برسوں سے سلگتی وادی ِ چنار دھکتا ہوا آتش فشاں بن کر ابل رہی ہے۔ کشمیر کی گلی گلی، کوچہ کوچہ آزادی، آزادی کے نعروں سے گونج رہا ہے۔1947 کے بعد برس ہا برس انڈین فورسز کی ستم ظریفیوں اور وحشیانہ تشدد سہنے کے باوجود اب کشمیریوں کی چوتھی، پانچویں نسل آزادی کی نئی تاریخ لکھنے کو تیار ھو رہی ہے۔ کشمیر میں انڈیا سے مکمل آزادی کا لاوا پک رہا ہے۔ کشمیر کی نئی نسلیں کشمیر کو ایک آزاد اور خودمختار ملک دیکھنا چاہتی ہیں۔ “کشمیر بنے کا پاکستان” کا نعرہ صرف پاکستانی ٹی وی چینلوں کی زینت بنتا جا رہا ہے۔
کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور اسے انڈین یونین میں مدغم کرکے مودی حکومت نے اپنے تئیں کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر درحقیقت مودی حکومت نے آئین سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کرکے انڈیا کے ساتھ کشمیر کے الحاق کی بنیاد ختم کر دی ہے۔ اس آرٹیکل کے خاتمے کے بعد کشمیر ایک آزاد اور خودمختار مملکت کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جس پر انڈیا کا ناجائز اور غاصبانہ قبضہ ہے۔ مودی حکومت کی نئی کارستانی کے بعد انڈیا کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو اور کشمیری لیڈر شیخ عبداللہ کے مابین کشمیر کے انڈیا کے ساتھ الحاق کا معاہدہ کالعدم قرار پا چکا ہے۔
خصوصی حیثیت ختم کرکے کشمیر پر مستقل غاصبانہ تسلط قائم کرنے کے اعلان کے بعد کشمیر انڈین مسلح افواج کے محاصرے میں ہے۔ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کی معطلی، کرفیو کے نفاذ، گرفتاریوں، پولیس تشدد اور اندھا دھند فائرنگ کے بادجود کشمیر میں احتجاجی مظاہرے نہ رک پائے۔ کشمیری مزاحمت کاروں کے سڑکوں، گلیوں، بازاروں اور محلوں میں آزادی، آزادی کے نعروں کی گونج، تحریک آزادی کشمیر میں ایک نئی روح پھونک رہی ہے۔
دہلی یونیورسٹی کے طلبہ،کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، امن پسند اور ترقی پسند انڈین دانشور کھل کر کشمیری عوام کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ مغربی ممالک کے اخبارات اور ٹی وی چینل بھی کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر خاموش نہ رہ سکے۔ پرامن احتجاج اور اظہار رائے کو روکنے کے لئے کرفیو کی پابندی، پُرامن عوام پر مسلح فورسز کے تشدد اور فائرنگ، انسانی حقوق کی پامالی، سیاسی قائدین اور پُرامن احتجاجی عوام کی گرفتاریوں پر انسانی حقوق کی تنظیمیں تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔ مغربی ممالک میں آباد کشمیریوں اور پاکستانیوں کے مظاہرے مقامی عوام، انسانی حقوق کی تنظیموں، سیاسی جماعتوں اور ذرائع ابلاغ کے سامنے مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
انڈیا کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے حق کو تسلیم کیا تھا۔ 1965 کی جنگ کے بعد معاہدہ تاشقند میں انڈین وزیراعظم لال بہادر شاستری کشمیر کی متنازعہ حثیت تسلیم کر چکے تھے۔ اس کے علاوہ انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی نے پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ شملہ معاہدہ میں تنازعہ کشمیر کو باہمی بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا عہد کیا۔ لاہور میں انڈین وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ اعلان لاہور کے ذریعے پُرامن مذاکرات سے مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرنے کا عہد دہرایا۔ بعدازاں واجپائی نے جنرل مشرف کے ساتھ تنازعہ کشمیر حل کرنے کے لئے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا۔ بقول خورشید محمود قصوری کے واجپائی مشرف مذاکرات کے نتیجہ میں پاکستان اور انڈیا تنازعہ کشمیر حل کرنے کے قریب پہنچ چکے تھے اور ایک معاہدے کا مسودہ تیاری کے آخری مراحل میں تھا۔ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی حمایت سے پرہیز کرنے کے باوجود عالمی راہنماؤں اور اقوام متحدہ کے بیانات میں کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو تسلیم کیا گیا۔
انڈین یونین میں مدغم کرنے کے اعلان سے نہ تنازعہ کشمیر کی حقیقت بدلنے والی ہے اور نہ ہی کشمیری عوام کے حق خوداختیاری کا جذبہ ماند پڑنے والا ہے۔ مودی حکومت کے اس وار سے وادی چنار کا بچہ بچہ آزادی کے لئے جدوجہد کرنے کے لئے پرعزم دکھائی دیتا ہے۔ تیس سال سے نام نہاد جہادی مسلح کاروایاں اور ہزاروں نہتے کشمیریوں کی شہادتیں کسی قسم کا عوامی ابھار پیدا کرنے میں بری طرح ناکام رہیں۔ عالمی سطح پر نام نہاد جہادی مسلح سرگرمیوں کو دہشت گردی گردانا جاتا رہا۔ نام نہاد جہادی سرگرمیوں کی وجہ سے کشمیری حق خوداختیاری کی جدوجہد عالمی رائے عامہ کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ عالمی سطح پر انڈیا کشمیر کی قومی خود مختاری کی جدوجہد کو دہشت گردی قرار دلانے میں کامیاب ہوتا رہا۔
پاکستان مسئلہ کشمیر پر عالمی رائے عامہ بشمول مسلم ممالک، کو ہمنوا بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ کشمیریوں کی جدوجہد کا ساتھ نہ دینے پر نام نہاد اسلامی بلاک اور مسلم اُمہ کے ڈھکوسلے کی قلعی پاکستانی اور کشمیری عوام کے سامنے کھل چکی ہے۔ کشمیری عوام کے پرجوش اور پرامن مظاہروں اور انسانی حقوق کی پامالی سے عالمی رائے عامہ تنازعہ کشمیر پر توجہ دینے پر مجبور ہو رہی ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف اور حق خوداختیاری کے لئے سیاسی اور جمہوری جدوجہد کا راستہ کشمیری عوام کی تحریک آزادی کو درست سمت پر ڈال سکتا ہے۔ اب وقت آچکا ہے کہ پاکستانی ریاست “کشمیر بنے کا پاکستان” کی غلط فہمی سے نکل آئے۔ کشمیری عوام توقع کرتے ہیں کہ پاکستان سیاسی اور سفارتی سطح پر کشمیر کا مقدمہ عالمی رائے عامہ کے سامنے پیش کرنے میں کوتاہی سے کام نہیں لے گا۔
نام نہاد جہادیوں کی مذہب کے نام پر مسلح کارروائی سے عالمی رائے عامہ کا موڈ بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔ اس طرح دہشت گردی ختم کرنے کے بہانے کشمیری تحریک آزادی کو وحشانہ ریاستی طاقت سے کچلنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ حق خوداختیاری کی جدوجہد پر مذہبی اور نام نہاد جہادی عناصر کا رنگ غالب لانے کی کوشش تازہ دم ابھرتی ھوئی تحریک آزادی کشمیر کے لئے زہرقاتل ثابت ہوگی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں