آہ!ریحان کا ٹائم آ ہی گیا۔۔۔۔رمشا تبسم

بچپن میں جب ڈر لگتا تھا تو میری ماں مجھے سکھاتی تھی کہ  کلمہ پڑھا کرو , قل شریف پڑھا کرو ۔بڑے سے بڑا جن اور بھوت بھاگ جائے گا۔تقریباً ہم سب کا بچپن ایسا ہی گزرا۔ سب نے زندگی میں کبھی نہ کبھی بھوت یا جن کے ڈر سے آیت الکرسی یا قل شریف پڑھے ہونگے۔میں نے بھی پڑھا۔مگر میری ماں نے کبھی انسانوں کی حیوانیت اور درندگی سے بچنے کی نہ آیت سکھائی، نہ طریقہ۔

میں بڑا ہوتا گیا۔کبھی سکول کی شکل دیکھی ضرور تھی مگر  زیادہ عرصہ تک سکول میں نہ رہ سکا۔لڑکا تھا نہ گھر کی ذمہ داری تھی۔مرد تھا میں , پیدا ہوتے ہی مرد۔۔مجھے پیسہ کمانا تھا۔ کام پر لگ گیا،کام پر مالک نام لے کر کم اور گالی دے کر  زیادہ بلاتا تھا ،میں نے ابا اور امّاں  سے ذکر کیا تو وہ کہتے، کوئی بات نہیں۔ جو پیسہ دیتا ہے اسکی بات برداشت کرتے ہیں اور تھوڑی بہت مار بھی۔ٹھیک ہے کر لی برداشت گالی بھی اور اسکی مار بھی ۔پہلے جسم پر مار درد دیتی تھی۔ماں کہتی تھی مرد ہوں میں اور مرد کو درد نہیں ہوتا۔پھر یہی مار مجھے محسوس نہیں ہوتی تھی۔گاہک بھی اکثر گالی گلوچ کرتے تھے ان کو تو نام تک معلوم نہیں ہو گا میرا کبھی “چھوٹا “کہتے کبھی کمینہ اور کبھی حرامی۔خیر پھر گالی محسوس نہیں ہوتی تھی کیونکہ مجھے تو کام اور پیسے سے غرض  تھی۔ مجھے بس اتنا یاد رہ گیا میں حرامی, ذلیل,گٹر کا کیڑا اور چھوٹا ہوں۔میں اپنا نام ہی بھولتا گیا۔۔

پیسہ بڑی مزے کی چیز ہے بڑی بڑی گاڑیوں والے دیکھتا تھا کیسے ٹھاٹ باٹھ اونچی شان، مہنگے کپڑے جوتے ہوتے ان کے پاس۔اور میں حرامی ایک گندی سی ٹوٹی جوتی اور پھٹے کپڑے۔کسی نے کبھی مجھ سے ہمدردی کا ایک لفظ تک تو بولا نہیں۔ میں نے پیٹ بھر کر روٹی کھائی ہے کہ  نہیں، کسی انسان کو خیال نہ آیا۔پھر مجھے ڈھیر سارا پیسہ کون دیتا۔پیسہ تو خود ہی کمانا تھا یا بنانا تھا۔کمایا جا نہیں رہا تھا لہذا بنانے کا سوچا۔

کچھ دوست تھے ان کے ساتھ مل کر جوا کھیلنا سیکھ رہا تھا۔وہاں بھی سارے مرد گالی گلوچ کرنے والے تھے ۔کسی نے میری کم عمر دیکھ کر سمجھایا نہیں مجھے۔وہاں بھی سب کو پیسہ کمانا تھا کسی کو اپنے بچے کی سکول کی فیس کی خاطر کسی کو بچے کی شادی کی خاطر، کسی کو بچوں کے عید کے کپڑوں  کی خاطر۔وہاں بھی کسی کو میں بچہ نہیں لگا کہ  کوئی مجھے سمجھاتا۔نہیں تو نہ سہی ،میں بڑھتا گیا۔جہاں مجھ جیسوں کو کسی بھی موڑ پر کوئی نہ راستہ دکھائے ،نہ ہاتھ پکڑ کر سمجھائے، نہ غلط اور صحیح کا فرق بتائے ،وہاں مجھ جیسے اپنا راستہ پھر خود ڈھونڈتے ہیں ۔خود بناتے ہیں۔۔میں بھی زندگی جہاں لے جاتی رہی ،جاتا رہا۔میرے ماں باپ نے جنم دیا تھا ان کو بھی پرواہ نہ ہوئی اور انسانیت کا ڈھونڈورا پیٹنے والوں کو بھی نہیں۔

مجھے میرا وقت لانا تھا۔۔صرف ریحان کا ٹائم لانا تھا۔اس دن بھی ایسے ہی میں نے دیوار پھلانگ لی۔چوری کیا کرنی تھی ،شاید شرارت ہی تھی دوستوں کے ساتھ چل پڑا۔پکڑا گیا۔ مجھے لگا لو بھئی آج تو شامت آگئی۔گھر کےپاس علاقہ تھا، لہذا یہ سب بڑے لوگ اب گھر جائیں گے ،شکایت لگائیں گے میری۔مگرانہوں نے مارنا شروع کر دیا۔مجھ حرامی کو کہاں اب ایک آدھے تھپڑ یا گھونسے کی پرواہ رہی۔جتنے تھپڑ تقدیر روٹی کی خاطر مار چکی ہے جتنی ضربیں میرے جسم اور روح پر لگ چکی تھیں اب اس کے آگے یہ سب مار بہت معمولی تھی۔میں نے سوچا کچھ دیر تک ان کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا اور مجھے یا تو پولیس تک لے جائیں گے یا گھر تک۔

مگریہ تو مجھے باندھ رہے تھے۔میرے کپڑے اتروا دیئے۔ یہ بہت ذلت تھی میں تو اب بڑا ہو گیا تھا اب تو میری ماں بھی مجھے نہلاتی نہیں تھی اور یہاں سب کے سامنے ننگا کردیا گیا۔یہ چوٹ پھر سے روح پر بہت تکلیف دہ  محسوس  ہو رہی تھی۔میرے دانت ٹوٹ چکے تھے۔ہونٹ سوجھ گیا تھا۔ٹانگوں میں بھی بہت درد تھا۔پھر بھی باندھ کر سب نے تفتیش شروع کی۔میرا نام پوچھا۔مجھے اتنے درد میں یاد نہیں آیا میرا نام تھا کیا؟کسی نے کبھی نام لیا جو نہیں میرا اب۔ حرامی تھا گٹر کا کیڑا ,بےغرت یا “چھوٹا” یہی تو نام تھے میرے اکثر کانوں میں گونجتے ۔ایک دم خیال میں ہلکی سی کان میں ماں کی آواز آئی۔۔ میرا لعل ریحان۔ وہی کبھی کبھی بس ریحان کہا کرتی تھی۔ہاں میرا نام ریحان تھا ۔میں نے انہیں سب بتایا گھرکا بھی بتا دیا کہ  گھر کا سن کر گھر تک لے جائیں گے درد اب برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔مگر یہ کیا انکا غصہ ٹھنڈا ہی نہیں ہو رہا۔بڑے بڑے ڈنڈوں سے حملہ کر رہے ہیں۔ٹانگ ,ہاتھ, پاؤں, کمر ,سر, منہ سب زخمی تھا۔.

ماں۔ میری پیاری ماں تو نے جھوٹ کیوں بولا مجھ سے کہ مرد کو درد نہیں ہوتا۔ماں مجھے درد ہو رہا تھا۔بہت درد ہوا۔جب دانت ٹوٹے ،جب ڈنڈے پڑے ،ہر جگہ درد ہوا ماں۔میری سانسیں ٹوٹ رہی تھیں۔کوئی تیرے لعل کو تھام نہیں رہا تھا۔ماں تیری آغوش کا مزہ تو غربت نے بچپن میں چھین لیا تھا اب یہ اذیت برداشت نہیں ہو رہی تھی، ماں کاش تو آ کر مجھے اپنی آغوش میں پھر سے ایک بار بھر لیتی۔
مجھے یاد ہے یہ کھاتے پیتے امیر لوگ کہا کرتے تھے کہ”مار نہیں پیار” ان کے بچوں کو مارا نہ جائے، پیار سے سمجھایا جائے۔پھر مجھے پیار سے کیوں نہ سمجھایا گیا۔سب ختم ہو رہا تھا۔آنکھوں کے آگے اندھیرا آ رہا تھا۔میں ننگا ہی زمین پر گر پڑا۔اب بس سب ختم ہونے والا تھا۔ایک لڑکے نے کہا پینٹ اوپر کرو۔مگر مجھ میں اب ہمت کہا تھی۔اسکو اس پر بھی غصہ آیا اس نے مجھے پھر مارا ،میں نے کوشش کی مگر یاد نہیں کہ  کر سکا کہ نہیں۔وہ سب اب بھی حملہ آور ہونے کو تیار تھے۔آذان شروع ہو گئی۔مجھے یاد ہے میری ماں کہتی تھی جہاں تک اللہ کا نام سنائی دے جہاں تک آذان کی آواز جائے وہاں جن بھوت اور بُری بلائیں موجود نہیں رہتیں۔شاید مجھ پر حملہ آور یہ بلائیں بھی اب آذان کی آواز سے ہٹنے والی تھیں۔ایک آواز آئی کہ  “رک جاؤ” ۔مجھے لگا واقعی ماں کی بات سچ ثابت ہوگئی۔ اس نے کہا “رک جاؤ۔سر پر مت مارنا اب”۔
سر پر۔۔مطلب صرف سر پر نہ مارو باقی جہاں مرضی مار لو؟. انسانیت کا مجھ حرامی جاہل ان پڑھ کو تو علم نہیں تھا مگر یہ سب بھی انسانیت نہیں جانتے تھے کیا؟
اب واقعی اندھیرا تھا۔اب کچھ نہیں بچا تھا۔مجھے مار دیا گیا میرا ٹائم آنے سے پہلے مار دیا گیا۔
میں اب اپنے مردہ جسم کے پاس کھڑا تھا۔بہت عرصہ بعد ہی اپنا چہرہ دیکھ رہا تھا۔اتنا بھیانک اتنا خوف زدہ۔میری ماں تو کبھی کبھی کہا کرتی تھی میں چاند ہوں اسکا ۔اتنا بھیانک چاند ۔۔۔سوجے ہوئے  خون  سے چپکے  ہونٹ,زخمی آنکھیں ,ٹوٹے دانت جگہ جگہ پڑے  زخم اور کالا سیاہ چہرہ جو کبھی کالا لگتا اور کبھی نیلا ہوتا دکھائی دیتا۔میں اپنے آپ کو اس طرح دیکھ کر ڈر گیا۔ بھاگ کھڑا ہوا۔مجھے خود سے خوف آ رہا تھا۔

میں نے دیکھا میرے ماں باپ بھی رو رہے تھے۔۔کہ ظلم ہوا ہے۔ارے ظلم؟ ماں تو خود کہتی تھی مرد کو سہنا پڑتا ہے۔سہہ گیا تیرا ریحان سب کچھ زندگی کی ٹھوکریں بھی زندگی میں بھٹک کر اذیت بھی اور اتنی بھیانک موت بھی۔
مجھے دکھ ہو رہا تھا میرا ٹائم آنے نہیں دیا گیا۔مگر میں یہ کیا دیکھتا ہوں۔ آہ۔ ریحان کا ٹائم تو آ ہی گیا۔ریحان ٹی۔وی میں بھی آ رہا تھا۔کوئی حرامی نام سے نہیں بلا رہا تھا بلکہ ریحان کہہ رہا تھا۔ہر کوئی ریحان کا ذکر کر رہا تھا۔ہر شخص بہت دکھی تھا۔بڑے بڑے لوگ جو کبھی گزرتے تو مجھ سے میری زندگی کا حال تک نہ دریافت کرتے مجھے بھٹکتا دیکھ کر صحیح راہ کی نصیحت نہ کرتے ،وہ سب اب ریحان کی تصویریں لگا کر بیٹھے ہیں۔میری شرٹ بھی سُپر ہٹ ہو گئی۔ارے واہ۔ مر کر ہی سہی نام تو ملا مجھے۔ہر زبان پر ریحان کا نام اور ہر دل میں ریحان کا دکھ ہے۔

میں کھڑا اب ہنس رہا ہوں۔یہ انسان کیسے انسان ہیں، بھوکے کو روٹی اور ننگے کو کپڑے نہیں دیتے مگر ایک بھوکے ننگے کے مرنے پر افسوس میں مبتلا ہیں۔
یہی میرا ٹائم تھا۔جو لانے کے لئے مجھے مرنا پڑا۔میں نے بتایا دنیا کو کہ  اب اس دنیا میں تم لوگ پنجابی ,سندھی ,بلوچی , پٹھان مہاجر یا پھر اہل سنت, اہل تشیعہ, اہل حدیت اور دیوبندی سے نہیں پہچانے جاؤگے بلکہ اب تم “قاتل” اور “مقتول” سے پہچانے جاؤ گے۔اب تم لوگوں میں کچھ قاتل بنیں  گے ،کچھ مقتول۔میں ان پڑھ جاہل ,برائی کی طرف جانے والا, صرف برائی کا ارادہ کرنے پر مار دیا گیا۔اور مقتول بن کر پہچان پا گیا اور ہر زبان پر جاری ہو گیا اور وہ اصول پسند, برائی کو برا کہنے والے,مار نہیں پیار کا نعرہ لگانے والے,انسانیت کا درس بانٹنے والے,پڑھے لکھے لوگ مجھے مار مار کر قتل کرنے والے , خود قاتل بن کر رسوا ہو گئے۔

میرے جانے کا وقت ہو گیا ہے۔میرا بھیانک چہرہ ہمیشہ یاد رہے گا تم سب کو۔میرے حصے میں اس دنیا نے کوئی نیکی نہیں کی ،کوئی بھلائی نہیں کی۔کوئی اچھائی نہیں سکھائی۔میں تھا تو کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اس دنیا پر کوئی ریحان ہے۔ میں نہیں ہوں تو سب کو معلوم ہے ریحان تھا۔اور یہ ریحان ہمیشہ اب افسوس بن کر یاد رہے گا۔

ایک آخری گزارش ہے۔ریحان کو مار کر برائی روکنے والوں سے کہ  اگر برائی سے اتنی نفرت ہے تو برائی کرنے والوں کی اصلاح کی کوشش کر لیں۔کسی ایک “چھوٹے” کی زندگی سنوارنے کی کوشش کر لیں۔کسی چھوٹے کو حرامی کی بجائے اس کا نام لے کر پکارنے کی کوشش کر لیں۔کسی چھوٹے کو ڈنڈے مار مار کر مارنے کی بجائے اس کو کتابیں دلا دیں۔کسی چھوٹے کا ہاتھ اور پاؤں توڑنے کی بجائے اس کو انگلی پکڑ کر  درست  سمت ڈالنے کی کوشش کریں۔کسی ریحان کے دانت توڑنے اور ہونٹ زخمی کرنے کی بجائے اس سے دو بول ہمدردی کے بول کر اسکا دکھ سن لیں۔کسی ریحان کو سر عام ننگا کر کے اپنے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی بجائے کسی ننگے ریحان کے جسم پر کپڑا ڈال دیں۔اور کسی ریحان کو  زخمی کر کے موت کے منہ میں بھیج کر اس کا خون آلود سوجا ہوا نیل پڑا چہرہ ڈی۔پی پر لگا کر اور سٹیٹس لگا کر دکھ کرنے کی بجائے کسی زندہ ریحان کا گندہ چہرہ اور دماغ میں پھیلتی برائی اور نفرت کو دور اور صاف کرنے کی کوشش کر لیں۔کسی ریحان کا ٹائم آنے سے پہلے اسکا وقت چھیننے کی بجائے کسی ریحان کو اس کا وقت بدلنے میں مدد کر دیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں جا رہا ہوں۔امید کرتا ہوں۔آپ سب کی دنیا میں اب کوئی چوری نہیں ہو گی۔آپ کی دنیا میں اب صرف روشنی رہے گی۔سکون کا اجالا رہے گا۔کیونکہ برائی کا چراغ تو ریحان کو مار کر آپ سب نے بجھا دیا ہے۔پاک اور صاف معاشرہ مبارک ہو۔
معلوم نہیں اللہ تعالی بھی اب مجھے پہچانتے ہیں کہ  نہیں۔ کیونکہ میرا چہرہ بنانے والے نے تو اتنا بھیانک نہیں بنایا تھا جتنا انسانوں نے اسے بگاڑ دیا۔
ریحان دعا کرتا ہے کہ  اللہ تم سب کو قاتل اور مقتول بننے سے بچائے کیونکہ تم سب انسان اب قابلِ رحم ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply