• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بک ریویو /ہزار آئنہ ۔۔۔۔ فیروز ناطق خسرو/تبصرہ:محمد فیاض حسرت

بک ریویو /ہزار آئنہ ۔۔۔۔ فیروز ناطق خسرو/تبصرہ:محمد فیاض حسرت

کتاب ہزار آئینہ ، حمد باری تعالی ، نعت ، منقبت اور سلام پر مشتمل ہے ۔ حمد یعنی ، باری تعالیٰ کی تعریف میں کچھ کہنا ۔ سوچا جائے تو ذہن بات کو صاف کر دیتا ہے کہ وہ ہستی جو ہر شے پہ قادر ہے اُس کی تعریف کرنا ہمارے بس میں نہیں ۔ باری تعالیٰ کا قرآن میں ارشاد ہے جس کا مضمون کچھ یوں ہے کہ “اگر عالم کے سارے سمندر سیاہی بن جائیں اور عالم کے سارے درخت قلم بن جائیں اور عالم کے سبھی جاندار صرف خدا کی شان لکھنے میں لگ جائیں تو وہ سیاہی ختم ہو سکتی ہے ، وہ قلم ختم ہو سکتے ہیں وہ جاندار ختم ہو سکتے ہیں لیکن میری باتیں ختم نہ ہوں گی ، میری شان کہیں بھی جاکے ختم نہ ہونے والی ہے ۔ ہاں اپنے حصے کی شمع ضرور جلانی چاہیے ۔ کیونکہ یہ شمع آنے والی نسلوں کو روشنی مہیا کرے گی ، اور جو شمع خسرو صاحب نے جلائی ہے یقیناً اس شمع سے ان کی اور کئی اور نسلوں کو روشنی میسر آئے گی ۔ فیروز خسرو صاحب نے اپنے اہل و عیال کو جو وصیت کی میں وہ یہاں مکمل پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔
ہونٹوں پہ حمد، نعت و مناقب ، سلام ہوں
جو ” آئینہ ہزار” مقابل ہو صبح و شام
بعد از سلام نذر کروں گا یہی سخن
منکر نکیر شوق سے پوچھیں نشان و نام
میری لحد میں ہو مرے سینے پہ یہ کتاب
اولاد پر ہے فرض وصیت کا احترام
خسرو بروزِ حشر شفاعت کے واسطے
پیشِ حضورؐ جاؤں گا لے کر یہی کلام
کتاب ہزار آئینہ کا پہلا حصہ مطالعہ کرتے ہوئے، شانِ خداوندی پڑھتے ہوئے جہاں سبحان اللہ ، ما شا اللہ اور بیشک کی صدائیں بلند ہوتی ہیں وہاں قاری کو اپنے بارے میں یہ شدت سے محسوس ہوتا ہے کہ باری تعالی کی محبت سے اُس کا دل خالی ہے اور اُسے یہ کتاب عظم کرواتی ہے کہ اُس کا دل بھی باری تعالی کی محبت گرفتار ہو گا۔ حمد میں سے کچھ منتخب اشعار اور نظم آپ کی خدمت میں پیش ہیں ۔

نہ جانے کیوں ہے تو اتنا پریشاں
وجود اُس کاہے نزدیکِ رگِ جاں

نمازِ شوق پڑھ کچھ جستجو کر
کبھی تو خونِ دل سے بھی وضو کر

جو چاہے جس کو چاہے عطا جس طرح کرے
تو جانتا ہے کب ، کسے کس طرح کیا ملے

پھر یہ نبضوں میں کس لیے تیزی
کیوں نظامِ جہاں یہ برہم ہے

میں بھی “میں” کا شکار ہوں خسرو
کم نہیں یہ جو تجھ میں ہم ہے بہت

حمدیہ نظم ، “نہ میں کافر نہ تو کافر” کا آخری حصہ ۔
گنہگاروں کی پرسش
نیکو کاروں کی فراغت پر!
جہنم کی بھڑکتی آگ
جنت کی بشارت پر !
خدائے لم یزل کے روبرو
قائم عدالت پر!
یقیں میرا
یقیں تیرا
نہ تو کافر
نہ میں کافر !!

نظم ، “رمئی جمرات “کا آخری حصہ ۔
منیٰ کی وادی میں سر برہنہ کھڑا ہوا تھا !
وجود میں میرے وہ جو شیطان پل رہا تھا
مرے مقابل وہ بت کے قالب میں
ڈھل چکا تھا!
میں سات کنکر اُٹھائے ہاتھوں میں
اپنے محکم یقین کے ساتھ!
“رمئی جمرات” کر رہا تھا !!

نظم ، “عرفات “آخری حصہ ۔
میرے جیسے گنہگار !
عرفات سے جب چلے
طفلِ نوزائیدہ کی طرح
اپنی فطرت میں سب ایک تھے!
نیک تھے!
ہر طرف یہی آ رہی تھی صدا
کوئی مقصود اپنا نہ مسجود ہے!
تو ہی واحد ہے ، یکتا ہے ، معبود ہے!
لا شریک لک ، لاشریک لک!
لا شریک لک ، لاشریک لک!!

مرا یہ دعویٰ غلط نہیں ہے!
کہ خود سے بہتر میں اُس کے بارے میں جانتا ہوں !
یہ جانتا ہوں کہ میرے بارے میں مجھ سے بہتر
وہ جانتا ہے !
10۔
(قرض)
میں جب آیا تھا
پاک وصاف و پاکیزہ فرشتہ تھا
فرشتہ تھا اور اپنے رب کا
فرشِ خاک پر میں نیک بندہ تھا
مجھے واپس بھی جانا ہے
پلٹ کر پھر اُسی کے پاس
اُس چہرے کو لے کر
ساتھ جس چہرے کے آیا تھا
نہ میرا جسم ہو گندہ
نہ میری روح آلودہ
یہ میرا فرض بنتا ہے
یہ مجھ پہ قرض بنتا ہے
11۔
( اے خدائے امکانات)
آنے والے وقتوں میں
کیا یہاں پہ ایسا بھی
ایک بھی کوئی دن ہے
جب کسی کے لاشے پر
بام و در نہ روتے ہوں !
بے خطر گھروں میں لوگ
اپنی نیند سوتے ہوں!
اے خدائے امکانات !
امن کی کوئی صورت
کیا ابھی بھی ممکن ہے!!

کسی لکھاری کے لیے اِس سے بڑی سعادت اور کیا ہو سکتی ہے کہ اُسے اپنی بھر پور جوانی میں نعت لکھنے کی سعادت حاصل ہو ۔ نعت یعنی ، وجہ ِ کائنات ، محبوبِ خدا حضرت محمد ؐ کی تعریف میں کچھ بیاں کرنا ۔میں سمجھتا ہوں کہ نعت لکھنے کی سعادت اُسے ہی حاصل ہوتی ہے جس کا دل اس پاک ہستی، حضرت محمدؐ کی محبت میں گرفتا ر ہو چکا ہو ۔ فیروز ناطق خسرو صاحب کو اپنی جوانی میں نعت لکھنے کی سعادت حاصل ہوئی یہ بڑی خوش نصیبی اُن کےلیے اور محبت دیکھیے کہ ابھی تک نعت سے بھرپور رشتہ قائم کیے ہوئے ہیں ۔نعتیہ کلام میں سے کچھ اشعار آپ کی نذر کیے جاتے ہیں ۔

اللہ کے حبیبؐ کی میں کیا ثنا کروں
اللہ کا حبیب ؐ لکھا اور سخن تمام

اک نام جو بن جائے شفاعت کا وسیلہ
اندر سے مرے آئی صدا نامِ محمدؐ

کسی سفینے سے پہنچے ، کسی بھی زینے سے
دعا کا گہرا تعلق ہے دل سے،سینے سے

پرچا کٹا ہوا ہے گرفتارِ رنج ہوں
آ جائیے حضورؐ شفاعت کے واسطے

اے فخرِ مسیخا تری قربت کا ہے اعجاز
اچھا ہے دمِ مرگ بھی بیمار کا عالم

اے کاش رہے ہاتھ میں آئی ہوئی جنت
تا عمر میں پکڑے رہوں روضے کی یہ جالی

لازم ہے کہ جس منہ سے کریں ذکر نبیؐ کا
اس منہ سے نہ نکلے کوئی کوسا، کوئی گالی
غالب کی زمیں میں مولا علی کے قصیدے میں سے ایک شعر یہاں پیش کرنا چاہوں گا ۔

دوستو آؤ کہ شہرِ علم میں
داخلے کا ہے یہی اک در کھلا

بیاں کرے کیا کوئی فضائل، ہو مردِ میداں کہ در پہ سائل
نہ اُس کے جیسا کوئی جری تھا نہ اُس کا ہمسر کوئی سخی تھا (منقبت ،حضرت علی )

جب لکھا میں نے کتابِ دل پہ نامِ فاطمہ
خامہ اٹھ اٹھ کر جھکا بہرِسلامِ فاطمہ (منقبت ،حضرت فاطمہ زہرا )

بس اس خیال سے، آپس میں ہو نہ خوں ریزی
اُتر کے تختِ شہی سے وہ آرہا ہے حسن (منقبت ، امام حسن)

فیروز صاحب کی منظر کشی دیکھیے کربلا کےمنظر کو کس طرح سے کھینچتے ہیں ۔
ایک ہی سر ہے محوِ تلاوت نیزے پر
ایک ہی سر پر سجتی ہے دستار بہت

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر میں فیروز خسرو صاحب کی نذر اپنی ایک معمولی کوشش۔
کیا کرے تعریف اُس کی، وہ بھی بندائے خدا
جس پہ یہ ذی روح کیا ؟ عالم سبھی نازاں ہوئے (حسرت)

Facebook Comments

محمد فیاض حسرت
تحریر اور شاعری کے فن سے کچھ واقفیت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply