کیا میں قابل عزت ہوں۔۔۔عزیز خان ایڈووکیٹ/قسط1

پولیس کو پوری دنیا میں اچھا نہیں سمجھا جاتا پر پچھلے ایک ہفتہ سے پنجاب پولیس زیرِ  عتاب ہے، رحیم یار خان میں صلاح الدین پولیس تشدد کیس میں پولیس ملازمین کے خلاف مقدمہ درج ہے جس میں جوڈیشل انکوائری ہو رہی ہے۔

وہاڑی میں عورت پر تشدد کیس میں تو کمال ہو گیا، Rpo مُلتان وسیم سیال نے Dsp راؤ طارق سمیت آٹھ ملازمین کو حوالات میں بند کر کے اپنی نوکری پکی کرتے ہوئے انصاف کا بول بالا کیا۔۔یہ اور بات ہے کہ تفتیش میں Dsp مع دو ملازمین بے گُناہ ثابت ہوئے، Dsp خود اور اُنکی فیملی کس اذیت سے گزرے ہوں گے یہ تو وہی جانتے ہیں۔۔
مگر یہ بھی ہو سکتا ہے Dsp راؤ طارق نے بھی کسی بےگناہ کو حوالات میں بند کیا ہو اور یہ اُسی کی سزا ہو۔
آئی جی صاحب نے کمال کیا، ایک آرڈر پاس کیا ،تھانے  میں  تعینات پولیس ملازمین کے موبائل فون کے استعمال ہر پابندی لگا دی۔

گزشتہ ایک ہفتے  سے مختلف tv چینلز پر تبصرے ہو رہے ہیں اپوزیشن سیاستدان اینکرز ریٹائرڈ آئی جی صاحبان پولیس ریفارمز پر باتیں کر رہے ہیں، پولیس تشدد کی فلمیں دکھائی جارہی ہیں۔
میں سب یہ تماشا  دیکھ اور سُن رہا ہوں، ائیرکنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر پالیسیاں بنانے والے یہ لوگ ریفارمز کی باتیں کرتے ہوئے مجھے زہر لگتے ہیں ان میں سے نہ کسی کا باپ یا بھائی کنسٹیبل رہا، نہ انہوں نے کسی تھانے  میں بطور ملازم کُچھ دن گزارے ۔

ریٹائیرڈ آئی جی صاحبان جو اپنی اینگز کھیل چکے ہیں اپنی تعیناتی میں حُکمرانوں کے سامنے کبھی نہ بولے، نہ کبھی ملازمین کی ویلفیئر کے بارے میں بات کی ،صرف اپنے بچوں اور خود کے بارے میں سوچا۔
آج وہ اچھی ٹریننگ کی بات کرتے ہوئےملازمین کی  اخلاقی اقدار کی بات کرتے ہوئے مجھے تو اچھے نہیں لگتے ہیں۔
یہی حال پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے لیڈروں کا ہے جن کو اب کوئی کام نہیں صرف شام کو چینلز پر بیٹھ کر اپنے لیڈروں کی کرپشن پر پردہ ڈالنے کے لئے اپنی قبر کالی کر رہے ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی تسلیم کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم اب تک کچھ نہیں کر سکے مگر اب ہمیں حکومت مل گئی تو سب اچھا کر دیں گے۔

رہ گئے تحریک انصاف والے انہیں یقین ہی نہیں آرہا کہ وہ حکومت میں ہیں یا اپوزیشن میں ۔۔۔ایک سال گزرنے کے باوجود اُن کے تمام وعدے دھرے کے  دھرے رہ گئے ہیں۔

ایک وقت تھا جب پولیس محکمہ میں ملازمت کرنا باعث عزت سمجھا جاتا تھا 60,70اور 80 کی دہائی میں Asi پروبیشنر بھرتی ہونا کسی بھی فیملی کے لئے باعثِ  فخر تھا، سلیکشن بڑی صاف اور شفاف ہوتی تھیں، خاص طور پر جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں ہر سالAsi کی پوسٹیں نکلا کرتی تھیں۔انٹرویو کو صاف اور شفاف رکھنے کے لئے رات کو ہی DIG رینج کو دوسری رینج میں انٹرویو کے لیے  بھجوا دیا جاتا تھا پولیس میں سیاسی سفارش بہت کم ہوتی تھی۔

پھر نواز شریف کا دور آیا ،محکمہ پولیس اور ریونیو میں سیاسی بھرتیاں شروع ہوئیں ،ایم پی اے اور ایم این اے کو Asi اور نائب تحصیلدار کی سیٹیں دیں گئیں، لاہور نواز شریف کے اپنے حلقہ انتخاب کے لوگ پولیس اور ریونیو میں بھرتی ہوگئے، پورے پنجاب میں بہت سے ایسے جرائم پیشہ لوگ بھی پولیس میں آگئے جو سابقہ ریکارڈ یافتہ تھے۔
پولیس کی بربادی میں ایک کیلئے  ڈائریکٹ انسپکٹرز کی سلیکشن تھی ،نوجوان اور پڑھے لکھے لڑکے اس محکمہ میں آئے جنہیں ترقی کے سبز باغ دکھائے گئے کہ وہ پانچ سال بعد Dsp ہو جائیں گے مگر ایسا کُچھ بھی نہ ہوا ،بلکہ کانسٹیبل سے بھرتی ہونے والے Asi سے بھرتی ہونے والے اور انسپکٹر سے بھرتی ہونے والے ملازمین کے درمیان ایک ایسی عدالتی جنگ چھڑ گئی جس نے اس محکمہ کو برباد کر دیا
ملازمین کی ترقیاں رُک گئیں ،وکلا کی چاندی ہو گئی، لاہور میں بیٹھے افسران اعلیٰ سے سنیارٹی لسٹیں ہی نہ بن سکیں۔

ہر محکمے  کی طرح سب کو پروموشن کا انتظار ہوتا ہے جب یہ پتہ چل جائے کہ اب پروموشن نہیں ہونی تو ملازمین میں بددلی  پھیل جاتی ہے اور یہی اس محکمہ پولیس کے ساتھ ہوا جو کہ  اس محکمے  کی ناکامی کی ایک وجہ بھی ہے۔

سیاسی سفارشیں ڈھونڈی گئیں ،آؤٹ  آف ٹرن پروموشنز ہوئیں ،جونئیر سینئر ہو گئے، ہر ملازم عدالتوں میں گیا ،اس میں بہت بڑا ہاتھ Psp افسران کا بھی تھا جو ڈائریکٹ انسپکٹرز کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے تھے۔
اگر جنرل مشرف کی حکومت نہ آتی تو شاید شہباز شریف ان انسپکٹرز کو ترقیاں دے کر صوبے  میں لاتا اور اس طرح psp کلاس سے صوبائی حکومت کی جان چھوٹ جاتی۔
نواز شریف اور شہباز شریف کی حکومت دوبارہ آئی تو اب اُنہوں نے نیا کارنامہ کیا کہ سب انسپکٹرز بھی ڈائریکٹ بھرتی کرنا شروع کر دیے اور اب یہ عالم ہے کہ پولیس میں کانسٹیبل سے لے کر انسپکٹر تک ہر رینک پر بھرتی ہوئی ہے اگر ان کی حکومت رہ جاتی تو ڈائریکٹ ڈی ایس پیز کی بھرتی کا بھی پروگرام تھا۔اپنی حکومت کے لیے پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے جس طرح محکمہ پولیس کو برباد کیا تاریخ ان کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔
اعلیٰ پولیس افسران کا رویہ رینکرز ملازمین سے کبھی بھی اچھا نہیں ہوتا ،میں ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ آپ غلطی پر سزا دیں پر عزت نفس مجروع نہ کریں۔

مجھے آج بھی اپنے ساتھ کی گئی ایک ایسی زیادتی یاد ہے ۔۔۔میں 2014 کو Rpo بہاولپور کے دفتر کے باہر موجود تھا مجھے Rpo نے بلوایا تھا اور مجھے باہر کھڑے ہوئے ایک گھنٹہ ہو گیا تھا۔۔۔میں نےاردلی کی طرف دیکھا تو وہ بولا سر اندر صاحب کے مہمان بیٹھے ہیں، اُنہوں نے منع کیا ہے کہ جب تک وہ گھنٹی نہ دیں کوئی  اندر نہ آئے۔

تھوڑی دیر بعد Rpo کے کمرہ کا دروازہ کھُلا تو ایک ایسا شخص باہر نکلا جو بہاولپور میں اچھی شہرت نہ رکھتا تھا، مجھے دیکھ کر مُسکرایا اور بولا خان صاحب ! Rpo صاحب میرے اچھے دوست ہیں اگر کوئی کام ہو تو بتانا۔۔۔۔میں نے اُس کا شکریہ ادا کیا اور وہ چلا گیا ۔اردلی معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ مجھے دیکھتے ہوئے بولا “صاحب کے بُہت اچھے دوست ہیں “۔
میں نے اپنی یونیفارم درست کی کہ اب میری باری ہو گی ،اچانک ایک انڈر ٹریننگ Asp تشریف لائے، میری طرف دیکھا ،بغیر سلام دعا دروازہ کھولا اور اندر چلے گئے۔

میں نے اردلی کی طرف دیکھا تو اُس نے مُنہ دوسری طرف کر لیا ،جیسے کہہ رہا ہو آپ کی اوقات اتنی جلدی اندر جانے کی نہیں ہے۔۔۔

مجھے 36 سالہ محکمہ پولیس میں کی گئی  اپنی ملازمت اور خدمات جن میں کئی  دفعہ اپنی جان کو خطرے میں بھی ڈالا ،پر شرم محسوس ہوئی۔۔ احساس ندامت میں میری یونیفارم کچھ اور پسینے  میں شرابور ہو گئی۔۔۔میرا تجربہ، میری خدمات ،رینکر اور psp کلاس کی نفرت اور حقارت کا شکار ہو گئی۔

تقریباً آدھا گھنٹہ بعدشاید Rpo صاحب کو مجھ پہ ترس آگیا ڈور بیل بجی ۔۔۔اردلی نے بتایا صاحب بلا رہے ہیں، میں کمرے  کے اندر داخل ہوا، مجھے لگا جیسے دوزخ کی گرمی سے جنت کی ٹھنڈی اور خوشبودار دنیا میں داخل ہو گیا ہوں۔
Asp کرسی پر برجمان تھے ،چائے اُن کے سامنے موجود تھی، RPO صاحب نے حقارت بھری نگاہوں سے مجھے دیکھا ،مجھے ایسا لگا جیسے میں دنیا کا حقیر ترین شخص ہوں۔۔۔مجھے حُکم ملا کہ میں sho کےساتھ کل پھر پیش ہوں اور اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا ،جس کا مطلب یہ تھا کہ اب میں جا سکتا ہوں ،اس کام میں مجھے ایک منٹ لگا ،میں نے سلیوٹ کیا اور باہر آ گیا۔۔۔ باہر آنے کے بعد مجھے اپنے ساتھ کیے گئے سلوک پر دُکھ ہوا، میں بھی تو گریڈ سترہ کا ہی افسر تھا۔۔۔
میں نے بوجھل قدموں سے دروازے کے ساتھ لگے آئینے  میں خود کو دیکھا تو خود سے شرم محسوس ہونے لگی۔۔

بطور Asi بھرتی کے بعد صُبح سے شام تک اسی آفس کے باہر بیٹھنے کے بعد ہمیں اُس وقت کے DIG صاحب کے سامنے پیش کیا گیا تو یہی حقارت اور نفرت جو آج مجھے محسوس ہوئی اُس وقت بھی نظر آئی جو ایک رینکر کے لیے psp کلاس کو ہوتی ہے۔
میں آئینے  کے سامنے کھڑا تھا اور سارے واقعات پولیس میں بھرتی کے بعد سے اب تک میری نظروں میں گھوم رہے تھے۔

چند ایک افسران کو چھوڑ کر جن کے ماتحت میں نے کام کیا اور جن کا رویہ قدرے بہتر ہوتا تھا باقی سب ایک جیسے تھے۔۔۔۔کچھ زبان کے بُرے کچھ قلم کے ،سب یاد آنے لگے۔
اپنی 36 سالہ ملازمت کے  ساتھ آج بھی میں اُسی مقام پہ تھا جہاں میری سیلف ریسپیکٹ نہ تھی، میں سوچ رہا  تھا کہ

Advertisements
julia rana solicitors london

“کیا میں قابلِ عزت ہوں؟”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply