محرم کے حوالے سے چند مشاہدات و گزارشات ۔۔۔ معاذ بن محمود

طے کیا تھا کہ ۱۰ محرم تک کوئی ایسی پوسٹ نہیں کرنی جس سے کسی ایک جانب کا دل دُکھے۔ خود سے کیا عہد پورا کیا۔

کوشش اب بھی یہی ہے تاہم چند باتیں جو اس دوران نوٹ کیں ان پر بات ہونا ضروری ہے۔

سب سے پہلی بات تو اس حقیقت کو مان لینا ہے کہ مسلکی اختلاف ضیاء الحق مرحوم کے بعد سے سامنے آنا شروع ہوئے۔ کچھ لوگ ایک اور فقط ایک فرقے کو اس قضیے کا دوش دیتے ہیں۔ شاید بلکہ بظاہر ایسا ہی ہے۔ تاہم اسی مسلک کے انتہائی امن پسند لوگ بھی اسی معاشرے میں وجود رکھتے ہیں اور عموماً جنگجو بھی نہیں ہوتے۔ لہذا عمومیت پر مبنی فتوی لگانے سے پہلے یہ سوچ لیا کریں کہ آیا آپ کا رویہ یا آپ کی کہی کوئی بات کسی فرد کے اندر ضد پیدا کرنے کا سبب تو نہیں بنے گی؟

دوسری بات، غم منانے کا مروج طریقہ غم منانے والوں سے زیادہ مبینہ طور پر غم نہ منانے والوں کے بنیادی حقوق پر اثرانداز ہوتا ہے۔ آپ اس کی لاکھ توجیہات دے لیجیے، سڑک بند کرنے کا جواز دے دیجیے مگر حقیقت یہی رہے گی کہ کسی مسلکی، سیاسی یا لسانی بنیاد پر کیا جانے والا ایسا احتجاج جس کے باعث گھر سے دفتر پہنچنے کا راستہ نصف گھنٹے کی بجائے تین گھنٹے پر پھیل جائے یا مریض کو ہسپتال پہنچنے میں دقّت پیش آئے، یقیناً ناپسندیدہ ہے۔ اس سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ میرے بچپن میں بس نو اور دس محرم کے جلوس نکلا کرتے تھے۔ اب اس میں یوم علی علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام کا چالیسواں، ربیع الاول کے بارہ دن بھی شامل ہوچکے ہیں۔ اس کا الزام بادی النظر میں مخالف مسلک کو دیں، حکومت کی نااہلی کو یا کسی اور کو، یہ مسئلہ عام لوگوں کی عام زندگیوں پر اثرانداز ضرور ہوتا ہے۔ جذباتیت کی بجائے اس موضوع پر غور کی ضرورت ہے۔ آج ایک ایسے دوست کو دبئی سے انٹرویو کال آنی تھی جو بے روزگار ہے اور جسے نوکری کی شدید ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے موبائل نیٹ ورک بند ہونے کے باعث وہ یہ کال نہیں لے سکا۔

تیسری اور اہم بات یہ کہ محرم کے آغاز ہی سے دو اطراف ایک دوسرے پر لفظی گولہ بارود داغنا شروع کر دیتی ہیں۔ ایک جانب سے گزارش ہے کہ اگر آپ اس غم منانے کو جائز نہیں سمجھتے تو اپنا اختلاف فقط اختلاف تک رکھیے ناکہ دوسری جانب کے لیے زہر اگلنے کی صورت میں شروع کر دیں۔ دوسری جانب سے عرض ہے کہ آپ اپنی لفاظی غم منانے تک ہی محدود رکھیں اور دوسری جانب پر لعنت ملامت کرنے سے باز رہیں تو دوسری جانب کو عمل یا ردعمل دینے کا موقع نہیں ملے گا۔ بدقسمتی سے اس حرکت میں دونوں جانب سے کافی بڑے بڑے نام دیکھنے کو ملے۔ ہوتا دراصل یہ ہے کہ ایک جانب کا ایک فرد دوسری جانب کے متشدد فرد کی سوچ پر ردعمل پر مبنی پوسٹ یا بات کر کے سینکڑوں دیگر افراد کی توجہ ارادی یا غیر ارادی طور پر حاصل کر لیتا ہے۔ پھر جواب آتا ہے اور اس کے بعد جواب الجواب اور آگے ملاکھڑا، کیونکہ ہر شخص کی ذہنی سطح ایک نہیں ہوتی، اور اکثریت کی ذہنی سطح ہمارے پاکستانی معاشرے والی ہی ہوا کرتی ہے جہاں جھٹ سے گالی پٹ سے کفر کا فتویٰ سامنے آجاتا ہے۔

ایک آخری بات یہ بھی کہ جس قدر ہم مولویوں کو تکفیریت کے طعنے دیتے ہیں ایک بار ہمیں اپنے ذاکرین کی جانب سے منبر کے استعمال کو بھی پرکھنا ہوگا۔ ہمارے پاس بحیثیت قوم اپنا تمسخر اڑانے کے لیے کئی دیگر موضوعات موجود ہیں۔ ایسے میں لٹن جعفری اور نیپالی لونڈے یقیناً اضافی اور غیر ضروری ہیں۔

بھائیوں، حسین علیہ السلام کا کردار اس قدر بلند ہے کہ ان پر اوّل تو انگلی اٹھانے کے لیے بہت بڑا اور سرد مہر جگر چاہئے اور جو ایسا کر بھی دے تو چاند پر تھوکنے کے مترادف ہی رہتا ہے۔ اس پر بحث کرنے کا فائدہ کم نقصان زیادہ ہیں۔ پھر بحث بھی اگر ایسے شخص سے ہو جس کی معلومات کا منبع ہی مسجد کے مولوی (تحقیر مقصد نہیں) ہو تو پھر لاحول پڑھ کر آگے نکل چلنا زیادہ اہم ہے۔

یزید کے آگے پلید لگا ڈالیں یا رضی اللہ تعالی عنہ، اس سے یزید کے اکابرین میں سے ایک عظیم شخصیت کا یہ کہنا بدل نہیں جاتا کہ دریائے فرات پر ایک کتا بھی پیاسا مر جائے تو حاکم وقت جوابدہ ہوگا۔ یہاں تو بات نبی علیہ السلام کے پیارے نواسے اور اس کے اہل و عیال کی ہے۔ بدلہ چونکہ خدا کی ذات نے لینا ہے سو اس پر چھوڑ دینا بہتر ہے۔ ایسے واضح احکامات کی موجودگی میں یزید کو رضی اللہ تعالی ماننے والوں کو چن چن کر انہیں بتانا کہ ان کی ولدیت مشکوک ہوچکی یا انہیں اشتعال دلانا بہرحال ناجائز ہے۔ اسی طرح اہل بیت کی محبت و مودت کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اس کا اظہار کرنے والا شیخین سے بغض یا نفرت رکھتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں نے اس بار کئی دلائل سے بات کرنے والی شخصیات کو غیر مناسب باتیں کرتے دیکھا جو باقی کے سارا سال خدا اور بندے کے درمیان معاملات پر مرتکز رہتے ہیں۔ کیوں نہ اسے بھی اوپر والے پر چھوڑ دیا جائے؟

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”محرم کے حوالے سے چند مشاہدات و گزارشات ۔۔۔ معاذ بن محمود

  1. صفحہ اول/نگارشات/مقصد کسی مسلک کی دلآزاری نہیں۔۔۔عبدالرؤف
    مقصد کسی مسلک کی دلآزاری نہیں۔۔۔عبدالرؤف
    عبدالروف
    17 ستمبر 2019ء
    یہ تحریر 55 مرتبہ دیکھی گئی۔

    میں نے پچھلے سال بھی مکالمہ پر اک کالم لکھا تھا جس کا مرکز و محور صرف اور صرف عوام الناس کی تکلیف کا مداوا کرنا تھا نا کہ کسی مسلک یا فرقے کی دلآزاری ۔۔۔محرم الحرام جہاں اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے وہیں یہ مہینہ شہادتوں کا مہینہ بھی ہے ، محرم الحرام کی پہلی تاریخ سے ہی شہادتوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ کی شہادت اسی مہینے کی پہلی تاریخ کو ہوئی ، جسے دشمن اسلام ، ابو لولو فیروز مجوسی نے مسجد میں عین سجدے کی حالت میں شہید کیا ، اس کے بعد نو اور دس محرم الحرام کو اہلبیت کی شہادت ، ہمارا تو پورا اسلامی سال ہی اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ سال کا آخری مہینہ بھی قربانی سے بھرا ہُوا ،اور سال کا پہلا مہینہ بھی قربانی اور شہادتوں سے لبریز۔
    جہاں ہمیں اس مہینے سے یہ سبق ملتا ہے کہ ظالم کے آگے جھکنے سے انکار ، وہیں ہمیں یہ درس بھی ملتا ہےکہ ہر حال میں انسانیت کو مقدم جانو ، جب ہم قربانی کی بات کرتے ہیں تو پھر ہم انسانیت کے لیے قربان ہونے کو تیار کیوں نہیں ؟

    آپ پوری دنیا کے مذاہب کو کھنگال لیں، آپ کو کہیں بھی عبادت چلتی پھرتی نظر نہیں آئے گی ، باقاعدہ عبادت گاہیں بنی ہوئی ہوتی ہیں جہاں وہ اپنی عبادت کا پرچار کرتے ہیں ،ہم مذہب مسلک فرقے کی بات نہیں کرتے، نہ ہی ہم کسی کے مسلک کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں ، اور نہ ہی ہمیں کسی مسلک سے ذاتی بیر ہے۔

    محرم الحرام کا مہینہ شروع ہوتے ہی کچھ لوگ حکومت کی ناقص پالیسیوں پر اظہار خیال کرتے ہیں اور اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ محرام الحرام کی ان تاریخوں میں جہاں کچھ لوگ اسے اپنی عبادت سمجھتے ہیں وہیں کچھ لوگ اپنے لیے پریشانی کا سبب بھی سمجھتے ہیں اس کی وجہ جگہ جگہ خاردار تاریں لگا کر مصروف شاہراہوں کو بند کردیا جاتا ہے ، عوام اس بات کو کسی بھی طرح درست نہیں سمجھتی۔
    ہمیں تمام مسالک کا احترام اور ان کی عزت وتکریم کرنی چاہیے ، ہم کسی مسلک یا فرقے پر تبرا یا اس کی توہین نہیں کرتے ہم اعتراض حکومت کی ناقص پالیسیوں پر کرتے ہیں ،دنیا کا کوئی بھی مذہب ہو اسے آزادی ہے کہ وہ اپنی عبادت کرے ،لیکن عبادات کسی دوسرے شخص کی دلآزاری کا سبب نہ بنے ،کچھ لوگ دنیا کے تمام مذاہب کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دنیا کا ہر مذہب اپنی عبادت اپنی مخصوص عبادت گاہ میں کرتا ہے ،وہ شاہراہوں اور سڑکوں پر آکر لوگوں کے لیے پریشانی کا سبب نہیں بنتے ، اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیے ،لیکن یہ معاملات حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ان باتوں کا خیال رکھے اور وہ لوگ جو اپنی عبادت ان مخصوص دنوں میں کرنا چاہتے ہیں انھیں وہ راستے اور علاقے مخصوص کیے جائیں جس پر وہ بآسانی اپنی عبادت کرسکیں ،
    کسی بھی مہذب معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا کہ آپ اک گروہ کو کھلا چھوڑ دو اور وہ شہروں اور گلیوں میں جتھے کے جتھے گھومتے رہیں اور دوسرا طبقہ ان سرگرمیوں کی وجہ سے تکلیف سے دوچار ہوں ، آپ اپنی عبادت کریں کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ آپ کی راہ میں رکاوٹ بنے ، لیکن ہر معزز شہری کا یہ حق ہے کہ وہ حکومت وقت سے یہ سوال کرے کہ عبادت کے لیے اک مخصوص جگہ یا میدان کیوں نہیں دیا جاتا تاکہ یہ لوگ خود بھی سکون سے رہیں اور عوام الناس بھی تکلیف سے دوچار نہ ہوں ۔

    اکثر ان دنوں میں ، کچھ لوگ اس حوالے سے لکھتے ہیں اور ان کمزوریوں پر حکومت کی پکڑ کرتے ہیں لیکن اک مخصوص طبقہ اسے مسلک اور تنگ نظری کی حیثیت سے دیکھتا ہے ،اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو پیٹ میں مروڑ ہی ان دنوں میں ہوتے ہیں ، لیکن ان کی خدمت میں جواب پیش خدمت ہے کہ تکلیف ہوتی ہے تو بندہ چلاتا ہے۔

    یہ دس دن پاکستان کے زیادہ تر بڑے شہروں میں بسنے والی عوام کے لئیے بڑے کرب اور تکلیف کے ہوتے ہیں ،
    شاید کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ پریشانی صرف دو دن کی ہوتی ہے ،ان دو دنوں میں تو پورا پاکستان ہی لاک ڈاؤن ہوجاتا ہے ، لیکن ان دو دنوں سے پہلے کے آٹھ دن بھی کسی اذیت سے کم نہیں ہوتے ۔
    میں خود حیدرآباد شہر سے تعلق رکھتا ہوں ، جگہ جگہ شہروں میں خاردار تاریں بچھا کر راستوں کو ہر قسم کی گاڑیوں کے لیے بند کردیا جاتا ہے ، اکثر راستوں پر عوام الناس کو بھی تلاشی کے بغیر نہیں چھوڑا جاتا ، جگہ جگہ پولیس اور رینجرز کے ناکے لگے ہوتے ہیں جیسے کرفیو کا سا سماں۔۔
    جو راستہ عام طور پر آدھے گھنٹے میں طے کیا جاتا ہے وہ گھنٹے ڈیڑھ پر محیط ہوجاتا ہے ۔جب پورے ملک کے تمام شہروں کی ایسی حالت ہو تو عوام اپنے جذبات کا اظہار کیوں نہ کرے ، ہمیں عزاداروں اور اہل تشیع حضرات سے کوئی بغض و عناد نہیں ، وہ تلوار بازی کریں یا زنجیر زنی یا خونی ماتم کریں ، یہ ان کا عقیدہ اور ان کے جذبات کا اظہار ہے ہمیں ان کی عبادت میں کوئی خلل نہیں ڈالنا ۔
    لیکن ہمیں حکومت وقت سے یہ شکایت ضرور بنتی ہے کہ اس ملک میں ہر قسم کے مذاہب اور مسلک کے لوگ بستے ہیں وہ بھی اپنی عبادت بھرپور انداز میں مناتے اور کرتے ہیں لیکن کسی کے لئیے دلآزاری کا سبب نہیں بنتے ، اور نہ ہی حکومت وقت کسی اور مسلک اور فرقے کے لوگوں کو شہروں کے بیچوں بیچ اس طرح آزادی سے چھوڑتی ہے ،

    حیدرآباد سے کچھ کلو میٹر کے فاصلے پر اک چھوٹا سا شہر ہے ٹنڈوالہ یار ، یہاں ہر سال ہندؤوں کا اک میلہ لگتا ہے جسے راما پیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ،یہاں ہر سال پورے پاکستان اور انڈیا تک سے یاتری راما پیر کی یاترا کرنے آتے ہیں ، یہ میلہ تین دن تک رہتا ہے ، لیکن مجال ہے روڈ بند ہوا ہو راہ چلتی گاڑیوں یا مسافروں کو کوئی تکلیف پہنچی ہو ۔

    ہر سال لاہور میں رائے ونڈ کا اجتماع ہوتا ہے اس اجتماع میں بھی پورے پاکستان سمیت دنیا بھر سے لوگ اس اجتماع میں آتے ہیں یہ اجتماع بھی تین دن رہتا ہے لیکن یہاں بھی کوئی تکلیف سے دوچار نہیں ہوتا ، ہاں کچھ دیر کے لئیے انتظامیہ شہر کے کچھ علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیتی ہے تاکہ اجتماع میں آئے لاکھوں لوگ بآسانی پنڈال سے نکل سکیں اور شہر میں بھی کسی قسم کی افراتفری نہ مچے ،
    یہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اجتماع ہوتے ہیں اور انھیں باقاعدہ جگہ فراہم کی جاتی ہے جو شہر سے زیادہ تر فاصلے پر ہی ہوتی ہے تاکہ دوسری عوام کو چلتے پھرتے پریشانی نہ ہو ،
    اور یہ تمام تر معاملات حکومت وقت سنبھالتی ہے ،

    اب اگر ان تمام باتوں کے باوجود بھی جواز یہ پیدا کیا جائے کہ یہ تو پاکستان بننے سے پہلے کے ان کے راستے اور روٹ ہیں اب ان میں بدلاؤ نہیں آسکتا ، اور یہ طبقہ اسے ماننے کے لئیے بھی راضی نہیں ، یہ پھر حکومت وقت اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ انھیں اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ اس وقت کے حالات کچھ اور تھے اور اب حالات کچھ اور ہیں ، اس وقت آبادی کا تناسب کم تھا اور شہروں میں ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی ، اس وقت نہ ہی ناکے لگتے تھے ، نہ ہی خاردار تاریں بچھائی جاتی تھیں ، اس وقت اک دوسرے کے لیے مسالک میں اک احترام کا رشتہ بھی موجود تھا ، اب نہ ہی وہ ستر سال پہلے والا ملک ہے اور نہ ہی ستر سال پہلے والے حالات ، اب کچھ معاملات میں لچک دکھانی پڑے گی اس جماعت کے مشیران کو ، اور حکومت کو بھی اسٹینڈ لینا پڑے گا ۔

    اگر اک مسلک اس بات پر بضد ہے کہ ہم تو شہادت کے دن کو مناتے ہیں اور ان کی شہادت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں تو پھر کچھ مسلک کے لوگ یہ کہے گے کہ ہمیں بھی محرم کی پہلی تاریخ کو حضرت عمر فاروق کی شہادت کا دن منانے دیا جائے اور اس دن بھی عام تعطیل کا اعلان کیا جائے ، اور یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ اس دفعہ سندھ میں اک مخصوص جماعت کے لوگوں کو عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جلوس نکالنے نہیں دیا گیا سندھ حکومت کی جانب سے ، اور ان کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ کی گئی ، پھر دوسرے مسلک کے لوگ اس بات میں حق بجانب ہونگے کہ کچھ لوگوں کی طرف حکومت کا جھکاؤ زیادہ ہے ،

    ہم تو 12 ربیع الاول کے دن کو بھی منانے کے حوالے سے اپنے بڑوں کو اسی جانب توجہ دلاتے ہیں کہ آپ اس دن کو ضرور منائیں لیکن عوام الناس کو تکلیف نہ پہنچے ، سب سے پہلے انسانیت ہے ہمیں یہ درس بھی انہی ہستیوں نے دیا جن کی یاد میں ہم لوگ یہ دن مناتے ہیں ۔

    اس تحریر کو لکھنے کا مقصد کسی جماعت ،گروہ فرقے یا مسلک کی دلآزاری مقصود نہیں، بلکہ بحیثیت اک انسان ، دوسروں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھ کر اسے آپ لوگوں کے سامنے مکالمہ کی حیثیت سے پیش کیا ، اور مکالمہ کا مطلب دولوگوں کے درمیان باہمی گفتگو ،تکرار ،بحث مباحثہ ، ٹاکرا ہے ، اب اگر اس تحریر سے کسی کی دلآزاری ہوئی یا وہ اسے تعصب اور مسلک کی عینک سے دیکھتا ہے تو مکالمہ پیش خدمت ہے ۔۔۔

    نویں ،دسویں محرم الحرام کے روزے کی فضیلت۔علامہ منیر احمد یوسفی
    نویں ،دسویں محرم الحرام کے روزے کی فضیلت۔علامہ منیر احمد یوسفی
    ستمبر 30, 2017

    In “نگارشات”

    ماہ محرم کے اعمال / سوانح حیات حضرت امام حسین (ع) ۔مہمان تحریر
    ماہ محرم کے اعمال ایک ایسے معاشرے میں جہاں بسنت اور انٹرنیشنل کرکٹ جیسے اجتماعی زندگی کے مظاہر کو ایک مخصوص مسلک کی طرف سے غیراسلامی قرار دے کر ختم کیا گیا ہو، یہ سوچ فرد کی تنہائی بڑھانے اور لوگوں سے بدعت کے نام پر ثقافت چھیننے کی سوچ ہے۔ برصغیر میں عزاداری کم و بیش ایک ہزار سے جاری ہے اور اس میں معاشرے کے سب طبقات شریک ہوتے رہے ہیں۔ 1818ء میں سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کی طرف سے عزاداری پر حملے شروع کئے جانے کا سلسلہ شروع ہوا جس سے یہ اجتماعی تہوار سیکورٹی کا محتاج ہوتا گیا۔ اب آہستہ آہستہ دہشتگردی کے خلاف عوام یکسو ہو رہے ہیں تو وہ دن دور نہیں جب یہ تہوار پرامن ہو جائے گا۔ پھر سڑک کے ایک طرف سے ٹریفک گذرے گی اور دوسری طرف شیعہ، سنی، مسیحی، سکھ، ہندو، سب مل کر نواسہ رسول کا غم منائیں گے۔ پھر سے برصغیر کی تہذیب کا یہ اٹوٹ انگ عالمگیر ہو جائے گا۔
    اب بھی ایک یہی اجتماعی عمل رہ گیا ہے جو دہشتگردی کے سامنے تسلیم نہیں ہوا۔
    دہشتگردی کی وجہ سے عوام کو تکلیف اٹھانی پڑ رہی ہے لیکن عوام اس مخصوص سوچ سے عہدہ بر آ ہو کر اپنی اجتماعی زندگی دوبارہ سے جینے لگ جائیں گے۔
    پرانے لاہور میں عزاداری کے بارے میں جاننے کیلئے اس مضمون کا مطالعہ کیجئے:-
    https://www.mukaalma.com/78098/

Leave a Reply