• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • امریکی پاکستانیوں کی محبت کو ٹیکنکل انداز میں کیش کرانے کی ضرورت ہے۔۔۔۔ سلمیٰ اعوان

امریکی پاکستانیوں کی محبت کو ٹیکنکل انداز میں کیش کرانے کی ضرورت ہے۔۔۔۔ سلمیٰ اعوان

لاؤنج میں گھر کی عورتیں جو عمران خان کی عاشق ،صادق اُس کی سر گرم سپوٹرز، اس کی ووٹرز، ٹرمپ کے ساتھ اُس کی میٹنگ کا حال دیکھنے بیٹھی تھیں ۔ اس کرشماتی لیڈر کا حامی تعلیم یافتہ مڈل کلاسیا طبقہ اس کے حالیہ متعدد فیصلوں، حکومتی طورطریقوں اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ہاتھوں پر یشان اُس سے قدرے خفا سا تھا۔ آکسفورڈ  ونیورسٹی کا پڑھا ہوا عالمی سطح پر جانا پہچانا یہ شخص دنیا کی سپر پاور کے سامنے ملک کی نمائندگی کِس انداز میں کرتا ہے اس کی نیک نامی میں کچھ اضافے کا باعث بنتا ہے یقیں ہوجاتا ہے کہ اس کے  بارے جاننے کی بے تابی ان عورتوں کے ہر انداز سے عیاں تھی۔ماضی کے کچھ سربراہ تو اِس ضمن میں  بڑے ہی بونگے ثابت ہوئے تھے۔
امریکی پاکستانیوں کا میلہ اس نے لوٹا تھا ۔ مگر لاﺅنج میں بیٹھے مجمع کی رائے تھی کہ اِس محبت کو بے حد ٹیکنیکل اور ٹھوس انداز میں کیش کرانے کی ضرورت تھی ۔ کپتان کو اب 2=1+1 اور5=3+2 پر سیدھے سیدھے انداز میں آنے کی ضرورت ہے ۔ باتوں کا وقت گزر گیا اور کام وہ بھی منصبوبہ بندی والے کی اشد ضرورت ہے ۔
ٍ تاہم ون ٹوون ملاقات میں اس کا لباس، اعتماد ،گفتگو کا انداز اور اپنے موقف کااظہارعمدگی سے ہوا ۔جس کی دل کھول کر تعریف ہوئی۔مسئلہ کشمیر پر مجمع کی عورتوں نے اس کے بیانیہ کو اہمیت اور پذیرائی دی۔ اور کہا کہ شکر ہے کسی نے جرات مندانہ طریقہ سے اس پر زبان تو کھولی ۔انڈیا کو بھی سیاپے میں ڈال دیا۔تاہم بہت زیادہ توقعات وابستہ کرنے کی ضرورت نہیں کہ دونوں لیڈر کچھ پلے بوائے ٹائپ شہرت کے حامل ہیں۔یوٹرن لینا دونوں کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں۔
گفتگو کی پٹڑی پر تیز رفتاری سے بھاگتے ہوئے اس باگڑ بلّے نے جونہی متکبرانہ انداز میں ایک ایسی بات کہی جسے سنتے ہی بڑی بھتیجی نے دہل کر اُسے کوسنوں اور بتروں کی سان پر رکھ لیا۔
” لو دیکھو ذرا کیسے منہ بھر کر کہا ہے۔ میرے لیے افغان مسئلہ حل کرنا کون سا مشکل کام ہے۔یہ تو میرے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ بس بات اتنی سی ہے کہ بندہ ایک کروڑ پھڑکانا پڑے گا۔ گویا یہ بندے گوشت پوست کے جذبات و احساسات رکھنے والے انسان نہیں۔بس چونٹیاں ہیں جنہیں مسل دینا تو کوئی بات ہی نہیں۔“
بڑی بہو نے پل نہیں لگائےا اور بول اُٹھی ۔ ارے بھئی شکر کروکہ اِس ککّے بھگّے نے پھر بھی شرافت سے کام لیا کہہ دیا ایک بار نہیں دو تین دفعہ کہ میں ایسا کرنا نہیں چاہتا۔ وہ اگر یہ نہ بھی کہتا تو کِس کی مجال تھی کہ وہ انگلی اٹھا کر اُسے طعنہ مارتا شرم تو نہیں آتی۔سپر طاقت کے نمائندے ہو اور کس قدر گھٹیا بات کررہے ہو۔پتہ نہیں ہم جیسے ماٹھے تیری دنیا کے غرےبڑے اور اخلاقیات کے مصنوعی خولوں میں لپٹے لوگ آخر سُپر پاور سے ایسی توقعات کیوں باندھتے ہیں ؟ ہمارے اپنے معاشروں میں بڑے زمیندار، جاگیردار ہی نہیں مان ۔ اُن کی ذات سے جڑی جملہ خرابیوں کے ساتھ اُن کا منہ پھٹ اور ہتھ جھٹ ہونا بھی لازمی امر ہے ۔ توبھئی اب اگر دنیا کی سپر پاور کے اس طنطنے اس رعونت، تکبر اور گھمنڈکا اظہار ہوتا ہے تو پھر لعن طعن کا جواز باقی نہیں رہتا۔
اب چھوٹی بہو میدان میں کودی اور زور دار لہجے میں بولی ۔
نہیں بھئی رہتا ہے کہ ہم انہیں مہذب ،صاحب علم اور متمدن خیال کرتے ہیں ۔ انصاف اور عدل کے جو معیار اور پیمانے وہ اپنے لوگوں کے لیے وضع کرتے ہیں کچھ ایسی ہی توقعات ہم اپنے لیے بھی چاہتے ہیں ۔ تاہم ان کے دہرے معیار اور مفادات سامنے آتے ہیں تو تکلیف اور دکھ کے ساتھ ساتھ لعن طعن کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ سُپر پاور کا تاج خدا کسی قوم کے سر پر ایسے تو نہیں سجاتا۔ کچھ تقاضے تو پورے کرنے اس کے بنتے ہیں نا ۔
میری ممیری بہن نے بھی لقمہ دینا ضروری سمجھاتھا اب یہ تو ہم جیسے چھوٹے ذہنوں والوں کی سوچ ہے کہ کیسے منہ بھر کہ کہا کہ ایک کروڑ بندہ مارا جائےگا۔سینکڑوں کے مقابلے پر لاکھوں نہیں کروڑ بندہ۔سلطان راہی یاد آیا ہے۔اِس کا منہ بھر کر کہنا” ٹبر بھی کھا جاواں تے ڈکار نہ ماراں “تو ہنسی سے لوٹ پوٹ کرجایا کرتا تھا۔پر اِس نے تو لرزے کی سی کیفیت طاری کر دی ہے۔
بحث مُباحثے کا دروازہ کھل گیا تھا ۔ بھانجی نے بھی بولنا ضروری سمجھا تھا ۔
اب اگر سچی بات کی جائے اور تاریخی حوالوں سے کی جائے تو پھر سچ یہی ہے اور ہے بھی بڑا کڑوا کہ ان کا تکبّر، ان کا غرور تو بھئی یہ بیماری تو اِن کے بیشتر صدور کو رہی ہے اور اُن کے لیے چار پانچ لاکھ بندہ مارنا تو گویا کھیل تماشے والی بات ہے۔
بُش سنئیرہوں یابُش جونیئرسب ایک دوسرے کے باپ تھے۔عراق کو برباد کردیا۔ تباہ کردیا۔دنیا کی سُپر پاور نے حملے کے لیے بہانے کس قدر جھوٹے اور بے بنیاد گھڑے۔صدام سے تمہارا اختلاف ہے مروا دو اُسے بھئی۔چار لاکھ لوگوں کو موت کی بھینٹ تو نہ چڑھاﺅ۔ہزاروں بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوہ نہ بناﺅ۔دنیاکو ایٹمی بیماریوں کے تحفے نہ دو۔ دنیا کو اچھا نہیں کرسکتے تو اِسے خراب بھی نہ کرو۔مگر نہیں جی کون سُنے۔یورپ احتجاجی بینروں کے ساتھ سڑکوں پر نکل آیا۔پوری دنیا سراپا احتجاج تھی مگر تکبّر سے بپھرے ہووں نے کسی کی بات سُنی۔ایک تو مصیبت یہ تاریخ میں بڑے کمزور ہیں۔ اب اِن کے سفارت کار ریان سی کرو کرRayan Croker نے دونوں بار کہا۔افغانی اور عراقی دنیا کی مشکل اور عجیب سی قومیں ہیں ۔اِن سے پنگے نہ لو مگر نہیں جی پنگے لینے کا تو ہمیں بڑا شوق ہے۔ وہ تو لینے ہیں۔ پھر سر بازار جوتے بھی کھانے ہیں۔ بلا سے منتدل الذیدی نے جیل کاٹی پر تاریخ میں امر تو ہوگیا کہ یہی وہ جیا لا ہے جس نے بُش کے بُوتھے پر جوتا مارا تھا۔
ہمارے گاﺅں کا نمبردار یا زمیندار وڈیرا کِسی کمی کمین کو مارے تو خبر نہیں بنتی مگر اگر کہیں کسی کمی کمین نے زمیندار کو کچھ ٹھوک دیا تو سارے گاﺅں میں سنسنی پھیل جائے گی۔
تاریخ سے سبق بھی نہیں سیکھتے ہیں کہ ابراہم لنکن کی طرح کوئی اچھا کام کرکے امر ہوجائیں۔
کچھ وقت پہلے میں نے سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک اہم فرد کارل روKaral Rove کی ایک رپورٹ پڑھی تھی۔یقین مانو میرا تو سر گھوم گیا تھا ۔لو سناتی ہوں ۔Rove بڑے تکبّر اور نخوت سے بھرے پرے لہجے میں دنیاکو اُس کی گھٹےا اوقات کا احساس دلاتے ہوئے کہتا ہے۔
”ہم ایک ایمپائر ہیں۔جب ہم کوئی کام کرتے ہم اس کے ہونے کا جواز پیدا کرلیتے ہیں۔جب دنیا ہمارے اِس جواز پر غوروغوض کررہی ہوتی ہے۔ہماری ترجیحات کا رُخ بدل جاتا ہے۔ہم تاریخ کے اداکار ہیں اور تم سب لوگ(یعنی باقی دنیا)صرف ےہی جاننے میں لگے رہتے ہےیکہ ہم کر کےآرہے ہیں؟“
اب مجھ جیسی ایک بے عمل اور شورش زدہ قوم کی فرد جلے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہوئے کہتی ہے۔
” ارے کتنا زعم ہے۔خدا تو کہیں انہیں یاد نہیں۔جانتے ہی نہیں کہ ہر دور کی ایمپائر ،ہر دور کی سپر پاور،ہر وقت کی عظیم سلطنت دراصل کسی سرکس کی ہی طرح ہے جو فنکاری اور اداکاری کے کرتب دکھارہی ہوتی ہے۔کرہ ارض پر ظالم خدا کا روپ دھار لیتی ہے اور بھول جاتی ہے کہ اُس کی سکھا شاہی کاوقت کائناتی حاکم اعلیٰ کی تعین کردہ مدت کے اندر ہے۔
ایچی سن میں پڑھنے والا پوتا کسی سے کیوں پیچھے رہتا۔ بھئی آفرین ہیں اِن امریکیوں پر۔مطلب برآری کے لیے گدھے کو بھی باپ بنا لیتے ہیں۔مطلب نکلا تو طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ہمیں تو کھڈے لائن لگارہے تھے۔اب انتخاب قریب ہیں ۔افغانستان کی دلدل سے اپنے فوجیوں کونکالناہے۔ سنگینوں اور طیاروں کی چھاﺅں میں تو اُن کی بحفاظت واپسی ممکن ہی نہیں۔ایک بٹا تین تو سیدھے سیدھے پار لگیں گے۔اور ہاں ایک کروڑ کو مارنے کی دھمکی تو دے رہے ہیں تو اِس میں اِن کے اپنے بندوں کا تناسب کتنا ہوگااس کا ذکر ہی نہیں۔حال کے پانچ سالوں میں امریکیوں کی بہت اموات ہوئیں۔خودکشیاں بھی بہتری ہوئیں۔اب لاکھ ان طالبان کو جاہل ،اجڈ ،گنوار جو مرضی خطاب دیں ۔وہ بھی کیا من موجی ،شاطراور تیز طرار لوگ ہیں ٹوٹی چپلوں کے ساتھ چھلانگیں مار کر جہازوں میں بیٹھتے ہیں۔امریکہ اور پاکستان کو بیوقوف بنانے کا فن خوب جانتے ہیں۔
سچ کہا ہے عمران خان نے کہ طالبان کو منانا کون سا خالہ جی کا گھر ہے۔ سرکش، ہٹ دھرم ،بے لچک رویوں کے حامل تو وہ ہیں۔ان کی کھوپڑیوں میں سمجھوتے اور میانہ روی کی کوئی بات مشکل سے گھستی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply