نہ جی نہ, عورت محفوظ ہے ہی نہیں لیکن اگر۔ ۔ ۔ بلال شوکت آزاد

نہ چھوٹی عورت محفوظ,
نہ بوڑھی عورت محفوظ,
نہ جوان عورت محفوظ,
نہ ادھیڑ عمر عورت محفوظ,
نہ شریف عورت محفوظ,
نہ خراب عورت محفوظ,
نہ مسلمان عورت محفوظ,
نہ کافر عورت محفوظ,
نہ اپنی عورت محفوظ,
نہ پرائی عورت محفوظ,
نہ دوست عورت محفوظ,
نہ دشمن عورت محفوظ,
نہ بانجھ عورت محفوظ,
نہ حاملہ عورت محفوظ,
نہ گوری عورت محفوظ,
نہ کالی عورت محفوظ,
نہ ملکی عورت محفوظ,
نہ غیر ملکی عورت محفوظ,
نہ جاہل عورت محفوظ,
نہ عالمہ عورت محفوظ,
نہ پڑھی لکھی عورت محفوظ,
نہ ان پڑھ عورت محفوظ,
نہ باپردہ عورت محفوظ,
نہ بے پردہ عورت محفوظ,
نہ آزاد عورت محفوظ,
نہ قید عورت محفوظ,
نہ صحت مند عورت محفوظ,
نہ بیمار عورت محفوظ,
نہ سمجھدار عورت محفوظ,
نہ بیوقوف عورت محفوظ,
نہ شادی شدہ عورت محفوظ,
نہ غیر شادی شدہ عورت محفوظ,
نہ نوکری پیشہ عورت محفوظ,
نہ گھریلو عورت محفوظ,
نہ معالج عورت مخفوظ,
نہ مریض عورت محفوظ,
نہ استاد عورت محفوظ,
نہ طالبہ عورت محفوظ,
نہ ماں عورت محفوظ,
نہ بہن عورت محفوظ,
نہ بیوی عورت محفوظ,
نہ بیٹی عورت محفوظ,
نہ پوری عورت محفوظ,
نہ ادھوری عورت محفوظ,
نہ اکیلی عورت محفوظ,
نہ مجلسی عورت محفوظ,
اور تو اور
نہ زندہ عورت محفوظ,
اور نہ ہی مردہ عورت محفوظ۔ ۔ ۔

یہ دور,
یہ معاشرہ,
یہ ملک,
یہ خطہ,
یہ براعظم,
الغرض یہ دنیا اس وقت عورت کے لیے روئے کائنات کی غیر محفوظ ترین اور خطرناک جگہ ہے جہاں عورت لٹنی ہی لٹنی ہے خواہ وہ کسی بھی روپ میں اور کہیں بھی ہو۔

عورت کے لٹنے میں اس کا بنیادی قصور یہ نہیں کہ وہ بے پردہ تھی, لبرل تھی, روشن خیال تھی, مذہب و دنیا سے باغی تھی الغرض الف ننگی تھی۔

بلکہ عورت کے لٹنے کی بنیادی وجہ اس وقت صرف اور صرف اس کا عورت ہونا ہے۔

کیونکہ لٹنے والی عورتوں کی فہرست بہت طویل ہے پر ان میں اکثریت کم عمر عورتوں (بچیوں) اور غریب عورتوں کی ہے جن پر ہم اپنے طے شدہ اصولوں پر گھڑے الزامات عائد نہیں کرسکتے کہ بے پردگی, بیہودہ لباسی یا آزاد خیالی ان کے لٹنے کی بنیادی اور اہم وجہ ہے۔

بنیادی وجہ صرف وہی ہے جو بیان کردی کہ عورت کا عورت ہونا اس کے لٹنے کی بنیادی اور اہم وجہ ہے جبکہ ثانوی وجوہات میں لٹنے والی عورتوں کو انصاف کی فراہمی میں حائل ہونے والی کالی بھیڑ نما عورتیں اور فاشسٹ مرد حضرات ہیں جو عورت سے انصاف کے راستے میں حائل ہیں۔

ایسے میں عورت کیا کرے؟

یونہی لٹتی مرتی رہے؟

انصاف مانگے؟

پر کن سے؟

ان سے جنہیں جنسی درندوں کے ہاتھوں عورت کا لٹنا اور مرنا انسانیت کی توہین اور خلاف نہیں لگتا لیکن ان مردودوں کو سرعام مثال قائم کرنے کی غرض سے لٹکانا انسانیت کی توہین اور شدید خلاف ورزی لگتا ہے؟

نہیں نہیں اب عورتوں کے معاملے میں جیسی طوائف الملوکی بپا ہے ایسے میں “سپیشل ویمن آرڈیننس” جاری کرکے خواتین کو مارشل آرٹس کی ایڈوانسڈ ٹریننگ دینا اور عورتوں کو حکومتی خزانے سے قانونی اسلحہ دینے کی ہی ضرورت باقی رہ گئی ہے۔

ساتھ میں یہ اختیار کہ اگر کوئی جنسی درندہ (جی ہاں مرد کہنا مرد ذات کی توہین کے مترادف ہے کیونکہ مرد عزت دیتا ہے چھینتا نہیں) کسی عورت پر دست درازی کرے تو وہ اس کو شوٹ کرکے جہنم یاترا پر روانہ کردے۔

بجز اس کے اور کوئی حل موجودہ صورتحال میں نہ تو سجھائی اور دکھائی دے رہا ہے اور نہ ہی اس سے کم کوئی حل جنسی درندگی کی روک تھام میں کارآمد ثابت ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قصہ مختصر یہ کہ نہ جی نہ, عورت محفوظ ہے ہی نہیں لیکن اگر عورت کے ہاتھوں ریاست اور حکومت مرد کو غیر محفوظ ہونے کی یقین دہانی ازبر کروادیں اوپر مذکورہ تجویز نما حل کے اطلاق سے تو شاید عورتوں کی عزت, جان اور مال کچھ محفوظ تر ہوسکیں۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply