• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہمارے مستقبل کے سائینسدانوں کا پاکستان میں کیا مستقبل ہے؟۔۔۔۔راحیلہ کوثر

ہمارے مستقبل کے سائینسدانوں کا پاکستان میں کیا مستقبل ہے؟۔۔۔۔راحیلہ کوثر

خلاء کی تسخیر کے سلسلے کا آغاز  پچھلی صدی سے ہی ہو چکا ہے اور انہی سیٹلائٹس کی بدولت آج آئی ٹی کی دنیا میں انقلاب ممکن ہوا اور انٹرنیت،جی پی ایس اور موبائل فون جیسی سہولیات نے دنیا کوگلوبل ویلیج بنا دیا ہے۔

اب تک دنیا کے تین ممالک روس، امریکہ اور چائنہ چاند پر کمند بھی ڈال چکے ہیں۔ اسی ضمن میں بھارت نے بھی ایک خلائی مشن چندریان اول 2008 میں خلاء میں بھیجا جس نے زمین کے مدار کے گرد گھومتے ہوئے چاند کے پول سائیڈ (نچلے حصہ) پر پانی اور برف کی موجودگی کا پتہ لگایا،جہاں آج تک کوئی نہیں جا سکا۔

اس تحقیق کوآگے لے جانے کے لیے بھارت نے چندریان دوئم22جولائی 2019کو خلاء میں بھیجا جس نے 48 دن کا سفر کر کے چاند کی سطح پر پہنچنا تھا مگر ابھی وہ چاند سے 2.1کلومیٹر ہی دور تھا کہrover (ایک چھوٹی سی مشین جوچاند پر لینڈ کر کے اس کی سطح پر تحقیق کرتی ہے)سے ISPRO(بھارت کا خلائی تحقیقی ادارہ)کا رابطہ ٹوٹ گیا اور یوں بھارت کا مشن چندریان2ناکام ہو گیا۔

اس مشن کے روانہ ہوتے ہی بھارت نے پاکستان کو طنز و مزاح کا نشانہ بنانا شروع کر دیااور ناکام ہونے کے بعد پاکستان کے عوام نے بھی کوئی خاص کسر نہیں چھوڑی ،دوسری جانب بہت سے لوگوں نے اسکی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کم از کم بھارت نے کوشش تو کی ،بات تب بین الاقوامی خبر بنی جب ہمارے سائنس و ٹیکنالو جی کے وزیر نے بھارت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔میرا ان سے سوال ہے کہ کیا ہمارے پاس اپنا راکٹ لاؤنچ پیڈ بھی ہے ؟ ہم نے9 جولائی 2018کو اپنا سیٹلائٹ PRSS بھاری رقم ادا کر کے چائنہ کے راکٹ لاؤنچ پیڈسے بھیجا تھا۔دوسری جانب ہم چاند کو باقائدہ دیکھ کر روزہ رکھیں یا قمری کیلنڈر پر اکتفا کریں، اب تک ہمارا اس پر ہی اتفاق نہیں ہو پا رہا جبکہ بھارت چاند پر پہنچنے کے قریب ہے

میرا سوال یہ ہے کہ اگر بھارت نے خلاء کو سر کر لینے کے بعد وہاں اپنا ملٹری سیٹلائٹ خلاء میں  بھیج کر ہماری جاسوسی شروع کر دی تو جواب میں ہمارے پاس کیا ہے؟ہماری گورنمنٹ اس ضمن میں کیا کر رہی ہے؟ہمارے تعلیمی ادارے بچوں کو کس حد تک بامقصد تعلیم دے رہے ہیں؟

اس ملک خدا داد میں ہمارے پاس کتنے طلبہ ہیں جوخلانورد یا سائنسدان بن رہے ہیں؟ اس ضمن میں ہمارے تحقیقاتی اداروں کے پاس کس قدر سہولیات موجود ہیں؟میڈیا کس قدر سائنسدانوں کے بارےاور سائنسی تحقیقی پروگرام نشر کر رہاہے؟ہمارے مستقبل کے سائنسدانوں کا پاکستان میں مستقبل کیا ہے؟

اس وقت ہمارے ملک میں جو تعلیمی نظام رائج ہے اس میں محض طلبہ کو جھینگر کی طرح کتب چٹائی جاتی ہیں اور جو جتنا اچھا چاٹ کرامتحانی صفحہ پر چھاپ دے اس قدر کامیاب سمجھا جاتا  ہے، بلکہ ہم تو کچھ بھی سمجھنے کے لیے نہیں کرتے، ہر کام بس خانہ پری کے لیے کرتے ہیں۔اس بوسیدہ تعلیمی نظام میں بہتری لانا تو دور ہمارے غریب طلبہ جو سکول کے بعد چھوٹے  موٹے کام کر کے اپنے گھر کی کفالت بھی کر رہے ہیں، ان سے مفت کتب بھی چھین لی  گئیں۔نجی سکول جو والدین سے بھاری رقم وصول کر رہے ہیں، والدین کو اسی بات سے راحت بخش رہے ہیں کہ ان کا بچہ فرفرانگریزی بول رہا ہے۔ برینڈڈ سکول جہاں صرف امیر ترین بلکہ ہماے تمام وزرا ءکے بچے بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کا مشن طلبہ کو بین الاقوامی تعلیمی اداروں تک پہنچانا ہے۔اور ہمارے میڈیا کو تو شادی بیا ہ اور ناچ گانے کی مارننگ ٹرانسمشن اور گیم شوز سے ہی فرصت نہیں۔وہ نئی نسل کو محض یہی تاثردے رہے ہیں کہ ہیرو وہ انسان ہے جو خوبصورت ہے اور بہترین ادائیں دکھا کے متاثر کر سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میری حکومت وقت سے صرف اتنی سی التجا ہے کہ اب تو ہوش کے ناخن لیں، میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ یہ 22کروڑ کے لگ بھگ عوام انسان ہی ہے لہذا  ان کو مساوی حقوق دئیے جائیں یکساں تعلیمی نظام دیا جائے ،تاکہ ہم اپنی قابل افرادی قوت پیدا کرسکیں۔تا عمر دوسرے ممالک سے مدد لے لے کر راکٹ خلامیں بھیجنا کوئی حل نہیں ہے ،ہمیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں خود کفیل ہوناہے، اپنے تحقیقی اداروں کو فروغ دینا ہے۔ اگر اب بھی اس ضمن میں کچھ نہ کیا گیا تو یقین مانیں ہمارے مستقبل کے سائنس دان اپنی تمام تر صلاحیتیں موبائل ایپس پر ضائع کر تے کرتے ایک خراب گھڑی میں اٹک جائیں گے ،جو تاریکی میں صرف ٹک ٹاک ٹک ٹاک کرتی سنائی دے گی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply