غاروں کے راز ۔۔۔وہارا امباکر

دس لاکھ سال ہوئے، سمندر یورپ کے علاقے سے نیچے کو اترا تھا۔ یہاں پر چونے کے پتھروں میں غاروں کا ایک سلسلہ نمودار ہوا تھا۔ یہ آخسی سکژوں کے غار ہیں جو فرانس میں برگنڈی کا علاقہ ہے۔ ایک کلومیٹر تک کی گہرائی میں بکھرا غاروں کا یہ سلسلہ آرکیولوجسٹ کے لئے انتہائی دلچسپ ہے اور اس دلچسپی کی ایک وجہ یہاں کی دیواروں پر بنائی گئی تصاویر ہیں۔

یہ تصاویر شاوے کے غاروں کے بعد ملنے والی سب سے پرانی تصاویر ہیں۔ غار دریافت ہوئے زیادہ عرصہ ہو گیا لیکن یہ تصاویر 1990 میں ملیں تھیں۔ ہزاروں سالوں میں بننے والی چونے کی پتلی سی تہہ نے ان کو ڈھک دیا تھا، جس کی وجہ سے ان کا بڑا حصہ دریافت ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ بائزن کی، میمتھ کی، اون کی بال والے گینڈوں کی، ہرن اور بارہ سنگھوں کی، بھالوؤں کی، انسانی ہاتھوں کی تصاویر۔ ان کو گیرو اور کوئلے سے بنایا گیا ہے اور بنانے کے لئے نلکی استعمال کی گئی ہے۔ یہ 28،000 سال پرانی ہیں۔ ہر غار کی طرح یہاں پر پینٹنگ کا اپنی ایک منفرد سٹائل ہے۔ آؤٹ لائن جس کو درمیان سے خالی چھوڑ دیا گیا۔ جانوروں کے پاؤں کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے اور لکیریں نہیں لگائی گئیں۔ صرف سپین اور فرانس میں ہی اس طرح کے تین سو سلسلے دریافت ہو چکے ہیں۔
یہاں پر ایک خاص چیز یہ ہے کہ اس سلسلے میں بہت سے غار ہیں لیکن تصاویر ہر جگہ نہیں۔ کچھ خاص جگہوں پر زیادہ تصاویر ملتی ہیں۔ اور صرف اسی غار کی بات نہیں۔ ایسا کیوں؟ یہ سوال تھا جس کی تلاش رزنیکوف کو تھی۔ رزنیکوف پیرس یونیورسٹی میں صوتیات کے پروفیسر ہیں اور آرکیٹکچر میں ریزوننس کے ماہر۔

Advertisements
julia rana solicitors

رزنیکوف نے ان غاروں میں ریزوننس اور تصاویر کی جگہوں کا تعلق دیکھنے کے لئے جب تجربہ کیا تو نکلنے والا نتیجہ دلچسپ تھا۔ غاروں کے ان مقامات جہاں پر آواز ٹکرا کر کئی بار لوٹتی تھی، یہ تصاویر اس طرح کے مقامات پر ہی زیادہ تھیں۔ اگر یہاں پر کوئی بھی آواز پیدا کی جائے تو گونچ اور بازگشت آواز کو معمول سے تبدیل کر کے ایک نئے ہی رنگ میں ڈھال دیتی ہے۔ آخر یہ تصاویر ایسی جگہ پر ہی کیوں؟
ان غاروں میں بسنے والے یہاں پر ہزاروں سال رہے ہیں۔ اس طرح کے آثار سے ہم ان کی زندگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ لگتا ہے کہ یہ ان کے ثقافتی مراکز تھے۔ یہ جگہیں اور آوازوں کے بنتے یہ دلچسپ رنگ موسیقی کے آلات کے لئے بہترین ہیں۔ آلات چاہے سادہ ہی کیوں نہ ہوں، یہ جگہیں قدرتی اوپیرا ہاؤس ہیں جن کو یہاں رہنے والے باسیوں نے اس تصویری آرٹ سے مزین کیا تھا۔
ان غاروں کا کچھ حصہ عام پبلک کے لئے کھلا ہے۔ کوئی بھی ٹکٹ لے کر یہاں پر جا سکتا ہے۔ جب ہم ان غاروں سے گزرتے ہیں تو جہاں پر ہزاروں سال پرانے باسیوں کے مسکن ہمیں ایک طرف اس دنیا کی ناپائیداری کی اور اس امر کی یاد دلاتے ہیں کہ کچھ بھی کبھی ایک سا نہیں رہتا، دوسری طرف فنونِ لطیفہ کی ان پرانی روایات کی۔ یہاں پر ہمیں اس دور کے مصوروں کے فن پارے آج تک اپنے سامنے نظر آتے ہیں۔ اور ہمیں ان آگ کے الاؤ کے گرد چلتی ان محفلوں کی بھنک بھی ملتی ہے جہاں شاید اُس دور کے گلوکاروں اور سازندوں کو سنا جاتا ہو۔
یہ آرٹ بنانے والے ہاتھ، ان جگہوں کے باسی اور ان محفلوں کے شرکاء انسان نہیں تھے۔ آخسی سکژوں کا یہ غار اس دنیا سے ہمیشہ کے لئے مٹ جانے والے نینڈرتھل کی چھوڑی یادگار ہے۔
غاروں کے اس سلسلے پر
https://en.wikipedia.org/wiki/Caves_of_Arcy-sur-Cure
غاروں کے اس آرٹ پر
https://en.wikipedia.org/wiki/Parietal_art
رزنیکوف کی اکاؤسٹکس کے بارے میں
http://www.abc.net.au/science/articles/2008/…/03/2293114.htm

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply