاب حکومت نے ایک سوئس کمپنی نوارٹس سے معاہدہ کیا۔ معاہدے کے مطابق کینسر کے مریضوں کو مفت ادویات ملیں جن کی قیمت کا  91 فیصد کمپنی اور 9 فیصد پنجاب حکومت نے برداشت کرنا تھا۔ ہزار ہا کینسر کے مریضوں نے اس سہولت سے فائدہ اٹھایا کہ کینسر جیسا موذی مرض تو کسی امیر گھر کا رستہ بھی دیکھ لے تو اسے فقیر کر دے۔ یہاں تو کئی ایسے غریب گھرانے تھے کہ جن کی سالانہ آمدنی ماہانہ دوا کے بل سے کم تھی۔ پنجاب حکومت نے یہ معاہدہ ہو سکتا ہے شوکت خانم کا طلسم توڑنے کے لیے کیا ہو، سیاسی فائدہ لینے کےلیے کیا ہو، مگر اسکا فائدہ غریب مریضوں کو ہی پہنچا، “اکرام نیازیوں” اور “شوکت خانموں” کو ہی پہنچا۔

صاف چلی شفاف چلی حکومت جب تبدیلی کے گھوڑے پہ بیٹھی مسند افروز ہوئی تو اسے سابقہ حکومت کے ہر کام میں کرپشن ہی نظر آئی۔ ہم جسے وزیراعظم بنانے چلے تھے وہ نیب انسپکٹر بن گیا اور کرپشن بو کرپشن بو کرتا ہوا ہر منصوبے کو سونگھنے لگا۔ اسی سنک کا شکار یہ “سی ایم ایل” پراجیکٹ بھی ہو گیا۔ چنانچہ طے پایا کہ ایک آزاد آڈیٹر تحقیقات کرے گا کہ اس منصوبے میں کتنی کرپشن ہوئی اور کمپنی کو پیمنٹ روک دی گئی۔ سو اب کینسر کے مریض پلے سے دوا خریدنے یا ایڑیاں رگڑ رگڑ لر مر جانے پہ مجبور ہیں۔ رہا محکمہ صحت تو وہ اس یاسمین راشد کے حوالے ہے جسے بچے پیدا کرانے پر ہم لاہوریوں نے عزت کے مینار پہ بٹھا رکھا تھا اور اب وزیر بن کر وہ بچے کھانے پہ اتر آئی ہے۔

ایک ملک جہاں ایمان دارانہ عمران حکومت میں بیگم عمران کے خاندان کے ذریعے آپ پنجاب میں کوئی بھی پوسٹ لے سکتے ہیں، جہاں حکومتی پالیسیز جہانگیر ترین کو فائدہ دینا مدنظر رکھ کر بنائی جاتی ہیں، جہاں جرنیلوں اور بیوروکریٹس کی مراعات قائم ہیں، جہاں وعدے کے برعکس شہر نما گورنر ہاؤسز شہر پہ صلیب بن کر گڑے ہیں، جہاں بیک جنبش قلم کاروباریوں کو اربوں روپیہ معاف ہو سکتا ہے، وہاں ایک آزاد آڈیٹر یہ تلاش کرے گا کہ “نو فیصد رقم “ میں کتنی کرپشن ہوئی جو کینسر کے مریض مفت دوا پاتے رہے۔ آخر نو فیصد میں کرپشن ہو ہی کس قدر سکتی تھی اور ہوئی بھی تو شاید یہ واحد کرپشن تھی جس کا فائدہ عوام نے اٹھایا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جناب وزیراعظم، خدارا خوف کھائیے، فوراً معاہدہ بحال کر کے کینسر کے مریضوں کے دکھ کا ازالہ کیجیے۔ جس قوم نے آپ کی ماں شوکت خانم کےلیے اپنی جیبیں خالی کر دیں، اس سے ان کی مائیں مت چھینیں ۔ آپ کی ماں کے درد نے آپ کو بے چین رکھا تو کتنوں کی ماؤں کے درد کی وجہ آپ بن جائیں گے، اور ماؤں کا درد کبھی ضائع نہیں جاتا کیونکہ ہر ماں ہی شوکت خانم ہوتی ہے۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ہر ماں شوکت خانم ہوتی ہے ۔۔۔انعام رانا

  1. کینہ و بغض کا شکار بندہ جب عہدے پر بیٹھے گا تو کمینگی کی انتہا پر جائے گا مخالفت میں۔ بڑے بڑے دیکھے جو باتوں سے قلعے تعمیر کرتے رہے لیکن عمران نیازی کا کوئی ہمسر نہیں پایا گیا۔

Leave a Reply