شلوار تو مت اتارو۔۔۔طاہر حسین

آٹھ، نو برس کے بچے پر ایک تربوز چوری کی کوشش کا الزام تھا اور تربوز فروش بدلے میں چاہتا تھا کہ بچہ اپنی شلوار اتار کر اس کے حوالے کرے۔ وہ بلک بلک کر روتے ہوئے اپنی شلوا کا نیفہ مضبوطی سے پکڑے تربوز فروش سے معافی مانگتے ہوئے بتا رہا تھا کہ اس نے تربوز نہیں چرایا بلکہ غلطی سے اس کی ٹھوکر سے ٹوٹ گیا ہے اور اگر اسے اجازت دی جائے تو وہ گھر سے پیسے لا کر یہ نقصان پورا کردے گا۔ بچے کو ان تھپڑوں کی پرواہ نہیں تھی جو اس پر برسائے جا رہے تھے اصل خجالت اس مجمعے کی طنزیہ ہنسی میں تھی جو صرف یہ دیکھنے کھڑے تھے کہ اس کی شلوار کب اترے گی ۔ تماشائیوں کے ذوق کو دیکھتے ہوئے تربوز فروش کا حوصلہ بھی بڑھ چکا تھا اور وہ بار بار زبردستی بچے کی شلوار کھنچ کر اتارنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ اسی دوران وہیں پاس سے گزرتے ایک محلے دار نے یہ تماشا دیکھا، تربوز والے کو پانچ روپے کا نوٹ پکڑا کر اس کے نقصان کی تلافی کی اور اسے سخت سست کہہ کر بچے کو آزاد کروا دیا۔ بچہ اس ہجوم کو چیرتا ہوا بے تحاشا گھر کی طرف بھاگا کہ کسی کو پتہ نہ لگے کہ آج برسر عام ایک مجمعے میں اسے کس ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔

معمولی واقعہ گزر گیا کہ دیہاتوں کے جہالت زدہ ماحول میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ اس طرح کی باتیں معمولی ہیں۔ لیکن شہروں کی پوش آبادیوں میں تو بہت سلجھے ہوئے اپر کلاس کے لوگ رہتے ہیں، وہاں بھی اگر اسی طرح کا واقعہ پیش  آئے تو کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔

کراچی کی ایک پوش آبادی میں ایک چودہ سالہ لڑکے پر ایک معمولی رقم چوری کرنے کا الزام لگا۔ اس سے طاقتور، بااختیار اور بظاہر سلجھے ہوئے لوگوں نے اسے برہنہ کرکے جو پیٹنا شروع کیا کہ اس کی جان ہی لے لی۔ مرنے میں ذلت کیسی کہ سب کو ایک روز مرنا ہی ہے لیکن اس سارے واقعے کی باقاعدہ وڈیو بنائی گئی اور جو خجالت اس بچے کے چہرے پر نظر آ رہی ہے وہ ناقابل بیان حد تک تکلیف دہ ہے۔ اپنی جان سے گزرنے سے پہلے اس بچے نے بھی آس پاس کھڑے تماشا دیکھنے والوں پر ایک رحم طلب نظر تو دوڑائی ہوگی کہ شائد کوئی اس کی مشکل آسان کردے، پیسہ ادا کرنے یا اسے پولیس کے حوالے کرنے کی بات تو الگ کوئی یہی کہہ دے کہ “بھئی جتنا پیٹنا ہے پیٹ لو لیکن اس کو شلوار تو پہنا دو”۔ لیکن ایسا کوئی شخص وہاں نہیں تھا کہ بالآخر ملک الموت ہی اسکی امداد و نصرت کو اتر آیا۔

ہمارے ہاں “Dispensation of justice by the mob” کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ بازاروں چوراہوں پر پٹتے ہوئے معمولی چور ایک عام سا منظر ہے جو ہم میں سے ہر کسی نے دیکھ رکھا ہوگا۔ پارسائی کا تقاضا ہے کہ جرم سے نفرت کی جائے لیکن اگر وہ مجرم کوئی کمزور اور بے بس ہو تو اور بہتر  ہے کہ اس سے جرم کے خلاف نفرت کے اظہار کا عملی موقع تو ملتا ہی ہے بلکہ اس کے ساتھ علاقے کے لوگوں پر دھاک بھی بیٹھ جاتی ہے کہ “بھائی کا ہاتھ بہت بھاری ہے” اور پبلک کو بھی ایک اچھی اور براہ راست تفریح کا مفت موقع  الگ۔

آج انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا، ہماری کھوکھلی معاشرتی اقدار کا پردہ چاک ہوگیا یا طاقت کے نشے نے ایک غریب کی جان لے لی وغیرہ وغیرہ جیسے روایتی فقرے اب بے معنی ہوچکے ہیں۔ میرا دکھ یہ ہے کہ مجھے پیلے دانت نکوستے میکے کچیلے دیہاتی تربوز فروش، بظاہر مہذب صاحبان ثروت بھائی لوگ، قہقہے لگاتے، شلوار اترنے کے منتظر دیہاتی تماشائیوں اور قیمتی موبائل کے کیمرے سے منظر کشی کرتے ہجوم میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں فقط اتنا کہنا چاہتا ہوں “بے شک جان سے مار دو لیکن یوں سرعام ننگا تو مت کرو”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply