• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستان کے دریائے سندھ میں پائی جانے والی نایاب ڈولفن۔۔۔۔ایڈووکیٹ شاہد محمود

پاکستان کے دریائے سندھ میں پائی جانے والی نایاب ڈولفن۔۔۔۔ایڈووکیٹ شاہد محمود

مقامی لوگ اس نایاب ڈولفن کو بھلن مچھلی کہتے ہیں- پاکستان میں پائی جانے والی میٹھے پانی کی ڈولفنز کی یہ نایاب قسم انڈس ڈولفن کہلاتی ہے- 19ویں صدی تک بھلن 3000 کلو میٹر طویل دریائے سندھ میں ہر جگہ موجود تھی لیکن ڈیمز اور بیراجوں کی تعمیر کی بدولت پانی کی کمی کے سبب اب یہ صرف دریا کے 619 کلومیٹر علاقے یعنی جنوبی پنجاب اور بالائی سندھ میں ہی پائی جاتی ہے۔

ڈولفن کی یہ نسل بنگلہ دیش، بھارت، نیپال اور پاکستان میں پائی جاتی ہے، جبکہ اسے عرف عام میں نابینا ڈولفن بھی کہا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جینیاتی طور پر ڈولفن کی یہ قسم نابینا نہیں ہوتی، بلکہ ایک اندازے کے مطابق جنوبی ایشیاء کے دریاؤں میں بڑھنے والی آلودگی اس کے نابینا ہونے کی اصل وجہ ہے۔

سال ۱۹۷۰ء سے ۱۹۹۸ء تک نابینا ڈولفن کی اقسام کے بارے میں کئی متضاد آراء قائم تھیں، لیکن ۱۹۹۸ء میں انہیں بالآخر ۲ مختلف قسموں میں تقسیم کیا گیا، جس کے مطابق نابینا ڈولفن کی ایک قسم بھارت، بنگلہ دیش اور نیپال میں دریائے برہم پتر اور گنگا میں پائی جاتی ہے، جبکہ دوسری قسم پاکستان کے دریائے سندھ میں پائی گئی ہے۔ اسی نسبت سے نابینا ڈولفن کی دونوں اقسام گنگا ڈولفن اور انڈس ڈولفن کے نام سے پہچانی جاتی ہیں۔ اس لحاظ سے پاکستان کے دریائے سندھ میں پائی جانے والی ڈولفن دنیا میں اور کہیں نہیں پائی جاتی اور انتہائی نایاب ہے-سمندری ڈولفن کی طرح میٹھے پانی کی انڈس ڈولفن کی بھی تھوتھنی لمبی اور آگے کی جانب نکلی ہوتی ہے، جس کی بناء پر انہیں دریائی ڈولفن کے طور پر پہچانا گیا ہے۔ دریائی ڈولفن کے بالائی اور نچلے جبڑے منہ بند رکھتے ہوئے بھی واضح ہوتے ہیں۔ چھوٹی مچھلیوں کے دانت تقریباً ایک انچ تک لمبے اور دیکھنے میں باریک اور ترچھے ہوتے ہیں۔ بلوغت کی عمر تک ان کے دانتوں میں کئی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہوتی ہیں، جن میں دانتوں کا چپٹا، سخت اور لمبوترا ہونا شامل ہے۔ اس کا رنگ بھورا ہوتا ہے جبکہ جسم کا وسط کالے سے بھورا نما ہوتا ہے۔ دریائی ڈولفن کی آنکھوں میں روشنی منعکس کرنے والے اعضاء کمزور پائے گئے ہیں۔ یوں تو ڈولفن روشنی اور اندھیرے میں فرق محسوس کر سکتی ہیں لیکن اس کی آنکھوں میں یہ تبدیلی ماحولیاتی آلودگی کا شاخسانہ سمجھی جاتی ہے۔ انڈس ڈولفن کا شمار ان جانداروں میں ہوتا ہے جن کی بقاء کو شدید خطرات لاحق ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انڈس ڈولفن ماحول کی بقا کیلئے کام کرنیوالے عالمی ادارے کی ریڈ لسٹ میں بھی شامل ہے۔ جنگلی حیات کے عالمی ادارے ورلڈ وائلڈ لائف نے اِسے تیزی سے معدوم ہوتے جانداروں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔

حالیہ تحقیق کے مطابق دریائے سندھ میں پائی جانے والی انڈس ڈالفن کی نسل مختلف طریقوں سے شکار کے باعث تیزی سے ختم ہو رہی ہے، جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بروقت اقدامات نہ اٹھائے گئے تو یہ مچھلی مکمل طور پر ناپید ہو جائے گی۔ انڈس ڈولفن کا شمار پاکستان میں پائی جانے والی نایاب مچھلیوں میں ہوتا ہے۔ مچھلی کے شکار میں اضافے اور مچھلی کے شکار کے لئے زرعی ادویات کے استعمال جیسے اقدامات سے انڈس ڈولفن کی نشوونما بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ جبکہ پانی میں بڑھتی ہوئی آلودگی بھی ان کی اموات کی ایک بڑی وجہ ہے۔ کچے کے علاقے میں زراعت کیلئے کھاد اور کیڑے مار ادویات کے استعمال کے نتیجہ میں زہریلے کیمیکل دریائے سندھ میں شامل ہو کر پانی کو زہریلا کر دیتے ہیں، جو بالآخر ڈولفن کی اموات کا سبب بنتا ہے جس وجہ سے انڈس ڈولفن کی صورتحال قابل تشویش ہے جسے مدنظر رکھتے ہوئے اس کمیاب نسل کے تحفظ کیلئے فوری اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔ انڈس ڈولفن کی اموات کا تعلق مچھلی کے شکار سے بھی ہے، اس لئے بہتر انتظامات اور اقدامات لازمی ہیں، جن کے تحت ڈولفن کے شکار پر پابندی لگا کر اس نایاب مچھلی کی نسل میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں انڈس ڈولفن بسا اوقات راستہ بھول کر دریائے سندھ سے نکلنے والی نہروں میں بہہ جاتی ہے جہاں راستہ تنگ ہونے کے باعث اکثر وہ پھنس جاتی ہے۔ سندھ کے محکمہ جنگلی حیات کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال ۳۵ انڈس ڈولفن دریائے سندھ کی زیریں نہروں میں بہہ گئیں، جن میں ان میں سے ۱۱ مردہ حالت میں ملیں، جبکہ ۱۳ مچھلیوں کو مختلف نہروں سے بازیاب کر کے واپس دریائے سندھ میں پہنچایا گیا۔ حال ہی میں متعدد ڈولفنز کو کھیرتھر اور دادو کینال میں پھنسا ہوا پایا گیا، تاہم آپریشن میں ۱۵ ڈولفنز کو بازیاب کرا لیا گیا ہے۔ جو احباب پاکستان کے اس قدرتی ورثے کے تحفظ اور افزائش نسل کے لئے کام کر سکتے ہیں انہیں ضرور آگے آنا چاہیئے اور انڈس ڈولفن کی ہرورش و نگہداشت کے لئے سے خصوصی اقدامات کرنے چاہئیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تصاویر انٹرنیٹ / گوگل سے لی گئی ہیں-

Facebook Comments

شاہد محمود
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply