انتخاب۔۔وہاراامباکر

وہ ایک عجیب دنیا میں داخل ہو گیا تھا۔ اس میں تمام لوگ ۔۔۔ وہ خود ہی تھا۔ بلکہ جو وہ خود ہو سکتا تھا۔
اس آبادی میں اس سے زیادہ کامیاب بھی تھے۔ وہ، جس نے تعلیم مکمل کی تھی۔ یا وہ، جو اپنا علاقہ چھوڑ کر دوسرے شہر چلا گیا تھا۔ یا وہ، جس نے ہمت کر کے بات کہہ دی تھی۔ یا وہ، جسے محفل میں ایک کمپنی کے ڈائریکٹر کے ساتھ جگہ مل گئی تھی، جسے اس ملازمت دینے پر قائل کر لیا تھا۔ اس کے اپنے طرح طرح کے کامیاب ورژن تھے۔ اپنے سے زیادہ کامیاب خود سے ملاقات ہوتی تو کچھ فخر ہوتا۔ اس طرح کا، جیسے اپنے کسی قریبی رشتہ دار کی کامیابی پر ہوتا ہے۔ یعنی، یہ کامیابی اپنی تو نہیں تھی لیکن کچھ اپنائیت تو تھی۔ “یہ میں بھی ہو سکتا تھا۔ یہ میں ہی ہوں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن جلد ہی یہ بدل گیا۔ یہ کامیاب لوگ وہ خود نہیں تھا، اس سے بہتر تھے۔ انہوں نے بہتر انتخاب کئے تھے۔ زیادہ محنت کی تھی۔ بند دروازے کھولنے کے لئے زیادہ زور سے دھکا لگایا تھا۔ ان کو توڑ دیا تھا اور اپنی زندگی کو نئی سمت دے لی تھی۔ اور طرہ یہ کہ، ان کی اپنے سے بہتر زندگی کی وضاحت جینیات کی لاٹری یا حالات کے جبر سے نہیں کی جا سکتی تھی۔
ان دوسروں نے اپنا ہاتھ بہتر کھیلا تھا۔ بہتر فیصلے کئے تھے۔ اخلاقی کمزوریوں پر قابو پایا تھا۔ آسانی سے ہار نہیں مانی تھی۔ اپنی غلطیوں کی اصلاح پر کام کیا تھا۔ کسی غلط چیز پر دوسروں سے معذرت کر لی تھی۔
وہ جلد ہی ان کے ساتھ ملنے جلنے سے اکتا گیا۔ تنگ آ گیا۔ کسی اور سے مقابلے میں پیچھے رہ جانے کی وضاحت تو بنائی جا سکتی ہے۔ خود اپنے سے؟ اس کا کیا کیا جائے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے ان سے میل جول رکھنے کی کوشش کی، جو اس سے پیچھے رہ گئے تھے۔ لیکن یہاں بھی مسئلہ تھا۔ اسے ان سے کوئی ہمدردی نہیں تھی۔ وہ ان پر تنقید کرتا رہتا۔ “اگر تم ہر وقت ٹی وی دیکھنے کی عادت چھوڑ دیتے تو کچھ بن جاتے”۔ “تم نے اپنی غلطی کی معذرت ہی نہیں کی، تعلق ہی توڑ لیا”۔ “ہاں، ان دنوں ہاتھ کچھ تنگ تھا اور ذہن میں ایسے خیالات آ رہے تھے لیکن تم تو چوری ہی کر گزرے”۔ “انٹرویو دینے ہی نہیں گئے؟؟”۔
نہیں، یہ ناکام ہو جانے والے اس قابل نہیں تھے کہ ان کے ساتھ وقت گزارا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن وہ کامیاب ہونے والے نظر آتے رہتے۔ فخر کی جگہ حسد نے لے لی تھی۔ ایک کے سامنے وہ کتاب پڑی تھی، جس کو وہ لکھنا چاہتا تھا لیکن ختم نہ کر سکا۔ ایک کے ساتھ وہ خاتون تھی جس کے ساتھ وہ خود بات کرنے کی ہمت نہ کر سکا۔ قریب ہی سڑک پر دوڑنے والے کا چست اور توانا جسم اس بات کی غمازی کر رہا تھا کہ اس نے ورزش شروع کر دی تھی جس کا وہ ارادہ ہی باندھتا رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عجیب اداسی کا شکار وہ اپنی زندگی میں لئے گئے فیصلوں کی وضاحتیں ہی سوچتا رہا۔ آخر کیوں؟ وہ کیوں اتنی اچھی زندگی نہیں گزار سکا جو کہ ممکن تھا؟ دل کڑا کر کے کچھ ناکام خود سے دوستی کر لی۔
کسی محفل میں، کسی بازار میں وہ اپنے سے زیادہ کامیاب خود کو اچھی زندگی گزارتا دیکھ کر کُڑھتے۔ انہوں نے اس وقت تک کچھ مزید بہتر انتخاب کر لئے ہوتے۔ کیونکہ ہر اچھا انتخاب مزید اچھے انتخاب کو کرنا آسان کرتا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک عجیب دنیا تھی۔ اس میں ایک عجیب انصاف تھا۔ جو اپنی صلاحیت کو ٹھیک استعمال نہ کر سکا تھا، اپنی استعداد کے مقابلے میں جتنا پیچھے رہ گیا تھا، اسے اپنے سے زیادہ اتنے ہی کامیاب لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس کے لئے یہ ناکامی کی اذیت تھی۔ خود اپنا سامنا کرنے ۔۔۔ اپنے آپ سے ہی مقابلہ ہار دینے کی اتنی ہی بڑی سزا تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ نمبر: یہ کہانی ایک تمثیل ہے۔ اس کا مرکزی خیال Subjunctive نامی کہانی سے لیا گیا ہے۔

Facebook Comments