ایک درست جواب ۔۔۔مشتاق خان

اکیسویں صدی کے آغاز سے پہلے ھی پاکستان پر دو کرپٹ سیاسی خاندانوں کی حکومت تھی یہ دونوں خاندان باری باری پانچ سال کے لئے حکومت بناتے اور دوسرا خاندان حزب اختلاف کا کردار سنبھال لیتا ۔
ان دونوں خاندانوں نے پاکستان کو لوٹ لوٹ کے کنگال کردیا تھا دو تین بار پاک فوج جو پاکستان کی سلامتی کی ضامن ھے نے ان سیاسی خاندانوں کو راہ راست پر آنے کا کہا لیکن ان سیاسی بدمعاشوں نے فوج کو بھی دوسرے اداروں کی طرح اپنے گھر کی لونڈی بنانے کی کوشش کی ملک کی تباہ ھوتی معاشی صورتحال کو دیکھتے ھوئے عدلیہ اور فوج نے اپنا کردار نبھایا اور جسٹس ثاقب نثار اور آرمی چیف نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کے ان سیاسی مافیاز کے خلاف مہم کا آغاز کیا اور ان سیاسی بدمعاشوں کو جیل میں قید کرکے پاکستان کے سب سے معتبر ایماندار بہادر شخص عمران خان کو حکومت بنانے کی دعوت دی عمران خان کی حکومت کو اس وقت سب سے بڑا چیلنج معاشی بدحالی اور بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کا مقابلہ کرنا تھا بھارت اس وقت اس پوزیشن میں تھا کے وہ پاکستان پر قبضہ کرلیتا اور پوری پاکستانی قوم ہندؤوں کی غلامی میں چلی جاتی ایسے میں عمران خان اور عسکری قیادت نے بھر پور دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ھوئے بھارت کو مجبور کیا کے وہ صرف ان علاقوں تک محدود ھوجائے جن پر وہ پہلے ھی قابض تھا بھارت پاکستانی قیادت کی چال میں آگیا اور اس نے کشمیر کے اس حصہ کو جس پر وہ پہلے ھی قابض تھا اس کو بھارت میں ضم کرنے کا اعلان کردیا پاکستان نے اس موقع کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا اور پوری دنیا کو ایٹمی جنگ کے خطرے سے ڈرا کے بھارت کو اس سے مزید آگے بڑھنے آزاد کشمیر پر حملہ کرنے یا بقیہ پاکستان پر حملہ کرنے خوف زدہ کردیا ۔
کشمیر کا تنازع جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو بہت زیادہ نقصان ھورہا تھا پاکستانی قیادت کے اس دانشمندانہ طرز عمل نے اس مسئلہ کو پر امن طریقے سے حل کرکے پاکستان کی معیشت کو ترقی کی راہ پر ڈال دیا جس کا ثمر آج پوری پاکستانی قوم کھا رہی ھے اتنے شاندار رہائشی پروجیکٹس اتنی بڑی بڑی فیکٹریاں اتنے شاندار پارکس ترقی یافتہ ممالک جیسے ساحل سمندر اور عوام پر امن ایک نظم و ضبط کے تحت ان فیکٹریوں میں ملازمت کرنے میں آزاد ھے پارکس اور بیچز کو دور سے دیکھ سکتے ھیں اور سب سے بڑھ کے اب ان کو کسی جنگ کا یا ہندؤوں کی غلامی کا کوئی خوف نہی یہ سب ایماندار صادق و امین قیادت کے بروقت صیح فیصلوں کا ثمر ھے

Advertisements
julia rana solicitors

مشتاق خان

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply