کیا عمران خان تیسرا آپشن نہیں رہے؟/ارشد بٹ

عمران خان ایسے گنجلک بھنور کا شکار ہو چکے ہیں جہاں سے نکلنے کی نہ وہ طاقت رکھتے ہیں نہ ہی صلاحیت۔ نہ ہی کوئی خلائی مخلوق انکو بھنور سے نکالنے کے لئے اپنا ہاتھ عمران خان کی طرف بڑھا رہی ہے۔

سوشل میڈیا پر عمران خان کی کھوکھلی دھمکیوں کے علاوہ معافی تلافی کے لئے مقتدرہ کی منت سماجت بھی کسی کا م نہ آ سکی۔ عوامی مقبولیت کے دعوے بھی عمران خان کی مشکلات کم کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہو رہے۔ جبکہ آئندہ انتخابات میں عمران خان کے لئے اقتدار کے تمام دروازے بند کرنے کا عمل جاری ہے۔ ایک طرف پی ٹی آئی کا شیرازہ بکھر رہا ہے تو دوسری جانب عمران خان کی انتخابی عمل سے بے دخلی اور نا اہلی کے چرچے زبان زد عام ہیں۔

۹۔ مئی کی مہم جوئی نے پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاؤن کا راستہ ہموار کر دیا۔ اس کے بعد ملک بھر میں پی ٹی آئی کے ہزاروں کارکن اور لیڈر گرفتار ہوئے ، مگر گرفتاریوں کے خلاف عمران خان آج تک احتجاج کی ایک کال نہیں دے سکے۔ اس دن سے پی ٹی آئی کی سیاسی سرگرمیاں معطل ہو چکی ہیں۔ نہ پارٹی کے تنظیمی اجلاس، نہ ہی کسی عوامی جلسہ، جلوس، ریلی یا احتجاج کی کال دی جا رہی ہے۔ پارٹی کارکنوں سے عمران خان یا پارٹی کی بچی کھچی قیادت کا رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ عمران خان کی سرگرمیاں یو ٹیوب پر وی لاگ کرنے یا عدالتوں کے چکر لگانے تک محدود ہو چکی ہیں۔ حتیٰ کہ گرفتار کارکنوں کی قانونی مدد کے لئے کوئی مربوط وکلا کمیٹی کام کرتی نظر نہیں آ رہی۔

حکومت اور ریاستی ادارے عمران خان اور پی ٹی آئی کو سیاسی اپاہج بنانے کے لئے ہر طرح کے قانونی اور غیر قانونی حربے استعمال کر رہے ہیں۔ ریاست کے غیظ و غضب کے سامنے اعلیٰ عدلیہ بھی ہاتھ ملتی نظر آ رہی ہے۔ مہم جوئی میں مبینہ ملوث پی ٹی آئی کارکنوں اور لیڈروں کے خلاف ریاستی کاروائیوں کے خلاف بندیال کورٹ کے سوو موٹو نوٹس نہ لئے جانے پر عمران خان کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ نام نہاد الیکٹیبلز اور موثر امیدواروں کے علاوہ عمران خان کے قریبی ساتھیوں، مرکزی کور کمیٹی، مرکزی کمیٹی، پارٹی کے مرکزی و صوبائی عہدیداروں کی ایک طویل فہرست ہے جو عمران خان کا ساتھ چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ عمران خان کے سوشل میڈیا پر خطابات کے علاوہ گراونڈ پر پی ٹی آئی کا وجود کہیں نظر نہیں آ رہا۔ پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار کرنے والوں نے پنجاب میں پاکستان استحکام پارٹی اور خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کے نام سے علیحدہ سیاسی جماعتوں کا اعلان کر دیا ہے۔

عمران خان کی مقبولیت کے دعوے اپنی جگہ اہم ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ عمران خان کی عوامی مقبولیت کے دعوے الیکشن نتائج پر کس قدر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ کیا پنجاب اور سندھ خصوصاً کراچی میں پی ٹی آئی کو انتخابات میں حصہ لینے کے لئے موثر امیدوار میسر ہوں گے۔ پنجاب اور کراچی کے انتخابی و سیاسی مزاج کی روشنی میں ، پی ٹی آئی کی مخدوش صورت حال اور عمران خان کے غیر یقینی سیاسی مستقبل کو دیکھتے ہوئے ، با اثر انتخابی امیدواروں  کا پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑنا مشکل نظر آ رہا ہے۔ اس لئے بیشتر انتخابی حلقوں میں پی ٹی آئی کو موثر امیدوار میسر نہ ہونے کی وجہ سے عمران خان کا مقبولیت کا دعویٰ انتخابی نتائج میں ظاہر نہیں ہونے پائے گا۔ خیبر پختون خوا  کے کچھ مخصوص علاقوں میں پی ٹی آئی کی موثر موجودگی کی وجہ سے وہاں بہتر انتخابی نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔ جبکہ اندرون سندھ اور بلوچستان میں پی ٹی آئی کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن طویل کٹھنائیوں کا مقابلہ کر تے ہوئے سیاسی عمل سے گزر کر ملک کے طول و عرض میں مضبوط جڑیں بنا چکی ہیں۔ پی پی پی جنرل ایوب، جنرل یحیٰ، جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے آمرانہ ادوار کے خلاف جمہوری جدوجہد اور قربانیوں کی طویل تاریخ کی وارث ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی شہادتوں کے علاوہ سینکڑوں سیاسی کارکنوں کی شہادتیں اور قربانیاں پی پی پی کا عظیم ورثہ ہے۔ ن لیگ کی قیادت نے جنرل مشرف کے خلاف مزاحمت کر کے اپنے جمہوری سفر کا آغاز کیا۔ میاں نواز شریف کی اسٹبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت نے اس جماعت کے جمہوری کردار کو مزید تقویت دی۔ پی پی پی اور ن لیگ کے درمیان میثاق جمہوریت دونوں جماعتوں کی سیاسی بالغ نظری کی ایک زندہ مثال ہے۔ اس کے با وجود ان دونوں جماعتوں کی سیاسی کج رویوں اور موقع  پرستیوں سے آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ مگر اسٹبلشمنٹ کی طاقت کے بل بوتے پر مصنوعی تیسرے آپشن کے ذریعے ان جماعتوں کی قیادت کو سیاسی منظر سے ہٹانے یا عوام میں انکے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کو درست عمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے مقابلے میں ایک نام نہاد تیسرا آپشن لانےکی تھیوری عملی سیاست میں دم توڑ چکی ہے۔ تیسرے آپشن کا بت تراشنے والے سنگ تراش نے اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بت کو ریزہ ریزہ کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ تیسرا آپشن یعنی عمران خان اقتدار کھو نے اور مقتدرہ کے صفحہ سے گرنے کے بعد اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا ہے ۔ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد عمران خان نے عقل و خرد سے سیاسی فیصلے کرنے کی بجائے جذبات کی رو میں بہتے ہوئے دیوار سے سر ٹکرا کر سیاسی خودکشی کر لی ہے۔ ایک مقبول تیسرا آپشن گھڑنے کے تجربے سے اسٹبلشمنٹ کو خجالت و شرمندگی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوا۔

اب ایک تیسرے آپشن کی تھیوری کو پس پشت ڈال کر چھوٹے چھوٹے متبادل انتخابی میدان میں متعارف کرانے کے آپشن کو آزمایا جا رہا ہے۔ یہ اس لئے کہ پی پی پی اور ن لیگ کو اب پاکستان کے سیاسی منظر سے ہٹانا ممکن نہیں رہا۔ مگر ان کو دباؤ میں رکھنے کے لئے پارلیمنٹ میں متعدد چھوٹے چھوٹے گروہوں کی موجودگی یقینی بنانا مقتدرہ کے مفادات کے تحفظ کے لئے ضروری سمجھا جا رہا ہے۔ مگر نام نہاد تیسرا آپشن انجام سے قبل اپنا کرداربخوبی نبھا گیا۔ جس کے نتیجے میں پی پی پی اور ن لیگ نے مقتدرہ سے مزاحمت نہ کرنے کا سبق بہت اچھے طریقے سے ذہن نشین کر لیا۔ لگتا ہے حالات کے تقاضوں کے تحت جیسے پی پی پی اور ن لیگ نے مقتدرہ سے نبھا کرنا سیکھ لیا ہے ایسے ہی مقتدرہ نے بھی ان دونوں سیاسی حقیقتوں کے وجود کو تسلیم کر لیا ہے۔ آج پاکستان کے غیر یقینی سیاسی ماحول میں ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں عمران خان کے سیاسی مستقبل کا آپشن دور دور تک نظر نہیں آ رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اشرافیہ اور اسٹبلشمنٹ کے سیاسی کھیل میں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ پچیس کروڑ انسانوں کے ملک میں جمہوری قوتوں کے لئے سیاست کی راہیں بند ہو چکی ہیں۔ پی پی پی، ن لیگ اور پی ٹی آئی اپنی طبقاتی ساخت میں اشرافیہ طبقوں کی نمائندہ جماعتیں ہیں۔ بلا شبہ ان جماعتوں میں درمیانے طبقے کے لوگ بھی شامل ہیں۔ مگر ان جماعتوں کی قیادت اور منتخب ایوانوں میں نمائندوں کی واضع اکثریت اشرافیہ طبقوں سے ہوتی ہے اور عمومی طور پر انہی کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ جمہوری عمل کے تسلسل سے درمیانہ طبقے، نچلے درمیانہ طبقے، محنت کشوں، دہی مزدوروں، تعلیم یافتہ پیشہ ور ماہرین، پرائیویٹ و سرکاری ملازمین وغیرہ کے مفادات کی ترجمانی کرنے والی سیاسی جماعتیں معرض وجود میں آ سکتی ہیں۔ جمہوری نظام کے تسلسل میں عوامی جمہوری قوتوں کے لئے آگے بڑھنے کا آپشن کبھی ختم نہیں ہوتا ۔ عوامی طبقوں کی نمائندہ عوامی جمہوری سیاسی جماعت کے سیاسی منظر نامے پر ابھرنے کا آپشن کھلا رہتا ہے۔ جس کا اشرافیہ طبقوں اور اسٹبلشمنٹ کے سیاسی کھیل تماشا سے دور کا واسطہ نہیں ہوتا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply